بنا کر فقیروں کا ہم بھیس غالب


خدا سخن وروں کو دے زور بیاں اور۔ سوشل میڈیا ہو کہ اخبارات، ہر جگہ رجز با آواز بلند پڑھے جا رہے ہیں کہ مہنگائی بہ نسبت دوسرے ممالک کے ریاست مدینہ، امیر المومنین جہاں تقریروں سے دل بہلاتے ہیں، میں اونٹ کے منہ میں زیرہ ہے۔ ہماری رہ نمائی پر معمور امریکہ سے درآمد شدہ شہباز گل صبح شام بند ذہنوں کے کواڑ کھولنے کی کوشش کرتے ہیں کہ ذرا دیکھو تو، انڈیا، امریکہ، اور بنگلہ دیش وغیرہ سے تو اب بھی اپنے ہاں پٹرول سستا ہے۔ پھر سوشل میڈیا کے بانسوں پر چڑھے ہرکارے نقاروں پر چوٹ لگاتے ہیں کہ اٹھو اور نماز شکر ادا کرو کہ امیرالمومنین کو تمھارا کس قدر خیال ہے کہ پٹرول اب بھی یاں کوڑی کے مول بک رہا ہے۔

امیر المومنین کی فراست کو فرسودہ کہنے والوں کو توبہ کی تسبیح پڑھنی چاہیے، اس سے پہلے کہ فرشتہ ہائے اجل زندگی کی منڈیر پر آن بیٹھے۔ ہم عوام کی جیبوں سے سو روپے نکال کر کر دس روپے واپس کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ تاریخی پیکج دیا گیا ہے۔ یہ فراست نہیں تو اور کیا ہے؟ اگر آپ اس فراست کو گیدڑ کی مکاری اور لومڑ کی ہوشیاری تصور کریں تو یقیناً دماغ آپ کا فتن کار واقع ہوا ہے۔ وہ دلیل دیتے ہیں کہ ہر روز ہزاروں کی تعداد میں لوگ ہوٹلوں میں کھانا کھانے جاتے ہیں، بازاروں میں خریداری کرنے پہنچتے ہیں، سیاحت کے لیے رخ شمالی علاقوں کا کرتے ہیں۔ اگر مہنگائی ہوتی تو یہ ممکن کیوں کر ہوتا۔

جو لوگ مہنگے ہوٹلوں میں کھانا کھاتے ہیں، برانڈڈ کپڑے زیب تن کرتے ہیں اور سیاحت کے مزے سے زندگی کی کٹھنائیوں کو سعی دور کرنے کی کرتے ہیں۔ وہ لوگ تو امیر گھروں کی پیداوار ہیں، ان کی بلا سے پٹرول ایک سو پچاس روپے ہو یا تین سو روپے فی لیٹر۔ ہمارے وزرا بھی انہی گھرانوں سے تعلق رکھتے ہیں اور اردگرد ہر وقت اپنے جیسے لوگوں کو دیکھتے ہیں، اس لیے مہنگائی نظر نہیں آتی۔ مہنگائی تو ہمیں نظر آتی ہے۔ کبھی سڑک کنارے کھڑے ان مزدوروں کو دیکھو تو، کیسے ان کے چہروں کی رعنائی اڑ چکی ہے گویا کہ روح عالم بالا چلی گئی ہے جو کبھی نہیں پلٹے گی۔ ان مزدوروں کے چہروں پر فقط ایک خوف ہوتا ہے کہ آج مزدوری نہ ملی تو کیا ہو گا۔

کوئی شخص جب مزدور کو لینے آتا ہے تو بیس تیس مزدور گاڑی کے گرد اکٹھا ہو جاتے ہیں میں جاؤں گا، میں جاؤں گا۔ اور پھر وہ گاڑی والا نہایت کم مزدوری پر کسی شخص کو لے جاتا ہے، اس کو معلوم ہوتا ہے کہ یہ ضرور جائیں گے، نہ جانے کی صورت میں رات بھوکا سوئیں گے۔ کیا یہ انسانیت کی تذلیل نہیں۔ شہباز گل ذرا ان مزدوروں سے پوچھو تو مہنگائی ہے یا نہیں؟ تم تو پانچ سال بعد یا عمران کی سیاسی زندگی کے خاتمے پر امریکہ واپس چلے جاؤ گے، مگر ہم غریبوں نے تو یہی رہنا ہے۔ ہم بھی بھگت رہے ہیں، ہماری نسلیں بھی بھگتیں گی۔ تم آج ایک شہنشاہ کے اقبال کے نعرے بلند کرتے ہو تو کل دھارا وقت کا دیکھ ناؤ تبدیل کر لو گے۔ تمھیں آج بھی مہنگائی نظر نہیں آتی، تمھیں کل بھی نہیں آئے گی۔ تم کون سا مزدور ہو۔

اگر کچھ طبیعتوں پر آثار ناگواری کے ظاہر نہ ہوں تو کیا یہ پوچھ سکتے ہیں کہ ہمارے ہاں کارل مارکس کب پیدا ہو گا، جو آواز ان مزدوروں کے حقوق کی اٹھائے گا۔ تب تک تو فقط استحصالی ہے، فقط استحصالی۔ جمعہ کے دن تک فسادی گروہ کی وجہ سے جی ٹی روڈ بند تھا، اس لیے کچھ کلومیٹر رکشے پر سفر کرنا پڑا۔ وہ بیچارا کہنے لگا کہ صبح سے جتنا کرایہ اکٹھا ہو رہا ہے، اس کا پٹرول ڈلوا رہا ہوں۔ شام کو بچت کیا آئے گی، کچھ معلوم نہیں۔ اپنے وزرا رکشوں پر سفر کریں تو انہیں اندازہ کرب کا ہو۔ یہ وزرا ہیں یا فضا میں قوس قزح کے رنگ بکھرے ہیں کہ جن کو دیکھ کر امیر المومنین جی بہلایا کرتے ہیں۔ صاف گوئی تو جیسے انگارہ ہے، جس نے اس سے کام لینے کی کوشش کی اس کی زبان جل جائے گی۔

کوئی تو امیرالمومنین کو بتائے کہ آپ کی رعایا فاقوں پر مجبور ہے اور آپ بنی گالا کے سرد کمروں کو مصنوعی حرارت سے گرم کیے بیٹھے ہیں۔ آپ کو ریاست مدینہ بنانے کا شوق لاحق ہے، تو کیوں نہ آپ کل سے بوریے پر سونا شروع کر دیں۔ کیوں نہ کل سے آپ رات کو کچی بستیوں میں مزدوروں کی خبر گیری کریں۔ آپ کو سیکیورٹی وجوہات کی بنیاد پر خبر گیری سے روکنے کی کوشش کی جائے گی، مگر آپ ڈٹ جائیے گا، جیسے آپ آئی ایس آئی کے سربراہ کے معاملے میں ڈٹے تھے۔ آپ یہ بھی اعلان فرما دیجیئے کہ میرا کوئی وزیر مہنگا کھانا نہیں کھائے، مہنگے کپڑے نہیں پہنے گا۔ معافی چاہتے ہیں کہ یہ سب تو اسی صورت میں ممکن ہونا تھا جب مہنگائی ہوتی، امیرالمومنین کے نزدیک تو مہنگائی ہے ہی نہیں، اس لیے یہ اقدامات نہیں اٹھائے جائیں گے۔

ہم ایسوں کے لیے یہی صورت بچی ہے کہ مہنگائی کے اس دور آشوب میں غالب کی نصیحت پر دل و جان سے عمل کیا جائے۔

بنا کر فقیروں کا ہم بھیس غالب
تماشائے اہل کرم دیکھتے ہیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments