بانکے بہاری


”ارے بڑے بدمعاش تھے نریندر بھیا، اسکول میں اور پورے محلے میں سب لوگوں کی بدمعاشی نکال دھین تھا۔ سب کو سیدھا کر کے رکھا ہوا تھا انہوں نے۔ اور فوج میں بھی بڑا شان تھا ان کا اور لڑائی بھڑائی میں تو پاکستانی فوج کا چھکا چھڑا دیا تھا انہوں نے، بنگلہ دیش جا کر ایک تمغہ اس کا بھی ہے ان کے پاس۔“ پھر یکایک احساس ہوا تھا اسے کہ وہ پاکستانیوں میں ہی بیٹھا ہے۔ جھٹ سے وہ بات گول کر گیا تھا۔ ہم لوگ بھی بیئر کے نشے میں درگزر کر گئے تھے۔

اس زمانے میں یکایک آئرلینڈ میں باہر کے ڈاکٹروں کی نوکری کا تھوڑا سا مسئلہ ہو گیا تھا۔ ہم تینوں کوشش کر رہے تھے مگر اچھی نوکری نہیں مل پا رہی تھی اور جب تک اچھی نوکری نہیں ملتی اس وقت تک ایف آر ایس کے دوسرے حصے کا امتحان پاس کرنا بھی ایک مسئلہ ہی تھا۔ ایک دفعہ ایف آر سی ایس پاس کرلیتے تو پھر انگلینڈ میں کسی اور جگہ اور اچھی نوکری مل جاتی مگر ایف آر سی ایس سے پہلے ڈبلن میں ہی نوکری نہیں مل رہی تھی۔ ہم لوگوں نے اپنے اپنے دوستوں کو ادھر ادھر خبر بھی کی ہوئی تھی کہیں کوئی نوکری نکلے، انٹرویو ہو سکے تو خبر کریں مگر نوکری کا کچھ پتہ نہیں تھا۔

مرلن پارک ہسپتال کی نوکری ہم تینوں کو اگلے چھ ماہ کے لئے مل گئی تھی۔ مگر ہم لوگ اپنی سی کوششوں میں لگے ہوئے تھے کہ کسی طرح سے ڈبلن کے کسی اچھے سینٹر میں نوکری ملے۔ کئی دفعہ ہم تینوں اور کبھی میں اور راجندر اور کبھی مرتضیٰ اور راجندر ناتھ ساتھ انٹرویو دینے گئے۔ نوکری نہ ملنے کے باوجود اور تھوڑی بہت پڑھائی کے ساتھ ہماری شام کی محفلیں اسی طرح سے چل رہی تھیں۔ وہی شراب خانے، وہی ڈسکو کی راتیں، وہی شراب پینا اور پھر نشے میں مست ہو کر اپنے اپنے دل کی بات سنانا۔

میرے پاس بتانے کو کراچی کی محرومیاں ہوتی تھیں، نوکری نہ ملنے کے دکھڑے، کراچی کی شامیں، کلفٹن کا ذکر اور ہاکس بے کی راتیں اور کراچی سے آنے والی خبریں کہ کس طرح سے غربت بڑھ رہی ہے اور فوجی حکمراں اور ان کے چہیتے کس طرح سے لوٹ مار کر رہے ہیں۔ مرتضیٰ بھی یہی باتیں کرتا تھا مگراس کی باتوں میں ایک طرح کا اطمینان سا ہوتا تھا کہ جیسے وہ محفوظ ہو۔ حکومت ضیا الحق کی ہو، اور بے نظیر کی حکومت نہ بھی آئے، ہمارا کام ہوجاتا ہے۔

یورپ میں رہنے کے باوجود وہ سندھ کے جاگیرداری کے نظام کا حامی تھا۔ اس کا خیال تھا کہ کاروکاری کی وجہ سے سوسائٹی بے ہودگی سے بچی ہوئی ہے۔ جو لوگ زیادہ لے کر پیدا ہوتے ہیں وہ زیادہ کھا کر ہی مریں گے۔ خدا نے ہی جاگیردار بنائے ہیں۔ اور خدا ہی نے ہاری بھی بنائے ہیں۔ راجندر ہندوستان کی باتیں کرتا تھا۔ نہرو کے زرعی اصلاحات کا ذکر کرتا تھا۔ امیتابھ بچن اور دلیپ کمار کی باتیں سناتا تھا۔ ہندوستان کی صنعت کا مقابلہ انگلستان سے کرتا تھا اور اپنے کرنل بھائی کے قصے سناتا تھا کہ انہوں نے چین سے جنگ میں کیا کیا تھا اور بنگلہ دیش میں کیا ہوا تھا۔ ہم لوگ سنتے تھے، بحث کرتے تھے، غصہ کرتے تھے اور ہنستے تھے۔

یکایک مجھے سینٹ ونسنٹ ہسپتال میں نوکری مل گئی تھی اور میں راجندر اور مرتضیٰ کو گالوے چھوڑ کر ڈبلن آ گیا تھا۔ نئی نوکری تھی اور ڈبلن کی زندگی ذرا مختلف تھی۔ میں نے سب سے زیادہ راجندر کو ہی مس کیا تھا۔ کئی دفعہ وہ ڈبلن آیا تھا، ویک اینڈ پر میرے ساتھ رہا تھا، ہم ہنسے تھے، ساتھ پیتے رہے تھے اور شاید روئے بھی تھے۔ شکیلہ کی شادی ہو گئی تھی۔ اس کے لئے بھی اس کی ماں جی نے ایک لڑکی پسند کرلی تھی۔ میری آئرش گرل فرینڈ بھی مجھے چھوڑ گئی تھی، زندگی گزر رہی تھی۔ پھر یہ ہوا تھا کہ سینٹ ونسنٹ میں ایک نوکری نکلی تھی اور میں نے کوشش کر کے ڈاکٹر لارسن سے بات کی تھی جنہوں نے راجندر کو انٹرویو کے لئے بلا لیا تھا پھر اسے بھی نوکری مل گئی۔ یہ سب کچھ بہت تیزی کے ساتھ ہوا تھا۔ مجھے ایسا لگا تھا جیسے میں نے ایک قرض سا اتار دیا ہے۔

اس دن میں اپنے اپارٹمنٹ میں اکیلا ہی بیٹھا ہوا تھا جب مرتضیٰ آ گیا تھا۔ بہت دنوں بعد اس سے ملاقات ہوئی تھی۔ میرے کچھ کہنے سے پہلے ہی وہ بول پڑا تھا۔ ”ہندو کی اولاد ہو تم، ہندو کی اولاد۔ مجھے فون کر کے ایک مسلمان کو ، ایک پاکستانی کو انٹرویو کے لئے تم نے نہیں بلایا بلکہ اس کافر کی اولاد ہندوستانی کو بلایا اور اس کو نوکری دلائی۔ آستین کے سانپ ہو تم، آستین کے سانپ۔ تمہارا دوست ہندوستانی ہندو ہے۔ میں نہیں ہوں۔ تم اور تمہارا دوست کافر کی اولاد ہو، کافر کی اولاد۔“

میری اس نے کچھ بھی نہیں سنی تھی۔ میں نے سمجھانے کی کوشش کی، کچھ بتانے کی کوشش کی مگر مرتضیٰ غصے میں تھا۔ رعونت سے بھرے ہوئے اس کے تمتماتے چہرے پر نفرت کی لکیریں شدید تھیں۔ اسے نوکری کی ضرورت نہیں تھی۔ وہ غریب آدمی نہیں تھا۔ اس کو اس بات کا احساس تھا۔ اس کو اس بات کا غصہ تھا کہ میں نے راجندر کو فوقیت کیوں دی تھی۔ وہ سب کچھ کہہ کر غصے سے دروازے کو بھیڑتا ہوا چلا گیا تھا۔

میں اس سے بہت کچھ کہنا چاہتا تھا۔ میں اس سے یہ کہنا چاہتا تھا کہ جتنا مسلمان وہ ہے اتنا مسلمان تو راجندر بھی ہے، وہی شراب، وہی ڈسکو اور وہی لڑکیاں۔ صرف اس بنیاد پر کہ اس کا نام مرتضیٰ ہے میری اس سے زیادہ دوستی تو نہیں ہو سکتی تھی۔ وہ بھی مجھے گالوے میں ملا تھا اور راجندر بھی مجھے گالوے میں ملا تھا۔ مگر وہ یہ سننے کے لئے رکا نہیں تھا۔

میں اس سے کہنا چاہتا تھا کہ ٹھیک ہے، ہم دونوں پاکستانی تھے مگر پاکستانی تو وہ سومرو لڑکا بھی تھا جو چانڈکا میڈیکل کالج میں پڑھتا تھا جس نے مرتضیٰ کی کزن سے دوستی کرلی تھی۔ اسے اور مرتضیٰ کی کزن کو مرتضیٰ کے خاندان والوں نے اس جرم کی سزا کے طور پر مروا دیا تھا۔ یہ تو مرتضیٰ نے خود مجھے بڑے غرورے بتایا تھا کہ کاروکاری کا یہی اصول ہے اور یہی معاشرے کو برائی سے بچاتا ہے۔ میں اس سے یہ بھی نہیں کہہ سکا تھا کہ اس پاکستانی کا بھی کوئی حساب ہے؟

میں اس کو بتانا چاہتا تھا کہ کراچی میں جب میرے جیسے بہت سے لوگوں کو نوکری نہیں ملتی ہے تو کراچی کی ہی سیٹ پر دوسرے پاکستانی ڈومیسائل اور سرٹیفکیٹ بنوا کر نوکری لے لیتے ہیں۔ کبھی ان پاکستانیوں کے بارے میں بھی یوں غصہ کیا ہے، اس طرح سے آگ اگلی ہے، کبھی سوچا ہے ان ننگے پیروں اور سوکھے جسموں کے ساتھ کھیتوں میں کام کرنے والے سندھی پاکستانیوں کے بارے میں جنہوں نے مرتضیٰ جیسے لوگوں کے صرف پیر چھوئے ہیں۔ کبھی ان کے لئے دل جلا ہے؟

مگر میں یہ بھی نہیں کہہ سکا تھا۔ یہ بات میں نے کراچی میں، پاکستان میں بھی نہیں کہی تھی اور یہاں بھی نہیں کہہ سکا تھا۔ مگر یہ وجہ تو نہیں تھی مرتضیٰ کو نہ بلانے کی اور راجندر کو نوکری دلانے کی۔ اور یہ بات تو اس کو میں ضرور ہی بتانا چاہتا تھا۔ میں اسے بتانا چاہتا تھا کہ 1971 ء میں جب بنگلہ دیش میں بہاری مسلمان پاکستانیوں کے ایک گروہ کو تنزیل الرحمان، محب الایمان اور بدرالدین جیسے نام کے مکتی باہنی والے گولیوں کا نشانہ بنانے والے تھے تو راجندر کے بھائی نریندر نے انہیں بچایا تھا۔

ایک دن راجندر نے بڑے دکھ سے یہ کہانی سنائی تھی مجھے۔ ”ارے ہمرا بھائی اسی وقت اس جگہ سے گزرا تھا۔ سالا بنگالی لوگ بہت سارا بہاری کو مارے دیریا تھا۔ ہمرا بھائی نے بولا پاکستانی فوجی لوگوں کا جھگڑا میں تم بہاری لوگوں کو نہ مار سکو گے۔ ہم بھی بہاری ہیں۔ یہ ادھر کے ہیں ہم ادھر کے ہیں۔ اگر مارو گے تو تم لوگوں کو بھی بھون دیویں گے۔“ وہ سارے مسلمان بنگالی بھاگ گئے تھے اور اس قافلے کو اس نے کلکتہ بھجوایا تھا۔

اس راجندر کا بہت بڑا قرض تھا مجھ پر ۔ شکیلہ سے لے کر ڈھاکے کے بہاریوں تک۔ بال بال جکڑا ہوا تھا۔ میں اگر ایک دفعہ راجندر کے کام آ گیا تھا تو کیا بری بات تھی۔

مرتضیٰ یہ کبھی بھی نہیں سمجھے گا۔ اس نے کبھی دیا نہیں، اس نے لیا ہے، اپنے ہاری سے لے کر کراچی کے ڈومیسائل تک۔

ڈاکٹر شیر شاہ سید
Latest posts by ڈاکٹر شیر شاہ سید (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments