برکتوں بھرا فیض عام مبارک


تحریک لبیک پاکستان بالآخر اپنی بھرپور اور کامیاب مذہبی و نیم سیاسی جدوجہد کے بعد ”کالعدم“ کی پابندی سے آزاد ہو گئی، یقیناً اس کے سربراہ سعد رضوی بھی بہت جلد اپنے چاہنے والوں کے درمیان ہوں گے۔ تاحال خفیہ معاہدے پر بتدریج عمل کا آغاز ہو چکا جو آہستہ آہستہ بوقت ضرورت اپنے نتیجہ خیز انجام کی طرف سب کو بڑھتا نظر آئے گا۔ بہرحال ناموس رسالت کے نام پر وجود میں آنے والی ایک خالص مذہبی تحریک کی سیاسی جماعت میں تبدیلی ایک اور ”تبدیلی“ کا پیش خیمہ ثابت ہونے کو ہے۔

تبدیلی کی تازہ ترین کہانی کچھ یوں ہے کہ ریاست کے ساتھ ہونے والے معاہدے تک اس کالعدم تحریک کا احتجاجی مارچ مختلف نشیب و فراز سے گزرا۔ اس دوران تنظیم کے سرکردہ رہنماؤں اور ریاست کے اہم ترین عہدوں پر فائز بعض شخصیات کے مابین مذاکرات کے کئی دور ہوئے جن میں کئی مرتبہ انکار ہوا، جو آخر کار اقرار میں بدلتا چلا گیا اور احتجاجی مظاہرے کے خلاف ریاستی ایکشن ہوتے ہوتے ٹل گیا۔ متضاد نوعیت کے اشارے ملتے اور فیصلے بدلتے رہے۔

سارا معاملہ اس وقت شروع ہوا جب 21 اکتوبر کی شام کالعدم تحریک لبیک پاکستان کے عید میلاد النبی کے سلسلے میں نکلنے والا جلوس اپنے مقررہ وقت پر اختتام پذیر ہونے کے بجائے طوالت اختیار کر گیا۔ لاہور پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ہاتھوں کے طوطے اس وقت اڑ گئے جب سٹیج سے اعلان ہوا کہ میلاد کا یہ جلوس احتجاجی مظاہرے کی شکل اختیار کرتے ہوئے اسلام آباد کا رخ کرے گا۔ اس جلوس کے احتجاجی مارچ میں تبدیل ہونے کی کسی بھی قانون نافذ کرنے والے یا انٹیلی جنس ادارے کو پیشگی اطلاع نہیں تھی۔

جوں جوں اس جلوس کا رخ لاہور کے خارجی راستوں کی طرف بڑھتا گیا، وفاقی حکومت میں بھی تشویش پیدا ہونی شروع ہوئی، وزیر اعظم کو اطلاع کی گئی جس کے بعد لاہور میں ایک اہم انٹیلی جنس ادارے کے دفتر میں بعض متعلقہ وزراء اور حکمران اتحادی جماعتوں کے رہنماؤں کا ایک غیر رسمی اجلاس ہوا جس میں یہ فیصلہ نہ ہو سکا کہ اس جلوس کے ساتھ کیا کرنا ہے۔ حکمران جماعت نے جلوس کو بزور طاقت روکنے پر اصرار کیا جبکہ قانون نافذ کرنے والے اداروں نے اعلیٰ ترین سطح سے تحریری حکم کے بغیر طاقت کے بھرپور استعمال کی مخالفت کی۔

جن کے دفتر میں یہ اجلاس ہو رہا تھا، انھوں نے بھی اسی رائے کا اظہار کیا کہ کسی بھی سیاسی مینڈیٹ کے بغیر جلوس کے شرکا سے بات چیت تک ممکن نہیں۔ اس شش و پنج میں پہلی رات گزری اور اگلی صبح یہ جلوس لاہور کی حدود سے باہر نکل چکا تھا، پرتشدد واقعات میں پولیس اہلکاروں کی ہلاکتیں بھی ہو چکی تھیں۔ معاملہ وزیر اعظم تک پہنچا جنھوں نے وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید کو ہدایت کی کہ یہ جلوس اسلام آباد میں داخل نہیں ہونا چاہیے۔

اس مختصر حکم کے بعد وزیراعظم سعودی عرب اور وزیر داخلہ پاکستان اور انڈیا کے درمیان کرکٹ میچ دیکھنے دبئی روانہ ہو گئے۔ ٹی ایل پی کا مارچ آہستہ آہستہ آگے بڑھتا رہا، پولیس اور انتظامیہ انھیں روکنے کی نیم دلانہ سی کوششیں کرتی رہی۔ غیر مسلح پولیس اہلکاروں پر حملوں میں ان کے زخمی اور ہلاک ہونے کی خبروں میں تیزی آتی گئی، سوشل میڈیا پر طوفان برپا ہوتا چلا گیا، ہاہا کار مچتی رہی۔

وزیر اعظم نے وزیر داخلہ کو فوراً واپس پہنچنے اور ٹی ایل پی کے ساتھ ”انگیج“ ہونے کا حکم دیا۔ شیخ رشید واپس وطن پہنچے اور لاہور میں ٹی ایل پی سے مذاکرات کیے جو بغیر کسی نتیجے کے ختم ہو گئے۔ جس پر شیخ صاحب نے مختلف ریاستی اداروں کے حکام سے رابطے کیے اور انھیں بھی ان مذاکرات میں کردار ادا کرنے پر راضی کر لیا۔ طے پایا کہ ٹی ایل پی کے سربراہ سے براہ راست رابطہ کیا جائے، یہ حربہ کامیاب رہا اور سعد رضوی کے ساتھ ہونے والے مذاکرات میں حکومت ان سے کچھ یقین دہانیاں حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئی۔ بڑی یقین دہانی یہ تھی کہ جب تک حکومت اور ٹی ایل پی کے درمیان بات چیت جاری رہے گی، ان کا احتجاجی مارچ جہاں ہے وہیں رکا رہے گا اور جی ٹی روڈ کھول دی جائے گی۔

شیخ رشید فتح کا جھنڈا لہراتے واپس اسلام آباد اور سعد رضوی جیل چلے گئے لیکن جی ٹی روڈ پر حالات نہیں بدلے۔ وزیر اعظم سعودی عرب سے واپس اسلام آباد پہنچے، اپنی جماعت کی کور کمیٹی سے ملاقات کی، شیخ رشید نے صورتحال پر بریفنگ دی جس کے بعد مشاورت کا سلسلہ شروع ہوا، ٹی ایل پی کی سٹریٹ پاور کے ساتھ ساتھ اس کی مستقبل میں انتخابی مقبولیت پر بھی بات ہوئی۔ اس کے بعد وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے وہ معروف جملہ کہا کہ ”ٹی ایل پی کے ساتھ عسکریت پسند گروہ کے طور پر نمٹا جائے گا“ ۔

پنجاب کو رینجرز کے حوالے کیا گیا اور ٹی ایل پی کے خلاف آپریشن کی تیاریاں شروع کر دی گئیں۔ وزیراعظم نے مسلح افواج اور انٹیلی جنس اداروں کے سربراہان کو بنی گالہ میں مدعو کر کے صلاح مشورہ کیا۔ عمران خان کا فیصلہ ٹی ایل پی سے کسی بھی قسم کے معاہدے یا بات چیت کے خلاف تھا، پھر اگلے روز بھی قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں وزیر اعظم نے اپنا موقف دہرایا کہ ریاست کی رٹ ہو یا نہ ہو، یہ معاملہ قابل بحث یا قابل مذاکرات نہیں، ٹی ایل پی ریاستی رٹ تسلیم کرے، احتجاج ختم کرے اور اپنے گھروں کو جائے، ورنہ طاقت استعمال ہو گی۔ متعلقہ اداروں کو آپریشن کلین اپ کی تیاری کی ہدایت کے ساتھ یہ اجلاس ختم ہوا۔

جس وقت نیشنل سکیورٹی کمیٹی کا یہ اجلاس اسلام آباد میں جاری تھا، اس دوران بریلوی علما کرام کا ایک گروپ معروف صنعت کار کے ساتھ اچانک راولپنڈی میں نمودار ہوا، جس کی راولپنڈی اور پھر اسلام آباد میں چند خفیہ ملاقاتیں ہوئیں، واقفان حال کے مطابق اسلام آباد کا ماحول اچانک تبدیل ہو گیا۔ انھی علما کا وفد مفتی منیب کی سربراہی میں بنی گالہ پہنچا اور ٹی ایل پی کے خلاف آپریشن کا فیصلہ اس کالعدم گروہ کے ساتھ معنی خیز مذاکرات میں بدل گیا۔

شیخ رشید مذاکراتی کمیٹی، فواد چوہدری فیصلہ سازی کے عمل سے باہر اور مفتی منیب اس سارے عمل میں اندر ہو گئے۔ بنی گالہ کے بعد یہ وفد کہاں گیا، کس سے ملا، مذاکرات میں کون کون شامل رہا، اس دوران جو معاہدہ ہوا اس میں کیا یقین دہانیاں کرائی گئیں، یہ سب اتنا اچانک ہوا کہ ریاست کے سیاسی ستونوں کے بعض اہم ترین افراد بھی اس سے قطعاً لاعلم رہے۔ رات گئے ایک تصویر جاری ہوئی اور معاہدے کی کاپی تھامے ”مذاکراتی ٹیم“ کے ایک رکن کا یہ جملہ سنائی دیا کہ فوج کے سربراہ جنرل باجوہ نے ان مذاکرات میں ”ہزار فیصد“ کردار ادا کیا ہے اور ان کی برکت سے سب کچھ ٹھیک ہو گیا لیکن یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ یہ اعلان کرنے والے موصوف ان مذاکرات میں کس کی نمائندگی کر رہے تھے۔

خفیہ معاہدے کے یہ نامعلوم کردار نئے نہیں بلکہ ان کی برکات اور فیض عام بہت پہلے سے جاری ہے۔ یادش بخیر ایک وقت تھا جب کراچی پر (موجودہ ) کالعدم ایم کیو ایم کا راج تھا، بھائی کے ایک اشارہ ابرو پر نظام زندگی سے کاروبار زندگی تک کھلتے اور بند ہوتے، یک دم سناٹا چھا جاتا اور یکایک رونقیں بحال ہو جاتیں۔ بوری بند سیاست کا خوف زندگی کی زندگیاں نگل جاتا، لندن سے براہ راست صرف ”بھائی“ بولتے اور اہل پاکستان زندہ لاشوں کی طرح خاموشی کے ساتھ الطافانہ کلام سنتے اور جھوم جھوم کر سر دھنتے۔

پھر صرف ایک تقریر  نے بساط پلٹ دی، ریاست انگڑائی لے کر جاگی تو برسوں کے وفادار اپنے اپنے ضمیر کی موت سو گئے۔ گہری اور مدہوش نیند کا یہ غلبہ تاحال غالب ہے۔ موجودہ ہائبرڈ نظام میں اسی طرح کا غلبہ پنجاب میں ضروری تھا، سو عوام کو ایک اور سیاسی تنظیم اور عوامی لیڈر مبارک ہو۔ اللہ تمام برکات کا فیض سب کے لئے عام کرے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments