ٹیکسلا کے آثار میں گدھے جمع ہو سکتے ہیں عالم نہیں


کسی بھی معاشرہ میں تاریخی و ثقافتی ورثہ کی اہمیت و کردار مسلم ہے۔ یہ ہمیں اپنے ماضی کے اسرار سے پردہ ہٹانے میں مدد فراہم کرتا ہے اور ہمیں یہ بتاتا ہے کہ ہمارا معاشرہ کیسے پروان چڑھا۔ یہ ہمیں اپنی تاریخ، اقدار، اور روایات کا جائزہ لینے اور خودشناسی کے قابل بناتا ہے۔ اس سے ہمیں یہ سمجھنے میں مدد ملتی ہے کہ ہمارے معاشرہ کی موجودہ شناخت کیسے تخلیق ہوئی۔ تاریخ اور ورثہ کے مطالعہ سے ہی ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ قوموں کے عروج و زوال یا ترقی و انحطاط میں کون سے عوامل شامل تھے۔

اب چونکہ یہی تاریخی اور ثقافتی ورثہ ہماری موجودہ شناخت کی وجہ ہے تو ہماری ذمہ داری بنتی ہے کہ ہم اسے محفوظ رکھیں۔ لیکن اسے محفوظ رکھنے کا مطلب صرف یہ نہیں کہ میوزیم کے شوکیس میں ماضی کے اوراق اور اشیاء مقفل کر کے رکھ دیے جائیں اور ان پر پہرہ دار بٹھا دیے جائیں۔ بلکہ یہاں مقامی کمیونٹی یا آبادی کا بھی فرض بنتا ہے کہ وہ اپنے ورثہ کی ترویج اور تحفظ کی ذمہ داری لیں اور اس میں حصہ لیں۔ مقامی ورثہ کی ترویج و توسیع کے لیے ضروری ہے کہ جو علاقے نظر انداز کیے گئے ہیں ان میں مقامی لوگوں کو متحرک کیا جائے اور وہاں اپنے ورثہ کا دوبارہ مطالعہ اور تحقیق کی جائے۔ ان علاقوں میں تاریخی واقعات کی دوبارہ چھان بین اور تشریح کرنے کے مواقع فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔ ایسے پروجیکٹس میں مقامی لوگ زیادہ فخر اور خوشی سے شرکت کریں گے۔

انھی مقاصد کو مد نظر رکھتے ہوئے پاکستان کی ایک مقامی این جی او سینٹر فار کلچر اینڈ ڈویلپمنٹ نے 2018 میں ٹیکسلا کے تاریخی شہر میں گندھارا ریسورس سنٹر قائم کیا اور پچھلے تین سالوں میں تاریخی اور ثقافتی ورثہ کے حوالہ سے کئی اہم اور بنیادی پروجیکٹس پر کام کیا۔ انھی میں سے ایک پروجیکٹ یا کام یہ بھی تھا کہ ہیرٹج سائٹس کے ارد گرد چوپال یا پبلک گیدرنگ کا انعقاد کر کے مقامی شہریوں کو تاریخی ورثہ سے آگاہ کر کے اس سے ان کا تعلق قائم کیا جائے اور ساتھ ہی ٹیکسلا کے ثقافتی مقامات کی حفاظت اور سیاحت کے فروغ کے لیے اداروں کے ساتھ مل کر اقدامات کیے جائیں۔

ٹیکسلا میں سرکپ کے آثار قدیمہ کے باہر پچھلے سال چوپال کا انعقاد کیا گیا جس میں مقامی شہریوں نے بھرپور شرکت کی اور ٹیکسلا کے تہذیبی ورثہ میں دلچسپی کا اظہار کیا۔ یہ تمام کارروائی آثار قدیمہ میں کسی قسم کے خلل کے بغیر کی گئی بلکہ اس کو مزید فروغ دیا گیا۔ اس سال تیس اکتوبر کو سرکپ ہی کے مقام پر دوبارہ چوپال کی مجلس کا اہتمام کیا گیا تو ٹیکسلا میوزیم کی انتظامیہ کی جانب سے منع کر دیا گیا کہ اس کے لیے ہیڈ آفس سے اجازت لی جائے اور یہ کہ وہاں کسی قسم کی عوامی مجلس وغیرہ کی اجازت نہیں ہے۔

بہرحال یہ چوپال کی مجلس پھر قریب ہی موجود ایک پرائیویٹ جگہ پر کی گئی لیکن ہیرٹج سائٹ نہ ہونے کی وجہ سے اس کا اثر زائل ہو گیا۔ کون لوگ تھے اس چوپال میں کس کو بے دخل کیا گیا؟ شاعر، لکھاری، مصور، صحافی، اساتذہ، دانشور، سوشل سائنٹسٹ، تاریخ دان، آرٹسٹ، اور معزز مقامی شہری۔ کیا یہ وہی لوگ تھے جو اس تاریخی ورثہ کے مالک ہیں جن کے لیے اس ورثہ کا تحفظ کیا جا رہا ہے یا کسی اور قوم یا خدا نہ کرے کسی بیرونی حملہ آور کے لیے کیا جا رہا ہے؟

یہ بات سب کو واضح ہو جانی چاہیے اور تمام دنیا میں یہ رائج ہے کہ ہیرٹج یا ثقافتی ورثہ کی حفاظت صرف حکومت یا محکمہ کا کام نہیں ہے، اس میں مقامی شہری برابر کے شریک ہوتے ہیں اور ثقافتی ورثہ کے مالک بھی وہی ہوتے ہیں کیونکہ ثقافتی وراثت انسان سے انسان کو ملتی ہے انسان سے محکمہ یا حکومت کو نہیں ملتی یہ وراثت کسی مال یا پیسے اور دولت کی یا جائیداد کی نہیں ہے بلکہ یہ وراثت انسانی شناخت، اقدار، اور ثقافت کی وراثت ہے جس کی مالک مقامی آبادی ہے اور اس کا حق بنتا ہے کہ وہ اس کی حفاظت کریں، اس پر خود کو اور دوسروں کو تعلیم دیں، تحقیق کریں، اس پر بات کریں اور اگر کچھ غلط ہو رہا ہو تو اس کی نشاندہی کریں، اور روک ٹوک بھی کر سکیں۔

چھہ نومبر 2021 کو ایک بار پھر چوپال کی مجلس کے انعقاد کا اعلان کیا گیا جس میں ٹیکسلا کے راجہ امبھی اور قدیم یونان کے بادشاہ سکندر اعظم کی کہانی بیان ہونی تھی۔ ٹیکسلا کے نوجوانوں کو اس میں بہت دلچسپی تھی، مقام بھی بھڑماونڈ کا شہر رکھا گیا تھا جہاں راجہ امبھی نے کبھی سکندر کو خوش آمدید کہا تھا۔ سائٹ کی حالت بہت بری تھی، ہر طرف جنگلی گھاس اور خود رو جڑی بوٹیاں اگی ہوئی نظر آ رہی تھیں۔ جہاں کہیں جگہ خالی تھی وہاں بچے کرکٹ کھیل رہے تھے۔

جہاں گھاس ہری تھی وہاں گدھے گھاس چر رہے تھے۔ درختوں کے نیچے بیٹھے کچھ لوگ بیٹھے خوش گپیوں میں مصروف تھے۔ بہرحال موضوع کی مناسبت اسی جگہ کے ساتھ تھی اس لیے اسی جگہ بیٹھنے کا ارادہ تھا، لیکن ابھی معزز مہمان بیٹھے بھی نہیں تھے کہ ٹیکسلا میوزیم کے گارڈ آن پہنچے اور انھوں نے میزبانوں کے سامنے انتہائی تحقیر آمیز لہجے میں سب کو نکل جانے کو کہا۔ حد درجہ کی شرمندگی ہوئی۔ ہم نے بہت کہا کہ جس افسر کا حکم ہے ان سے کہو خود آ کر ہم سے بات کر لے مگر وہ بولے کہ ہم مجبور ہیں، نوکری کا مسئلہ ہے، خیر ہم سائٹ کی حدود اور جنگلے سے باہر آ کر بیٹھ گئے اور اپنی مجلس تمام کی۔ دوران مجلس کئی گدھوں کو سائٹ کے اندر جاتے، چرتے اور پھر باہر نکلتے دیکھا۔ ہم نے بھی ویڈیو بنا لی تاکہ سند رہے۔

سوال اور التجا یہ ہے کہ ٹیکسلا جیسا شہر جس کا نام دنیا کی سات زبانوں میں ہے، یہاں کے رہنے والے دانشور، آرٹسٹ، شاعر، مصور، اساتذہ اور تاریخ دانوں نے اگر مل بیٹھ کر شہر کے تہذیبی اور ثقافتی ورثہ کو بچانے کے لیے کچھ کرنے کا ارادہ کر لیا ہے تو ان کی حوصلہ افزائی کرنے کی بجائے حوصلہ شکنی نہ کی جائے۔ ایسے حالات میں باہر کا ٹورسٹ تو کیا اپنا ٹورسٹ بھی قریب نہیں آئے گا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments