خیراتی مدرسوں کی چمچماتی ہوئی لینڈ کروزر


مذہب یا کسی فرقے کے بارے لکھنا پاکستان جیسے ملک میں بے حد مشکل کام ہے، یہااں مذہب کیش کروایا جاتا ہے اور اس کی سب سے کم قیمت لوگوں اور سادہ لوح عوام کے جذبات میں ادا کی جاتی ہے۔ لوگوں کو خاص طور پر ایک مخصوص نظریے پر راغب کیا جاتا ہے ، ان کی پوری برین واشنگ کی جاتی ہے اور چونکہ ماننے والے وہ بے چارے عوام ہوتے ہیں جو یہ سمجھ رہے ہوتے ہیں کہ پیر صاحب کی کرامات کی وجہ سے شاید ان کا بھی کچھ کام آسان ہو جائے گا یا زندگی شاید ان پر بھی اتنی ہی مہربانی فرمائے گی جتنی خود پیر صاحب پر وہ ہوتی دیکھتے ہیں، لیکن افسوس کہ پیر یا گدی نشین حضرات کا جاہ و جلال، امارت، رعب اور مال و دولت پیر صاحب یا کسی بزرگ کی دی ہوئی کرامت نہیں ہوتی بلکہ انہی بے چارے عوام کی خون پسینے کی (حلال و حرام) کمائی، جو وہ خیرات کی صورت میں دیتے ہیں، کی وجہ سے ممکن ہوئی ہوتی ہے جن سے پیسے اکٹھے کرنے کے بعد پیر صاحب منہ لگانا بھی گوارا نہیں کرتے۔

ایسے بہت سے علاقے ہم اور آپ جانتے ہیں جہاں اللہ تبارک و تعالیٰ کے فضل سے بزرگان دین کے دربار ہیں، ان بزرگوں کے بارے کہا جاتا ہے کہ وہ کسی سے پیسا یا اجناس کچھ بھی لینا پسند نہیں کرتے تھے، یقیناً وہ اللہ والے بزرگ ہوں گے لیکن ان کے جانے کے بعد ان کی (اور ستم ظریفی دیکھیے، اگر ان کی اولاد نہیں ہے تو ان کے بھائی کی) اولاد میں سے مسلسل ہر دو یا تین سال کے وقفے سے نئے نئے صاحب زادگان اور سجادہ نشین تشریف فرما ہو رہے ہیں اور اسی طرح ان کے پیسے اکٹھے کرنے کی شرح بڑھتی جا رہی ہے۔

کسی کو بھی ذاتی طور پر اس پر کوئی اعتراض نہیں لیکن یہی سجادہ نشین حضرات اور پیر صاحبان نے جو گل پچھلے کئی سالوں سے تحریک لبیک کی صورت میں کھلایا ہے اور جس طرح ہمارے آقا و مولیٰ کا نام مبارک سیاست میں آنے کے لیے استعمال کیا ہے اس سے بڑھ کر ظلم کی کوئی کیا مثال ہو گی۔ ایسی قوم جو کچھ بھی جانے بوجھے بغیر (کہ ان کے نام نہاد قائدین کا اصل مقصد کیا ہے ) ایک ایسے نعرے کے پیچھے لگا دی گئی جس پر ہم سب کی جان بھی قربان کی جا سکتی ہے مگر ظلم یہ کیا گیا کہ اس نعرے کے پیچھے چھپی حقیقت کسی نے مریدین کو نہیں بتائی، لہذا مرید نعرے بھی مارتے رہے اور پولیس والوں کو بھی مارتے رہے۔ ایمبولینس میں مریض بھی مرتے رہے، لوگوں کی املاک بھی تباہ ہوتی رہیں اور قائدین یہ دیکھ اور سن کر خوشی سے جھومتے رہے کہ واہ جوانو واہ، جتنی نفرت، آگ، ظلم اور بد مستیاں مرید کریں گے اتنی ہی حکومت کی طرف سے بدحواسیاں ہوں گی اور اتنی ہی قائدین کی جے جے کار ہو گی۔

یہاں رکیے اور تھوڑا پیچھے چلیے

کچھ عرصہ پہلے تک (جب کہ مدرسے واقعی دینی مدرسے ہوتے تھے ) دینی مدرسوں کے لیے خیرات اکٹھی کرنا ایک ثواب کا کام ہوتا تھا اور مدرسے کے معلم لوگوں کے پاس خود بھی تشریف لے کر جاتے تھے، ایک سائیکل یا بہت ہوا موٹر سائیکل مدرسے کے معلم کی کل کائنات ہوتی تھی اور جو کچھ مدرسے کے نام پے اکٹھا ہوتا تھا سب اسی مدرسے پے لگتا تھا۔ مدرسے کے معلم ایک حلیم طبع اور شریف النفس انسان ہوتے تھے اور لوگوں کے آپسی جھگڑے ہو جانے کی صورت میں اللہ اور رسول کا واسطہ دے کر وہ جھگڑے ختم کروا دیا کرتے تھے۔ (زور کس بات پر ہوا کہ وہ صلح کرواتے تھے اور جھگڑے ختم کرواتے تھے )

اب آتے ہیں آج کے علماء کی طرف اور آج کے مدرسوں کی طرف، یہ بات میں آج تک سمجھ نہیں سکا کہ مدرسوں کے نام پے کیا کاروبار شروع ہوتا ہے کہ جناب شیخ کے پاس ایک دو سال بعد ایک چمچماتی کار، پھر رشتہ داروں کے پاس زمینیں، باغات، بینک بیلنس اور مراعات کی لائنیں لگ جاتی ہیں۔ ایسا کون سا نظام ہے جو یہ سب کچھ کچھ سالوں میں وقوع پذیر ہو جاتا ہے لیکن کوئی ان کے پاس آڈٹ کے لیے نہیں جا سکتا۔ پھر جیسے جیسے مدرسہ بڑا ہوتا جاتا ہے معلم (معاف کیجئے گا مولانا لکھنا تھا) کی گردن میں سریا اور سر پر پگڑی کا سائز اتنا ہی بڑا ہوتا جاتا ہے۔

کار کی جگہ ویگو جیپ آ جاتی ہے اور کچھ عرصہ بعد مولانا کے پاس چمچماتی ہوئی لینڈ کروزر اور دس بارہ (شاہ دولے شاہ کے چوہوں کی مانند) گارڈز ہر وقت ساتھ نتھی ہوتے ہیں۔ ایک بات جو قابل ذکر ہے کہ مدرسے میں پڑھنے والے بچوں کی حالت نہیں بدلی جاتی (جان بوجھ کر ان کو اسی حالت میں رکھا جاتا ہے کہ ان کے اذہان میں کوئی سوال مدرسے یا پیر صاحب کے بارے آ ہی نہ سکے ) ۔ اس سے اگلی اسٹیج وہ ہوتی ہے جس میں پیر صاحب یا مولانا اتنے طاقتور ہو جاتے ہیں کہ وہ سین پیدا کرنا شروع کر سکتے ہیں جو ہم نے پچھلے کچھ دنوں سے جی ٹی روڈ کے اوپر دیکھا ہے۔

اس بات سے قطع نظر کے اور کون کون سے ہاتھ اس میں ملوث ہوتے ہیں، کیا پیر صاحبان کو کوئی بیرونی طاقتیں بھی سپورٹ کرتی ہیں یا نہیں؟ کیا پیر صاحب یہ سب کچھ واقعی اسی نعرے کے لیے کر رہے ہوتے ہیں جو وہ لگا رہے ہوتے ہیں اور لوگوں کی ہمدردیاں سمیٹ رہے ہوتے ہیں؟ کیا ہم جانتے ہیں کہ اسی طرح کی وارداتوں کے دوران اور ان کے بعد پیر صاحبان کے بینک اکاونٹس جو پہلے ہی بنک سے باہر تک بھرے ہوتے ہیں کتنے فی صد اضافہ پیدا کرتے ہیں؟

یہ وہ سوال ہیں جو ہمارے قوم کے نوجوانوں کو سوچنے ہیں، کیونکہ ہم تو شاید اپنی زندگی جی چکے ہیں لیکن آج کے نوجوان نے سوچنا ہے کہ کسی کا آلہ کار بننا ہے؟ یا کسی کا سچا امتی؟ اور یاد رکھیئے رسول عربی ﷺ کا سچا امتی بننے کے لیے آپ کو کسی پولیس والے کو، حکمران کو، عوام کو حتی کے اپنے مخالفین کو مارنا نہیں پڑے گا بلکہ اپنے عمل سے اس کو اپنے دین پر لانا ہی آپ کی دین و دنیا کی کامیابی ہو گی۔ آخر میں ایک سوال تحریک لبیک والوں سے کہ روز قیامت وہ سب لوگ جن پے تشدد ہوا یا وہ شہید کر دیے آپ لوگوں نے، (بشمول بے گناہ پولیس والے ) اپنا مقدمہ جب رحمت العالمین ﷺ کے پاس لے کر جائیں گے تو یقیناً آپ کے پیر صاحب (جو خود نفسی نفسی پکا ر رہے ہوں گے ) آپ کو کیسے بچا پائیں گے اور آپ لوگ کس منہ سے اس رحمت العالمین ﷺ کا سامنا کرو گے جس کے سامنے چڑیا کے بچے جب ماں کے بغیر چیخ رہے تھے تو وہ عظیم الشان، عالی مرتبت رسول ﷺ بے چین ہو گئے اور فرمایا کہ ان پرندوں کی ماں کو چھوڑ دو یہ بے قرار ہو رہے ہیں، کیسے سمجھ رہے ہو کہ اسی نبی ﷺ کے نام پے انسانوں کو مارنے کے بعد اسی نبی سے بخشش مل جائے گی؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments