بیا کہ بریم با مزار۔۔ دیارِ مولانا سے سلام


دوستان گرامی، شمالی افغانستان کے صوبے بلخ کے دار الحکومت مزار شریف سے آداب۔ اس شہر کی وجہ تسمیہ یہاں کے لوگوں کا دعوی ہے کہ حضرت علی علیہ السلام کا مدفن یہاں ہے۔ احباب واقف ہیں کہ ایسا ہی مضبوط دعوی عراق میں نجف اشرف کے باب میں بھی موجود ہے۔ سچ پوچھیں تو تاریخی مواد اس بارے میں خاصا غیر واضح ہے کہ حضرت علی کی شہادت کے بعد ان کے جسد خاکی پر کیا گزری۔ یوں بھی یہ معاملات اعتقادی ہیں اور انہیں معروضی شہادتوں کی کسوٹی پر چڑھانے سے اس خادم کے خیال میں کچھ حاصل نہیں ہو گا۔ یہ خادم مولانا جامی سے منسوب قطعہ کو دل سے قریب پاتا ہے کہ۔

گویند کہ مرتضی علی در نجف است
در بلخ بیا ببین چہ بیت الشرف است
جامی نہ عدن گوی و نہ بین الجبلین
خورشید یکی و نور او ہر طرف است

البتہ یہ بات تاریخی و ادبی حقائق کی روشنی میں متفق بہ ہے کہ مولانا جلال الدین رومی کا مولد بلخ کا خطہ ہے چنانچہ عوام میں ”دیار مولانا“ کے نام سے مشہور ہے۔ یہاں کا ہوائی اڈہ بھی مولانا کے اسم گرامی سے موسوم ہے۔ اس خادم کو پیشہ ورانہ امور کی انجام دہی کے سلسلہ میں دو روز قبل بلخ آنے کا اذن ہوا۔ بلخ قدیم تاریخی شہر ہے۔ اسلام کی آمد سے قبل یہ بدھ مت اور زرتشتی مذہب کا اہم مرکز رہا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ہارون الرشید عباسی کے مشیران برمکی یہیں کے رہنے والے تھے اور ان کے اجداد بدھ مت کے علماء گزرے ہیں۔

کچھ ماہرین لسانیات کا خیال ہے کہ ان کا لقب ”پر مکھ“ تھا جس کی تعریب کر کے اسے برمک بنا دیا گیا۔ بلخ آمو دریا کے کنارے پر واقع ہے جو افغانستان اور ازبکستان کے بیچ سرحد کا کام دیتا ہے۔ دریا پر بنا ایک پل اسے ازبکستان کے تاریخی خطے ترمذ سے منسلک کرتا ہے۔ گزشتہ سالوں میں ترمذ اور مزار شریف کے درمیان ریلوے لائن بھی بچھائی گئی ہے جو سامان کی نقل و حمل کے لیے اب بھی فعال ہے۔

اہل بلوچستان کے لیے یہ امر دلچسپی کا موجب ہو گا کہ ہمارے ہاں مشہور قدیم فارسی شاعرہ رابعہ خضداری بی بی کا بھی کچھ تعلق بلخ سے رہا ہے۔ یہاں وہ رابعہ بلخی کے نام سے مشہور ہیں۔ ان کا ذکر اور نمونہ کلام فارسی ادب کی قدیم ترین تاریخوں اور رودکی اور عوفی کے اشعار اور تذکروں میں بلخی اور خضداری دونوں القاب سے موجود ہے۔ ہم بے قدروں نے تو ان کے نام کو کیا زندہ رکھنا تھا لیکن اہل بلخ نے ایک چوک پر بنی ہوئی دیدہ زیب یادگار اور خواتین کے لیے ایک درس گاہ کو ان سے موسوم کر کے انہیں خراج عقیدت پیش کر رکھا ہے۔

اقتصادی صورت حال بلخ میں دیگر افغانستان سے زیادہ مختلف نہیں ہے۔ مالیاتی نظام کے سسکنے، لوگوں کی سالوں کی بچت کے بینکوں میں جام ہو جانے، سرکاری اور نجی اداروں کے بند ہو جانے، سرمائے کی ناپیدگی اور کساد بازاری کے سبب مرد وزن میں بے روزگاری عام ہے۔ ہمارے ادارے نے اس زخم پر جزوی مرہم رکھنے کے لیے مزدوری پیدا کرنے کا کچھ انتظام کیا ہے اور مزار شریف سے گزرنے والی ایک نہر اور نواحی دیہی علاقے تاش قرغان کے ضلع خلم میں دریا کے طاس سے مٹی ہٹانے کا کام اس کا نقطہ آغاز ہے۔

اس کے علاوہ گھریلو صنعتوں، بالخصوص خواتین کاروباریوں کی مدد کرنے پر بھی توجہ دی جا رہی ہے۔ اس سلسلے میں تاش قرغان بھی جانا ہوا۔ ”تاش قرغان“ نام کی جگہیں وسط ایشیاء میں جابجا ملتی ہیں۔ یہ ترکی الاصل لفظ ہے۔ ”تاش“ پتھر کو کہتے ہیں اور ”قرغان“ اجتماعی خاندانی مقبروں کو۔ یہ تحقیق نہ ہو سکی کہ مذکورہ قرغان کہاں واقع تھا۔ خلم نامی ضلعے میں ایک ندی آبادیوں اور انار کے باغات کے بیچوں بیچ گزرتی ہے۔ نواحی پہاڑوں کی برف جب موسم بہار میں پگھلتی ہے تو طغیانی کے سبب پانی کناروں کو توڑ کر بستیوں اور باغات میں داخل ہوجاتا ہے اور انہیں تاراج کر دیتا ہے۔

یہاں طرز تعمیر کچے مکانوں پر مشتمل ہے جن کی چھتیں موسمی سختیوں کا مقابلہ کرنے کے گنبد نما ہوتی ہیں۔ چنانچہ یہ پانی کے ریلوں کے سامنے نہیں ٹھہر سکتے۔ اس خطرے سے بچاؤ اور لوگوں کو عارضی روزگار فراہم کرنے کی غرض سے دریا کے طاس سے ریت، مٹی نکال کر، اسے بوریوں میں بھر کر پشتوں کو اونچا کرنے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے جسے ہمارے ادارے کا مالی تعاون حاصل ہے۔

ایک خوش آئند چیز یہ نظر آئی کہ مزار شریف میں بھی حجاب یا خال خال برقع پوش خواتین تنہا یا گروہ کی شکل میں ہر جانب نظر آتی ہیں۔ بتایا گیا کہ مقامی آبادی کے دباؤ کے پیش نظر بلخ سمیت چار ملحقہ صوبوں میں لڑکیوں کے ثانوی مدرسے کھل چکے ہیں۔ سرکاری دانش گاہیں بند ہیں مگر نجی جامعات نے خواتین کی تعلیم کو کھول دیا ہے۔ موجودہ حکم رانوں نے بوجوہ اس سے تعرض نہیں کیا ہے، لیکن باقی ملک میں خواتین کی تعلیم و روزگار کی صورت حال ویسی ہی تکلیف دہ ہے جیسا کہ گزشتہ مراسلات میں عرض کی گئی تھی۔

حضرت علی علیہ السلام کا مبینہ مزار اور اس سے ملحق مسجد شہر کے وسط میں ایک وسیع و عریض باغ میں واقع ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس کی موجودہ شکل بارہویں صدی میں سلجوق سلاطین کی بنا کردہ ترتیب پر استوار ہے۔ پوری عمارت وسط ایشیائی نیلی ٹائلوں کی کاشی کاری سے مزین ہے۔ اس خادم کو نجف اشرف حاضری دینے کی سعادت تاحال حاصل نہیں ہوئی ہے لیکن تصاویر کو دیکھا جائے تو مزار شریف بھی وسعت، رعنائی اور فرحت بخشی میں کم نہیں ہے۔

بلکہ بھیڑ بھاڑ کم ہونے کے سبب دل کی کشادگی کا ایک تاثر پیدا کرتا ہے۔ قدیم فارسی گیت ہے جسے بیسویں صدی میں افغانستان کے مشہور گلوکار ”ساربان“ استاد نے گا کر امر کر دیا، ”بیا کہ بریم بامزار، ملا محمد جان۔ سیر گل لالہ زار، واہ واہ دلبر جان“ ۔ شوقین احباب یو ٹیوب پر تلاش کر کے سماعت فرما سکتے ہیں۔ یہ خادم زیارت کو حاضر ہوا تو خزاں کا موسم تھا لیکن سیر گل کی باقی ماندہ رمق اور زائرین کے چہروں پر طاری امید کی کیفیت نے بے اختیار ”واہ واہ دلبر جان“ کہنے پر مجبور کر دیا۔

حاصل سفر مزار کے احاطے کے دروازے پر کاشی کاری میں رقم رحمان بابا کے پشتو اشعار میں مضمر سبق رہا۔ [مجبورا] اردو رسم الخط میں اشعار اور ان کا ٹوٹا پھوٹا ترجمہ احباب کی خدمت میں پیش ہے۔ خصوصاً آخری شعر کی لطیف ترکیب نکتہ رس احباب کے لیے سامان فکر و حظ فراہم کرے گی۔

پہ دوئی کی بہ ورنہ شے تر توحیدہ
سو ضمیر دے خالی نہ شی لہ اشراکہ
دا ہمہ واڑہ حجاب دی چی لیدہ شی
نور د حسن بالاتر دی لہ افلاکہ
بالا دست بہ شے ہالا پہ نورو ونو
کہ تعلیم د زیر دستی واخلے لہ تاکہ

دوئی میں پھنسے رہے تو توحید تک نہیں پہنچ پاؤ گے، جب تک کہ ضمیر کو شرک سے پاک نہ کرلو۔ یہ جو کچھ دیکھتے ہو، یہ محض پردہ ہے، کہ حسن کا نور تو افلاک سے بالاتر ہے۔ اگر دوسرے درختوں پر چھا جانا چاہتے ہو تو پہلے انگور کی بیل سے عاجزی سیکھو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments