عمران خان کو کرکٹ کے بعد سیاست نہیں، روحانیت اختیار کرنا چاہیے تھی



ماہرین نفسیات کا خیال ہے کہ کرہ ارض کے پچانوے فیصد لوگ ساری عمر یہ نہیں جان پاتے کہ وہ اپنے اندر کون سا ”جوہر خاص“ یا ”کمپیٹنس“ رکھتے ہیں۔ ایک نفسیاتی سائنسدان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اپنا ”جوہر خاص“ جانے بغیر نوے فیصد لوگ خواہشات پال لیتے ہیں۔ اور ساری زندگی ان خواہشات کے حصول پر صرف کر دیتے ہیں۔ اور شدید محنت کرتے ہیں۔ مگر ایسی زندگی ایک تناؤ آور زندگی ہوتی ہے۔ کیونکہ ”کمپیٹنس“ کی عدم موجودگی میں جب آپ کاوش کرتے ہیں تو وہ ثمر بار نہیں ہو پاتی۔

جب ایسا ہوتا ہے تو ذہنی تناؤ میں مزید اضافہ ہوتا ہے۔ ماہرین نفسیات کا یہ بھی خیال ہے کہ ذہنی تناؤ یا سٹریس ہمیشہ منزل سے دور ہی لے کر جاتا ہے۔ اس کیفیت میں مبتلا لوگ مختلف قسم کی ذہنی الجھنوں اور نفسیاتی عارضوں کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اکثر اس، سٹریس یا تناؤ سے نکلنے کے لئے نشے کا سہارا بھی لیتے ہیں۔ یا دماغی بیماریوں شکار ہو جاتے ہیں۔ ایسے افراد اپنا شعبۂ زندگی بھی بار بار بدلتے ہیں۔

اس دنیا میں پانچ فیصد افراد ایسے ہیں جن کو کم عمری میں ہی اپنے ”جو ہر خاص“ کا پتہ چل جاتا ہے۔ وہ اس کو اپنا عشق یا پیشن بنا لیتے ہیں۔ یہ خوش قسمت لوگ اپنی زندگی بھر پور طریقے سے گزارتے ہیں اور زندگی ان کے ساتھ رقص کرتی ہے۔ یہ لوگ ہر دم ہرے بھرے اور خوشگوار رہتے ہیں۔ دیر سے بوڑھے ہوتے ہیں اور ان کے جسم کا ہر ایک رواں ہر وقت خوشی سے نہال رہتا ہے۔

مختار مسعود صاحب نے اپنی کتاب ”آواز دوست“ میں ایک جگہ لکھا ہے کہ ”خوش قسمت ترین شخص وہ ہوتا ہے جس کا شوق اس کا پیشہ ہو۔“ ”

وزیراعظم پاکستان عمران خان اپنی خود نوشت جو کہ زیادہ تر تاریخ اسلام اور مطالعہ پاکستان پر مشتمل ہے، کے پہلے ہی باب میں لکھتے ہیں : ”کہ جب میں سات سال کا تھا تو والدہ صاحبہ مجھے سوتے وقت انبیاء اکرام کے قصے سنایا کرتی تھیں۔ اس کے بعد وہ جنت اور دوزخ کے مناظر بتاتی تھیں۔ مجھے دوزخ کی تو سمجھ آتی تھی۔ مگر جنت سمجھ نہ آتی۔ میں اپنی والدہ صاحبہ سے اکثر پوچھا کرتا کہ کیا میں جنت میں بھی کرکٹ کھیل سکوں گا؟

عمران خان کی تحریر سے لگتا ہے کہ کرکٹ ان کا پہلا عشق یا جوہر خاص یا ”کمپیٹنس“ ہے۔ انھوں اپنی زندگی کے اکیس سال کرکٹ کھیلی۔ وہ دنیا کے تیسرے تیز ترین باولر کا اعزاز بھی حاصل کر چکے ہیں۔ اپنی زندگی کا آخری ایک روزہ میچ میں پاکستان کے لئے ورلڈ کپ جیت کر عمران خان نے اپنے شوق، عشق اور پیشے کو خیر باد کہہ دیا۔ انھوں اس عشق کو چھوڑ دیا جس نے ان کو دنیا بھر میں متعارف کروایا تھا۔

اپنے پیشن کو چھوڑنے کے بعد عمران خان سماجی کام کرنے لگے۔ اب ان کا شوق کرکٹ سے ہٹ کر پاکستان میں ایک سٹیٹ آف دی آرٹ کینسر ہسپتال بنانا تھا۔ جہاں غریبوں کا مفت علاج ہونا تھا۔ ہسپتال تو بن گیا مگر اس میں غریبوں کا مفت علاج ہونا ابھی باقی ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ اپنی سیاسی پارٹی ”تحریک انصاف“ کے نام سے بنا ڈالی اور بیس سال کی سیاسی جدوجہد کے بعد وہ وزیراعظم پاکستان بن گئے۔ نفسیات دان یہ بھی لکھتے ہیں کہ جب ساٹھ سال کی عمر کو پہنچ کر ذہنی قوا کمزور ہو جاتے ہیں تو عموماً لوگ مذہب یا روحانیت میں پناہ تلاش کرتے ہیں۔ پاکستان میں علامہ اقبال، اشفاق احمد، قدرت اللہ شہاب، ممتاز مفتی اور مستنصر حسین تارڑ، اس نظریے کی عمدہ مثالیں ہیں۔ بلکہ چند دن قبل ایک ٹی وی پروگرام میں مستنصر حسین یہ بھی کہتے سنے گئے کہ ”میں بڑی پہنچی ہوئی شے ہوں۔“

اب محترم وزیر اعظم بھی مذہب اور روحانیت کی طرف مائل ہیں۔ ان کے گزشتہ سال کے سخت مذہبی اقدامات اس امر پر غمازی کرتے ہیں۔ دو سال قبل گوجر خان کے قریب ایک جامعہ کا افتتاح کرتے ہوئے انھوں نے تاکید کی کہ سائنس کے ساتھ ساتھ روحانی تعلیمات کو القادر یونیورسٹی میں نصاب کا حصہ بنایا جائے۔ عین ممکن ہے کہ اگلے بیس سال وہ ایک پہنچی ہوئی روحانی شخصیت کے طور پر بسر کریں۔ وہ طالبان کی افغانستان میں قائم ہونے والی جبری حکومت کے دنیا میں واحد حامی ہیں۔ جو ریاست مدینہ کی طرز پر قائم ہوئی ہے۔

مذہب کی طرف مائل ہونے کے بعد عمران خان پاکستان کو بھی ریاست مدینہ بنانے کی شدید خواہش رکھتے ہیں۔ انھوں نے اس سلسلے میں تین سال انتھک محنت کی ہے۔ اب تک کی پاکستانی ریاست مدینہ کا جو نقشہ سامنے آیا ہے۔ وہ درج ذیل ہے :

عمران خان پچھلی حکومتوں کی کرپشن کو اپنے الیکشن کا منشور بنا کر میدان میں اترے تھے۔ مگر نیب کے منہ زور گھوڑے سے ایڑی چوٹی کا زور لگوا کر بھی ایک پیسہ ماضی کے چور حکمرانوں سے وصول کرنے میں ناکام رہے۔ بلکہ ایک چور کو تو دن دیہاڑے لندن جانے کی اجازت بھی دے دی۔ حالانکہ وہ متعدد بار یہ کہہ چکے تھے کہ وہ بڑے چوروں کو نہیں چھوڑیں گے۔

بہر حال عام آدمی کا یہ مسئلہ ہے ہی نہیں۔ عام آدمی کو روز مرہ کے کھانے پینے کی اشیاء سستی چاہئیں۔ پٹرول سستا چاہیے، باعزت روز گار چاہیے۔ دو وقت کی عزت کی روٹی چاہیے۔ مگر مجوزہ ریاست مدینہ میں پیٹرولیم مصنوعات ہر دو ہفتے بعد مہنگی ہو جاتی ہیں۔ خام تیل تو درآمد ہوتا ہے اور اس کا تعلق عالمی منڈی میں تیل کی قیمت سے ہے مگر آٹا، چینی، گھی آلو پیاز اور دالیں ملک میں پیدا ہوتی ہیں ان کا مہنگا ہونے کا کیا جواز ہے؟

عمران خان عام تقریروں میں بین الاقوامی قرضوں کا ذکر کرتے ہیں۔ اور عوام کو یہ کہہ کر تسلی دیتے رہتے ہیں کہ ملک قرضوں کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے۔ عوام گھبرائے نہیں۔ قرضے اترتے ہی پاکستان میں ہر طرف دودھ اور شہد کی نہریں بہنا شروع کر دیں گی۔

سوال یہ ہے کہ پاکستان کے بین الاقوامی قرضے اتنے زیادہ ہیں کہ شاید وہ اگلے پچاس سالوں میں بھی نہ اتر سکیں تو کیا عوام مہنگائی کے بوجھ تلے پستی رہے گی؟

وہ جب اپنے ایک سو پچیس روزہ دھرنے میں ڈی چوک اسلام آباد میں ایک مختصر کابینہ کی نوید سناتے تھے۔ جس کی تعداد دس پندرہ وزراء سے اوپر نہیں ہوتی تھی۔ اب وزرا ء اور مشیران کی تعداد پانچ کرکٹ ٹیموں سے تجاوز کر چکی ہے۔ ان میں پچیس فی صد ایسے ماہرین بھی ہیں جو گزشتہ حکومتوں میں شامل تھے۔ اور اب لوگوں پر یہ انکشاف کرتے ہیں کہ یہ سب پچھلی حکومتوں کا کیا دھرا ہے۔ ٹیکنو کریٹس کی ایک غیر جانبدار ٹیم بنانے میں کیا رکاوٹ ہے؟

اب حکومتی وزراء یہ بھی کہتے ہیں کہ آٹا، گھی، چینی اور دالوں کے مافیا کے سامنے عمران خان بے بس ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر وہ ان اشیاء کو سستا کر کے عوام کو فراہم کرنا چاہتے ہیں تو وہ آٹے اور چینی اور گھی کی ملوں کو قومی تحویل میں کیوں نہیں لے سکتے؟ اس میں کیا رکاوٹ ہے؟

عمران خان کا یہ وژن ہے کہ لوگوں کو با عزت روزگار دینے کی بجائے ان کو احساس پروگرام کے تحت خیرات دی جائے اور مکان دینے کی بجائے شیلٹر ہومز میں رکھا جائے۔ کیا اب وہ اس اقبال سے شرمندہ نہیں ہوتے جس کی خودی کے فلسفے کی انھوں نے اپنی خود نوشت میں تشریح کی تھی؟ اگر عمران خان عام آدمی کو ریلیف دینے میں ناکام رہے ہیں، مافیا کے ہاتھوں بے بس ہیں اور وہ بڑی مچھلیوں کو پکڑ نہیں سکتے اور کرپشن سے غبن شدہ دولت واپس نہیں لا سکتے، تو حکومت سے چمٹے رہنے کا کیا جواز ہے؟

وہ قوم سے بار بار خطاب میں مزید سہانے خواب دکھانے کی بجائے اپنی ناکامی کا اعتراف کر کے حکومت سے علیحدگی اختیار کر لیں۔

ان کا پہلا عشق کرکٹ آج بھی ان کا انتظار کرتا ہے۔ وہ پاکستان میں ایک مفت کرکٹ اکیڈمی کھول سکتے ہیں اور اگر عمر کے تقاضوں کے پیش نظر ایسا ممکن نہ ہو تو عمران خان کے پاس ایک پہنچی ہوئی روحانی شخصیت بننے کی آپشن تو بہر حال موجود ہے۔ وہ بنی گالہ میں ایک حجرہ بنا کر غمزدہ اور دکھی عوام کی خدمت کر سکتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments