سفرنامہ پنجاب۔ تیرے شہر میں یوں زندگی ملی۔ چوتھی قسط۔


آج ہماری پتوکی سے روانگی تھی۔ پتوکی میں یہ آخری صبح بھی ہم نے بہت بھرپور انداز میں گزاری۔ گروپ کی نصف سے زائد خواتین صبح کی سیر کرنے نکل پڑیں۔ آج ان میں میں بھی شامل تھی۔ ایک مزے کی بات بتاوٴں خواتین صرف صبح سیر کرنے ہی نہیں نکلتی تھیں بلکہ راستے میں کھیتوں میں انھیں جو بھی مٹھے مالٹے کا درخت نظر آ جاتا یہ اس پر بھی ہاتھ صاف کرنے سے باز نہ رہتیں۔ پھل کھانا مقصود نہ تھا مگر ایکٹیویٹی کے طور پر یہ کام کیا جاتا۔

میزبان اگر ساتھ ہوتے تو وہ بھی پوری طرح مہمانوں کا ساتھ دیتے بلکہ اکثر و بیشتر تو انھیں خود ہی مٹھے توڑ کے دے دیتے۔ کھیتوں کا نظارہ کرتے ہوئے ہم لوگ بانسوں کے جنگل کی طرف چلے گئے۔ میں نے تو پہلی مرتبہ کسی قدرتی جنگل میں قدم رکھا اگرچہ وہ بانس کا ہی تھا لیکن قدرتی جنگل کا اپنا ماحول اپنا تاثر ہوتا ہے۔ گھنا جنگل، جہاں چلنے کے راستے بھی بہت زیادہ نہیں تھے۔ زمین پہ ہر سو درختوں سے جھڑے ہوئے خشک پتے بکھرے ہوئے تھے جو ہمارے قدموں تلے چرمرا کر ہولے سے کراہتے تو ان کی چرمراہٹ کی آواز بھی اس قدرتی ماحول کا ایک حصہ محسوس ہوتی۔

صبح کا سہانا وقت جب کہ شہ خاور کو اپنے تخت پہ متمکن ہوئے زیادہ دیر نہیں ہوئی تھی۔ آسمان پر چھائے ہوئے بادلوں نے اس کی نرم روپہلی کرنوں کا راستہ روک رکھا تھا۔ اس کے باوجود ماحول منور تھا۔ ہر سمت دلکش اجالا تھا سفید بادلوں کی جگمگاہٹ نے کھیتوں کھلیانوں، درختوں، پھولوں پودوں غرض کہ ہر سبزے کے رنگ کو بے حد نمایاں کر دیا تھا۔ یوں لگ رہا تھا ہم گویا کسی اور ہی دنیا میں نکل آئے ہیں۔ خواتین جہاں بھی جائیں ان کا ایک ضروری کام ہوتا ہے تصور کشی خاص طور پہ سیلفی چناں چہ بانسوں کے جنگل میں جہاں ہم ایک دوسرے کو سانپوں اور شیروں کی آمد کا کہہ کہہ کر ڈرا رہے تھے، وہاں بھی خواتین گروپ فوٹو اور سیلفیز لیے بغیر نہ رہ سکیں۔

کچھ دیر چہل قدمی کے بعد سب کو ناشتہ یاد آیا کیوں کہ آج یہاں سے رخصت ہونا تھا تو ناشتے کے بعد سفر تیاری بھی کرنا تھی۔ چناں چہ ہم ہنستے ہنساتے، گاتے گنگناتے قدم قدم پر رکتے سیلفیاں اور تصویریں لیتے واپس ہوئے۔ چلتے چلتے رکنا پڑتا جب ہم میں سے کوئی اچانک بازو بلند کر کے موبائل کیمرے کا زاویہ درست کرتی اور دیگر خواتین کو متوجہ کرتی ”ادھر دیکھو“ ۔ سب خواتین کیمرے کی طرف متوجہ ہوکے مسکراتیں اور اسٹائل سے پوز دیتیں۔

یہ بہت پرلطف تاثر تھا۔ راستے میں بارش شروع ہو گئی۔ اگرچہ چند منٹ کی ہی تھی لیکن بارش کے قطروں میں ایک الگ ہی جادو ہوتا ہے۔ بارش نے رگ و پے میں سرشاری کی لہر سی دوڑا دی۔ ہم سب گویا اور ترنگ میں آ گئے اور مزید اونچی اونچی تانیں لگانا شروع کر دیں۔ خیر ہم اپنے عارضی مسکن پہنچ ہی گئے۔ آج ہمارے ناشتے میں پتوکی شہر کے کوفتے چنے اور نان تھے۔ میں نے کوفتے چنے پہلی مرتبہ کھائے۔ ہمارے یہاں چنوں کو کسی ڈش میں استعمال کرنے کا رواج نہیں لہٰذا چنوں کے سالن سے واسطہ نہیں پڑتا لیکن سالن ذائقے دار تھا۔

مجھے تو اگر کچی ہری مرچیں مل جائیں تو میرے لیے ہر سالن مزید ذائقہ دار ہوجاتا ہے۔ چناں چہ دونوں دن میں نے کچی ہری مرچوں کی فرمائش کی اور اپنے کھانے کو اور زیادہ ذائقے دار کیا۔ ویسے سچ بات تو یہ ہے اس پورے سفر میں پتوکی کے کھانوں کا ذائقہ سب سے اچھا تھا۔ ناشتے کے بعد حسب سابق سب نے دو دو کپ چائے پی۔ گھر کی گائے بھینسوں کے دودھ کی چائے ہوتی ہی اتنی مزے دار تھی کہ میزبانوں کے چائے کا دوبارہ پوچھنے پر ہم سب کہہ دیتے کہ ہمیں بھی چائے پینا ہے۔

ناشتے سے فارغ ہو کر سب نے اپنا سامان سمیٹنا شروع کیا۔ ساتھ ساتھ روانگی کے لیے خود بھی تیار ہونا شروع کیا۔ آسمان پر بادل سورج کے ساتھ آنکھ مچولی کھیلنے میں مصروف تھے۔ کبھی ہلکی سی نرم ملائم دھوپ اور کبھی گھنے بادلوں کا سایہ، چاروں طرف سبزہ، نرم رو ہوا۔ سچ ہے فطرت کے حسن کا جواب نہیں۔ دوپہر کو ہماری گاڑی آ گئی۔ گاڑی تو آ گئی لیکن مسافروں کی تیاریاں مکمل نہیں ہو رہی تھیں۔ بارے خدا ہم سب گاڑی میں سوار ہوئے اور ہمارا سفر شروع ہوا۔

جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا کہ بڑے شہروں سے باہر نکل کر دیکھیں تو گویا زمین کا منظر ہی تبدیل ہوجاتا ہے۔ یا تو تاحد نگاہ سبزہ ہی سبزہ نظر آئے گا یا چٹیل میدان جن میں کہیں کہیں درخت اور جھاڑیاں ہوں گی۔ نہریں تو پھر بھی کہیں کہیں نظر آجاتی ہیں لیکن دریا تو اب نایاب ہوئے۔ اس سفر میں ہمیں کہیں دور تک دریا نظر نہیں آیا۔ پنجاب پانچ دریاوٴں کی وجہ سے پنجاب کہلاتا تھا لیکن اب پانچ دریاوٴں کی سرزمین کے دریا خشک ہو گئے ہیں اور اکثر علاقے اسی لیے ویران ہوئے ہیں لیکن دیکھنے والی نظر کو تو ایسے ویرانے میں بھی حسن نظر آتا ہے۔

ہم پتوکی کے مضافات سے چلے اور راستے میں کئی شہروں سے گزر ہوا۔ جھنگ سے بھی گزر ہوا۔ ماہیؤں ٹپوں میں جھنگ کی ونگ کا ذکر بہت زور و شور سے ہوتا ہے اگر جھنگ میں رکنا ہوتا تو میں وہاں کی چوڑیاں ضرور دیکھتی کہ ان کی خاص بات کیا ہے۔ برسبیل تذکرہ چوڑیاں تو حیدرآباد کی بہت مشہور ہیں۔ چوڑیوں کی دکان پہ جائیں تو دکان دار اپنی دکان کی سب سے خوب صورت چوڑی حیدرآباد کی چوڑی کہہ کر ہی دیتا ہے۔ بہرحال نہ جھنگ رکنا ہوا اور نہ ہی وہاں کی چوڑیاں دیکھنے کا موقع ملا ممکن ہے آئندہ کبھی ایسا اتفاق ہو۔

راستے میں سمندری کے قریب ایک جگہ سڑک کے کنارے چھوٹا سا چائے کا ہوٹل تھا۔ شاید مسافر یہاں ٹھہر کر کچھ دیر سستاتے ہوں گے اسی لیے یہاں ہوٹل والوں نے چارپائیاں بچھائی ہوئی تھیں۔ سڑک کے ایک طرف کھیت تھے جہاں بوائی ہو رہی تھی۔ وسیع و عریض کھیت جن میں کہیں تو فصل لہلہا رہی تھی اور کہیں بوائی ہو رہی تھی۔ کھیتوں کے کنارے لگے ہوئے درخت گویا کھیتوں کے لیے چار دیواری کا کام دے رہے تھے۔ ایسی کھلی سرسبز فضا کسی کو بھی ترنگ میں آنے پر مجبور کر سکتی ہے اور پھر تخلیق کاروں کا دل تو کسی بھی عام شخص کے مقابلے میں کہیں زیادہ گداز ہوتا ہے۔

سو ہمارے فن کار اور تخلیق کار ہم سفر اس کھلی فضا، سبزے اور نرم رو ہوا کے حسن سے گویا مسحور سے ہوکے رہ گئے۔ اس منظر کو سب نے اپنے کیمروں میں قید کرنا شروع کر دیا۔ تصویریں اور سیلفیاں یادوں کا وہ حسین البم ہیں کہ جب بھی انھیں دیکھیں ہم خود کو اسی لمحے میں پاتے ہیں گویا وقت کی گردش پیچھے کو لوٹ جاتی ہے۔ ہمارے ہم سفر وہاں چائے پینے کے لیے ٹھہرے۔ چائے پی کے ہم وہاں سے روانہ ہوئے۔ راستے میں ایک جگہ سڑک بند تھی معلوم ہوا کہ حادثہ ہو گیا ہے سو سڑک بند ہو گئی۔

ہر طرف رش تھا۔ دو گھنٹے ہم اسی رش میں پھنسے رہے۔ آخر کار راستہ صاف ہوا اور ہم وہاں سے آگے بڑھے۔ سفر کے دوران جو سب سے خاص بات تھی وہ ہمارے گروپ کے لوگوں کی زندہ دلی۔ پورے راستے سب لوگ ہنستے گاتے رہے اور سفر کو پر رونق کرتے رہے۔ دوران سفر رات ہو گئی۔ یہ منظر میرے لیے اور بھی پر کشش تھا۔ تاریک رات، ہر طرف ویرانہ، درمیان میں سڑک جس پر تیز رفتاری سے سفر کرتی ہوئی ہماری گاڑی۔ میں کھڑکی سے باہر دیکھ رہی تھی اور مجھے یوں لگ رہا تھا جیسے اس پوری کائنات میں بس ہم ہی ہیں۔

یہ احساس بھی کتنا انوکھا ہوتا ہے کہ آپ محسوس کریں اس وسیع و عریض کائنات میں ہمارے علاوہ کوئی نہیں اور یہ سب کچھ یہ زمین و آسمان ہمارے ہیں، ہمارے لیے ہیں۔ رات کی تاریکی میں ہماری گاڑی کے ساتھ بھاگتے ہوئے مناظر اور دور سیاہ آسمان کے کنارے سے دھیرے دھیرے طلوع ہوتا ہوا نارنجی سی روشنی بکھیرتا ہوا چاند۔ گویا رات کی سیاہی کو اپنے نور سے جگمگانے آیا ہو۔ فطرت کی انھی رنگارنگ دل ربائیوں کا نظارہ کرتے کرتے معلوم بھی نہ ہوا کہ ہمارا سفر اختتام پذیر ہوا۔ رات کے ساڑھے نو بجے تھے جب ہم اپنے نئے پڑاوٴ پہنچے۔

(جاری)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments