رباب کے بول اور نیلے گدھے کا سچ


لوک گیتوں کے ساتھ رباب کی دھیمی دھن من کے پیالے میں شہد کی حلاوت گھول دیتی ہے۔ دھیمے سرتال میں سارنگ چرواہے کا وہ نغمہ آج بھی لفظ بہ لفظ یاد ہے جو رگوں میں دوڑنے والے خون کو میٹھا شہد بنا دیتا تھا۔ سارنگ رباب کے آخری تار پر انگلی یوں ہی بے خیالی میں ہلاتا اور پھر دھمیے سر میں نغمہ اٹھاتا۔

کہا اس دلربا نے۔ اس دل خانہ خراب میں اک انجان سی کسک ہے۔ میں نے کہا۔ میں واری جاواں۔ کیا ہے؟ ہنس کر بولی ’بس یوں ہی‘۔ میں نے کہا۔ اس ’یوں ہی‘ پر میں واری۔ اس یوں ہی میں جانے کیا ہے۔ مٹھاس ہے یا تلخی۔ پھول ہیں یا پانی۔ بتا دے کیا ہے۔ اس نے کہا۔ نہ مٹھاس ہے نہ تلخی۔ نہ ہی پھول اور نہ پانی۔ جانے کیا ہے۔ کچھ درد ہیں میٹھے سے۔ کبھی کم کبھی زیادہ۔ کبھی پاس اور کبھی دور۔ کچھ یادیں ہیں جو یاد آتی ہیں۔ نہ بھولتی ہیں نہ بھولنے دیتی ہیں۔ کہا میں نے۔ اے میری قرب گریز دلربا۔ یہ دل بے قرار، یہ ٹوٹی آروزئیں، یہ ادھوری امنگیں سوالی ہیں۔ چل یہ درد تول لیتے ہیں۔ آدھے رکھ لے۔ آدھے دے جا۔ اس نے کہا۔ نہیں ہو سکتا۔ ممکن نہیں ہے۔ میں نے کہا کیوں؟ ہنس کر بولی۔ بس یوں ہی۔

اس بار مگر رباب سے سر اٹھانے والا سارنگ چرواہا نہیں تھا۔ دینو تھا۔ دینو نے نغمہ ختم کیا تو جانے کیوں اپنی آنکھیں تر ہوتی محسوس ہوئیں مگر دینو خود پھوٹ پھوٹ کر رویا۔ کہنے لگا۔ یارا! میں بہت کوشش اور دن رات کی بھاگ دوڑکے بعد بھی صرف دو وقت کی روٹی پر قادر ہو سکا ہوں۔ دینو میرے بچپن کا دوست تھا۔ پتھریلے پہاڑی دروں میں جب بہار کے رنگ کھلتے تو سارنگ چرواہا گاؤں کی بھیڑ بکریاں لے کر ان پہاڑی دروں کی طرف نکل جاتا تھااور پھر چار پانچ دن بعد ہی لوٹتا۔ وہ بہت اچھی بانسری بجاتا تھا مگر بہار کے اس سفر میں اس کا ساتھی رباب تھا۔ میں اور دینو رباب کے بہت شوقین تھے لیکن سارنگ گاؤں میں نہ رباب بجاتا تھا اور نہ سکھاتا تھا۔ حل یہ نکلا کہ دینو اور میں اس کے والد کے گدھے پر چرواہے سے رباب سیکھنے جائیں گے ا ور شام کو واپسی پر میں اسے اپنی سائیکل چلانے دوں گا۔ دینو کا والد گدھا گاڑی چلاتا تھا اور جمعہ کو چھٹی کرتا تھا۔ دیہات کی ساری زندگی بارٹر سسٹم پر چلتی تھی۔ دینو کے والد کے گدھے پر سواری کے بدلے اسے سائیکل چلانے دینی پڑتی تھی۔ سارنگ اس شرط پر رباب سکھانے کو راضی تھا کہ جب وہ گاؤں واپس آئے گا تو ہم اس کے لیے لسی لے جاتے ہوئے اس میں ماں جی سے مکھن کا پیڑا چرا کر اسے دیں گے۔
دینو کا گدھا جسے اس کا والد ٹکری ماما، شین خر(نیلا گدھا) کہہ کے بلاتا تھا کافی کاروباری واقع ہوا تھا۔ دو گھنٹے کی مسافت میں پوری چار سوکھی روٹیوں سے کم پر کسی صورت راضی نہیں ہوتا تھا۔ ٹکری ماما کو شین خر سے بہت پیار تھا کہ بہرحال اس کی روزی روٹی شین خر ہی سے مشروط تھی۔ وہ کہتا تھا۔ اوے گدھو!تم لوگ دس دس جماعتیں پڑھ گئے ہو مگر میرا شین تم لوگوں سے زیادہ سمجھدار ہے۔ میری بات سمجھتا ہے۔ مجھے کما کر دیتا ہے۔ نہ جھوٹ بولتا ہے نہ بے ایمانی نہیں کرتا۔ تم لوگ تو نرے خر ہو۔ ٹکری ماما جمعہ کی صبح صبح شین کو اچھی طرح نہلا دھلا کر شہر جمعہ پڑھنے کے لیے پیدل نکل جاتا تو ہم شین پر چھاپہ مارتے۔ واپسی پر ہمیں شین کی سروس بھی کروانی ہوتی تھی کہ ٹکری ماما کو پتہ نہ چلے۔ ٹکری ماما کی جھڑکیاں سننے کے بعد دینو راستے میں ایک بار ضرور کہتا۔ کاش میں شین ہوتا۔ کم ازکم ابا خوش تو ہوتے۔

پہاڑی دروں میں ایک عجیب پر کیف سماں ہوتا تھا۔ شفاف پانیوں کے میٹھے جھرنے۔ پرندوں کا چہچہانا۔ گل لالہ کی تو گویا تخم پاشی ہوئی تھی۔ اور سب سے بڑھ کر چکوروں کے غول کے غول۔ بہار کے بادل جب زمین کے سینے سے پانی کے موتی اٹھا کر واپس پلٹاتے تو بالکل جنت کا سا گماں ہوتا تھا۔ کاش زندگی کی وہ بہاریں ایک بار پھر لوٹ آئیں جب انسان بادلوں میں کھڑے ہو کر بیک وقت بادل کی پھوار اور اس میں سے بنتے موتی چہرے پر محسوس کرتا ہو۔ ایسی بارش پھر کبھی دیکھنا نصیب نہ ہوئی جس میں قطرے بس ایک فٹ سے برستے تھے۔ سارنگ کو نہ سا رے گا ما کا پتہ تھا اور نہ کسی مخصوص دھن کا۔ بس اس کی انگلیاں ایک سرمستی میں رباب پر چلتی تھیں اور اس میں سے ایسے سر تخلیق ہوتے تھے جو من مندر میں شہد کی مٹھاس گھول دیتے۔ کہا اس دلربا نے۔ بس یوں ہی۔ ایک عجیب سا سکون چھا جاتا تھا۔ جب اس کی انگلیاں تھوڑی دیر کے لیے رکتی تو گویا۔ چشمے، پرندے، پہاڑ اور چکور سارے مل کے اس کے نغمے کا جواب دیتے تھے۔ واپس آتی گونج میں جب ان سب چیزوں کی آواز بھی آتی تو ایک لافانی نغمہ تخلیق ہوتا تھا۔

اس بار جب گاؤں گیا تو دینو سے ملاقات ہوئی۔ دینو اب رکشہ چلاتا ہے۔ ٹکری ماما کی ناگہانی موت نے اسے مزید پڑھنے نہ دیا اور وہ خود شین خر کے ساتھ اسی گاڑی میں جت گیا تھا۔ وقت کے تھپیڑوں نے اسے بہت جلدی بوڑھا کر دیا تھا۔ دینو نے ایک دن دھیمے لہجے میں فرمائش کی کہ یارا ایک بار پھر اس درے کے چشمے پر چلتے ہیں۔ ٹالنے کی ہمت نہیں ہوئی۔ حامی بھر لی۔ اس بار شین تو نہیں تھا اور لیکن دینو کی فرمائش تھی کہ ہم اس کی چنگ چی پر جائیں جیسے وہ ٹکری ماما اور شین کی یاد میں شنہ لیلا( نیلی لیلا )کہتا تھا۔ اگلی صبح چشمے پر پہنچے تو سب کچھ بدل چکا تھا۔ چشمہ سوکھا پڑا تھا۔ پرندوں کو شکاریوں کے خوف نے اب ان دروں سے بھی دور بھگا دیا تھا۔ نہ پھول تھے۔ نہ پرندوں کے نغمے تھے۔ بس ایک عجیب سی ویرانی تھی۔ شاید وہ بادل بھی زمین سے روٹھ گئے تھے۔ زندگی کی دوڑ میں میں تو رباب بھول بھال گیا تھا لیکن دینو نے اپنے چنگ چی سے جب رباب نکالا تو مجھے خوشگوار حیرت ہوئی۔ پھر اس نے سارنگ کی دھن اور نغمہ چھیڑ دیا۔ دینو نے نغمہ ختم کیا تو جانے کیوں اپنی آنکھیں تر ہوتی محسوس ہوئیں مگردینو خود پھوٹ پھوٹ کر رویا۔ کہنے لگا۔ یارا!میں بہت کوشش اور دن رات کی بھاگ دوڑکے بعد بھی صرف دو وقت کی روٹی پر قادر ہو سکا ہوں۔ میرا بیٹا آٹھ سال کا ہو چکا ہے مگر شاید وہ بھی میرے خاندان کی ریت پر چلتے ہوئے کوئی چنگ چی یا پھر ٹریکٹر چلائے گا۔ میں اسے پڑھا نہ سکا۔

میں دینو سے کیا کہتا۔ بس یہی کہہ سکا۔ دینو تمہیں یاد ہے تم کہتے تھے کاش میں شین خر ہوتا۔ ہاں یاد ہے۔ دینومبارک ہو۔ تم شین خر بن چکے ہو۔ ہم تو پڑھ لکھ کر بھی شین خر نہ بن سکے۔ او یارا کیا بول رہا ہے۔ ایسا نہ بول۔ کیوں رلاتا ہے۔ نہیں دینو سچ کہہ رہا ہوں۔ تم اپنی اولاد کے لیے حلال رزق کماتے ہو۔ جھوٹ نہیں بولتے۔ دھوکہ نہیں دیتے۔ بے ایمانی نہیں کرتے۔ شین خر بھی تو یہ سب نہیں کرتا تھا۔

ہم جس دنیا میں رہتے ہیں وہاں ہم سب یہی کام کرتے ہیں۔ دھوکہ دیتے ہیں۔ بے ایمانی کرتے ہیں۔ دین بیچتے ہیں۔ ایمان کے سودے کرتے ہیں۔ خون کا کاروبار ہوتا ہے۔ بارود بیچتے ہیں نفرت خریدتے ہیں۔ دینو ہماری دنیا میں انسان بکتا ہے۔ جسم کے سودے ہوتے ہیں۔ ہم بچوں کی جسموں میں بارود بھر کے انسانی بستیاں جلاتے ہیں اور پھر انسانی خون پر جشن مناتے ہیں۔ ہم نے خدا کے نام پر اپنی بستیوں میں انسان کے خلاف جنگ شروع کر رکھی ہے۔ انسان انسان سے نفرت کھیل رہا ہے۔ اور اس کھیل میں انسان ہارتاہے اور نفرت جیت جاتی ہے۔ تم شین خر ہو گئے دینو۔ ہم بس نرے خر رہ گئے۔
درہ ویران تھا۔ چشمہ خشک تھا۔ میں اور دینو واپس ہو لیے۔ واپسی پر دینو نے پوچھا۔ او یارا! یہ ہماری خوشیاں کہاں چلی گئیں؟ یہ چشمے کیوں خشک پڑے ہیں؟ وہ چکوروں کی سیل کہاں گئے؟ نہ رباب ہے۔ نہ سارنگ ہے۔ نہ دلربا ہے اور نہ بس یوںہی۔ کیا کہتا۔ پاس ہی ایک ٹیلے پر کسی مردے جانور کی لاش کچھ موٹے گدھ اور کوئے نوچ رہے تھے۔ دینوہماری خوشیاں یہ حرام پر پلنے والے موٹے گدھ اور کوے کھا گئے۔ جب تک ہماری بستیوں میں ان کووں کی کائیں کائیں جاری رہے گی چکور واپس نہیں آئیں گے اور نہ رباب بجے گا۔ دینو پتہ نہیں اس کو سمجھا یا نہیں لیکن سرہلا کر بولا۔ او یارا! یہ کوے اور گدھ کون ہیں؟ کیا ہیں مجھے اس کی سمجھ نہیں۔ مگر خدا کا واسطہ ہے۔ تم پڑھے لکھے لوگ ہو۔ اخبار ٹی وی والے ہو۔ لوگوں کو بتاؤ کہ ہماری خوشیوں پر ماتم کیوں ہے؟ چکور کیسے واپس آئیں گے؟ رباب کب بجیں گے؟ میرا بیٹا رکشہ چلائے یا ٹریکٹر مگر اسے جی تو لینے دو۔ ان کووں اور گدھوں سے ہماری بستی واپس دلا دو۔ تم لوگ سچ بولو۔

میں دینو سے کیا کہتا کہ سچ زہر کا پیالہ اور پینے کے لئے کلیجے میں سقراط کا دل چاہیے۔ میں نے دینو سے کہا تمہیں یاد ہے کہ ٹکری ماما ایک ٹپہ گنگناتا تھا۔ سچ بولو گے تو منصور بنو گے اور پتھر کھاؤ گے۔ دینو بہت دیر خاموش کھڑا رہا۔ پھر بہت زور سے میرے گلے لگا اور روتے ہوئے کہنے لگا۔ اویارا! خدا کا واسطہ ہے تم سچ نہ بولنا۔ کبھی نہیں۔

ظفر اللہ خان
Latest posts by ظفر اللہ خان (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ظفر اللہ خان

ظفر اللہ خان، ید بیضا کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ زیادہ تر عمرانیات اور سیاست پر خامہ فرسائی کرتے ہیں۔ خیبر پختونخواہ، فاٹا، بلوچستان اور سرحد کے اس پار لکھا نوشتہ انہیں صاف دکھتا ہے۔ دھیمے سر میں مشکل سے مشکل راگ کا الاپ ان کی خوبی ہے!

zafarullah has 186 posts and counting.See all posts by zafarullah

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments