امب ٹیمپل اور امب گاؤں کی تاریخ


\"\"

وادی سون کے جنوب مغرب میں واقع قصبہ امب تاریخی اہمیت کا حامل ہے۔ اس قدیمی قصبے تک آنے کا کوئی پختہ رستہ نہیں ہے۔ البتہ امب کے چاروں طرف بہنے والے قدرتی چشموں کی وجہ سے یہاں پانی وافر مقدار میں دستیاب ہے۔ امب چاروں طرف سے اونچے پہاڑوں میں گھرا ہوا ہے۔ وادی کی سب سے بلند سکیسر چوٹی امب کے بالکل اوپر محسوس ہوتی ہے۔ چاروں سے طرف چھوٹی بڑی پہاڑیوں میں گھرا امب شریف ایک دلکش منظر پیش کرتا ہے۔ یہاں پر ہزار سال پرانے قدیمی مندر واقع ہیں جن کے ساتھ ایک ویران شہر کے آثار ملتے ہیں۔

لیکن اس سے پہلے ہم ذکر کرتے ہیں یہاں کی مشہور بزرگ ہستی حضرت ابراہیم ساڑہی والے کا۔ جو ہر وقت اپنے اوپر سبزرنگ کی ایک پوشاک اوڑھے رکھتے تو مقامی ہندو آبادی میں ابراہیم ساڑہی والا کے نام سے مشہور ہو گئے۔ حضرت سلطان باہو کے ہم عصر سمجھے جاتے ہیں انہوں نے طویل عمر پائی۔ ان سے کئی کرامات منسوب ہیں۔ ایک بار ان کے ایک خلیفہ نے ان سے کچھ دن کی رخصت یہ کہتے ہوئے طلب کی کہ وہ پاک پتن جانا چاہتا ہے جہاں وہ بہشتی دروازے کے نیچے سے گذرے گا۔ حضرت نے فرمایا کہ جو شخص ہماری تعمیر کردہ مسجد میں لگاتار پانچ نمازیں پڑھ لے گا وہ اپنے من کی مراد پائے گا اگر جنت چاہتے ہو تو وہ بھی ملے گی۔ آپ نے امب میں ایک اونچی جگہ پر ایک مسجد تعمیر کرائی تھی۔ ایک بار امب کے رہائشی آپ کی خدمت میں حاضرہوئے اور پانی کی کمی کی شکایت کی تو آپ نے پہاڑی پر بیٹھے بیٹھے دو تیر چلائے جو نیچے وادی میں جس جگہ جا کر گرے وہاں دو چشمے پھوٹے۔ آپ نے ایک چشمہ ہندوؤں کے لئے جبکہ دوسرا مسلمانوں کے لئے وقف فرما دیا ساتھ ہی یہ بھی فرمایا کہ جب ہندو اس علاقے سے چلے جائیں گے تو دوسرا چشمہ خشک ہو جائے گا۔ مقامی لوگ بتاتے ہیں کہ قیام پاکستان کے بعد جب ہندو یہاں سے ہجرت کر گئے تو ان کے لئے مخصوص چشمہ خود بخود خشک ہو گیا۔ آج بھی حضرت ابراہیم کے مزار پر عقیدت مند حاضری دیتے ہیں اور ان کی تعمیر کردہ مسجد میں پانچ نمازیں پڑھتے ہیں۔ امب کے رہائشی ان مہمانوں کی دل و جان سے خدمت کرتے ہیں۔ وادی سون میں امب واحد قصبہ ہے جہاں ہر گھر کے ساتھ مہمانوں کے لئے باقاعدہ بیٹھک بنائی گئی ہے ناواقف عقیدت مندوں کو بھی بہت عزت و احترام سے ان بیٹھکوں میں ٹھہرایاجاتا ہے۔ ان کے آرام کا پورا خیال رکھا جاتا ہے۔ ان کی اسی مہمان نوازی کی بدولت امب کے رہائشی نہایت مہمان نواز اور ملنسار ہیں۔

گاؤں میں بجلی نہیں ہے۔ وادی سون کے اہم قصبہ اوچھالی جانے کے لئے پختہ سڑک نہیں ہے۔ کوہستان نمک سے گذر کر قائد آباد جانے کے لئے کوئی پختہ سڑک موجود نہیں۔ ہسپتال نہیں ہے۔ بچیوں کے لئے پرائمری سکول اور بچوں کے لئے آٹھویں جماعت تک کے لئے سکول ہے۔ عوام بہت مشکل سے کسی مرکزی قصبے تک پہنچ پاتے ہیں۔ سکیسر بیس پر بجلی آئے پچاس سال سے زیادہ ہو گئے۔ بجلی امب کے عین اوپر سے گذر کر جا رہی ہےاور امب میں بجلی نہیں ہے۔ لیکن امب وادی سون کا واحد گاؤں جہاں قدرتی میٹھے پانی کی فراوانی ہے۔ چھوٹے بڑے ہر قسم کے پائپوں کے ذریعے عوام یہ پانی اپنے گھر تک لے گئے ہیں۔ پانی کی رفتار اتنی تیز ہے کہ وہ گھروں کی چھتوں پر رکھی پانی کی ٹینکیوں تک خود ہی پہنچ جاتا ہے۔ اور یہاں کے کسان بہترین فصل اٹھاتے ہیں۔ امب شریف کے لوگ واقعی شریف اور قناعت پسند ہیں

قصبہ امب میں میاں الٰہی بخش کی بیٹھک میں رات کیسے گذر گئی پتا ہی نہیں چلا۔ البتہ صبح دوستوں کی کھٹ پھٹ سے آنکھ کھلی تو دیکھا کہ جو دوست باتھ روم سے آ رہا ہے وہ بہت تروتازہ ہے۔ سر کے بالوں کو تولیہ سے خشک کر رہا ہے۔ لحاف کی اوٹ سے یہ سب کچھ دیکھا تو پوچھا کہ نہائے ہو؟ جواب ملا کہ نہائے ہیں؟ اس سردی میں کہاں نہائے ہو؟ تو بتایا گیا کہ باتھ روم میں بہت شاندار پانی آ رہا ہے۔ یقین ہی نہیں ہوا۔ بستر چھوڑ کر باہر نکلے تو ایک دلکش منظر سامنے تھا چھوٹی بڑی پہاڑیوں پر گھنے درختوں کے بیچ مکان تعمیرکیے گئے تھے۔ تیز دھوپ تھی ہم بھی باتھ روم گئے۔ پانی واقعی بہت زبردست آ رہا تھا ہم بھی جی کڑا کرکے شاور کے نیچے کھڑے ہو گئے اور کیا ہی پرلطف غسل تھا ہمارا۔ دل خوش ہو گیا۔ سارے دن کی ٹریکنگ کے لئے تروتازہ ہو گئے۔ کچھ ہی دیر میں ایک شاندار ناشتہ آ گیا۔ انڈے، پراٹھے، قورمہ، دہی، کباب اور چائے۔ میاں صاحب بار بار تکلف نہ کرنے اور کھانے پر اصرار کرتے رہے۔ دوستوں نے بھی ناشتے سے خوب انصاف کیا۔

عدنان بھائی نے بتایا کہ لاہور سے آنے والے شیراز احمد اور ان کے دوست نوشہرہ سے امب آنے کے لئے روانہ ہو چکے ہیں۔ ہم بھی تیار ہوئے۔ طے پایا کہ پہلے حضرت ابراہیم کی تیار کردہ مسجد میں جائیں گے اور وہاں سے واپس آ کر اپنا سامان سمیٹ کر امب ٹیمپل کی طرف روانہ ہوں گے۔ بھاری بھرکم ناشتے کے بعد قصبے کی ایک اونچی چوٹی پر بنی مسجد کوٹ والی تک جانا آسان نہ تھا۔ پھولی سانسوں کے ساتھ ہم مسجد تک پہنچے۔ یہاں سے امب اور ملحقہ ڈیروں تک کا علاقہ بہت واضح دکھائی دیتا ہے۔ مسجد نئے سرے سے تعمیر کی جا چکی ہے پرانے آثار نہیں ملتے البتہ مسجد کے عقب میں زائرین کے لئے کمرے بنے ہوئے ہیں اور عرس کے موقع پر حلوہ بنانے کے لئے دو بہت بڑے کڑاہ پڑے تھے۔ یہاں سے مجھے محمود ملک نے نیچے وادی میں وہ جگہ دکھائی جہاں پیر صاحب کے تیروں کی وجہ سے دو چشمے پھوٹ پڑے تھے (چشمے کی تصویر ساتھ لگائی گئی ہے ) ارد گرد کا منظر اچھی طرح دیکھ اور آنکھوں میں جذب کر لینے کے بعد یہاں سے چلے تو واپس اپنے ٹھکانے پر آ کر دم لیا۔ میزبانوں کو الوداع کہا اور امب ٹیمپل کی طرف روانہ ہوئے۔

\"\"

مشہور زمانہ امب ٹیمپل امب گاؤں سے کافی بلندی پر ہیں۔ عجب ہے کہ ایک پختہ سڑک امب ٹیمپلز تک جاتی ہے ہم بھی اس سڑک پر ہو لئے۔ سامنے ہی سکیسر بیس کے ٹاور دکھائی دے رہے تھے جن کی وجہ سے یہاں سیل فون کے سگنل دستیاب ہیں۔ سکیسر بیس کا کوئی فائدہ تو ہوا۔ یہاں سے مسلسل چڑھائی تھی دو تین بار تو سانس لینے کے لئے رکنا پڑا۔ سیاح اور مقامی موٹرسائیکلوں پر سوار بہت تیزی سے ہمارے قریب سے گذر جاتے۔ اور بالآخر ایک موڑ مڑنے کے بعد ہم نے ان ٹیمپلز کو دیکھا۔ کبھی بہت عالی شان ٹیمپل اب عبرت کا نمونہ بنے ہوئے تھے۔ ان ٹیمپلز کی تاریخ بہت دلچسپ ہے۔ یہ ٹیمپل اور اس سے ملحقہ گاؤں اور قلعہ نویں صدی عیسوی تک پوری طرح آباد تھے اس وقت یہاں ہندو شاہی حکومت تھی جس کی سرحدیں ہندوستان سے شروع ہو کر کابل تک پھیلی ہوئی تھیں۔ ہندوستان پر بار بار حملے کرنے کے شوقین محمود غزنوی نے خود یا اس کے کسی لشکر نے امب پر بھی حملہ کیا قلعے اور گاؤں کو نیست و نابود کر دیا۔ ان مندروں کو اس لئے چھوڑ دیا کہ یہاں کوئی خزانہ نہیں تھا۔ کہا جاتا ہے کہ یہاں کئی مندر تھے لیکن خزانے کے شوقینوں اور مسلمان حملہ آوروں نے یہ مندر تباہ کر دیے۔ ایک مقامی کے مطابق امب گاؤں کے بیشتر مکانات یہیں سے اکھاڑے گئے پتھروں سے بنائے گئے ہیں۔ مندروں کے ساتھ ہی ایک اجڑے ہوئے گاؤں کے آثار دکھائی دیتے ہیں۔ اور کچھ بلندی پر ایک قلعہ کی دیواریں بھی دکھائی دیتی ہیں۔ قلعے اور مکانات کی دیواروں پر لگے پتھر بہت عمدگی اور نفاست سے تراشے گئے ہیں۔ اتنی نفاست سے یہ پتھر آج بھی تراشنا ممکن نہیں۔ مندروں کی بناوٹ ایسی ہے جیسی کشمیر میں موجود مندروں کی ہے۔ یہاں سے کئی ایک مجسمے ملے ہیں جو لاہور عجائب گھر میں محفوظ ہیں۔ وادی سون میں یہ بات مشہور ہے کہ آج بھی ذرا سی کھدائی سے یہاں کوئی نہ کوئی مورتی یا مجسمہ مل جاتا ہے جسے یہاں کے لوگ بیچ کر کافی پیسے کما لیتے ہیں۔

مشہور برطانوی آرکیالوجسٹ الیگزینڈر کننگھم نے یہاں ان ٹیمپلز کو دیکھا تو یہ کافی خستہ حال تھے اس کی سفارش پر برطانوی حکومت نے بڑے مندر کے جنوبی حصے کو مرمت کرایا اور یہاں مضبوط ستون بنا دیے۔ مندر کے کمرے کے چاروں طرف اوپر جانے کے لئے تنگ سیڑھیاں بنی ہوئی ہیں۔ جن کا طرز تعمیر بہت عمدہ ہے۔ روشنی کے لئے جابجا سوراخ بنائے گئے ہیں۔ مندر دو منزلہ ہے اور اس کی چھت پر چڑھنا نہایت آسان ہے کسی زمانے میں ان سیڑھیوں میں چمگادڑوں کا بسیر ا ہوا کرتا تھا مگر سیاحوں کی آمدورفت کی وجہ سے اب چمگادڑیں یہ جگہ چھوڑ گئی ہیں۔ مندر کی چھت سے بہت خوب صورت نظارہ دیکھنے کو ملتا ہے۔

لاہور سے آنے والے ہمارے مہمان شیراز احمد، صدیق شہزاد، سلمان آصف، وقاص اشرف ہم سے پہلے یہاں پہنچ چکے تھے۔ ہماری یہ پہلی باضابطہ ملاقات تھی۔ تعارف ہوا۔ گپ شپ لگی ہم بہت جلد آپس میں گھل مل گئے۔ گروپ فوٹو بنائے گئے۔ معلومات شیئر ہوئیں۔ سبھی دوست ماشاء اللہ کافی گھومے ہوئے ہیں۔ وادی سون کی ٹریکنگ کا کافی شوق تھا تو یہ سب رات کو گیارہ بجے لاہور سے چلے۔ ساری رات سفر کر کے صبح آٹھ بجے نوشہرہ پہنچے اور وہاں سے ٹیکسی کے ذریعے امب ٹیمپل پہنچ گئے۔ ہم سب کافی دیر یہاں گھومتے رہے۔ دوپہر ہو رہی تھی۔ ہمارا لنچ امب سے پانچ کلو میٹر دور سلطان آباد المشہور مہوڑیانوالہ میں تیار تھا اور ہمارے انتظار میں تھا۔ تو ہم نے یہاں سے چلنے کا سوچا (جاری ہے )


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments