ایک مولوی سے مکالمہ


ایک وقت تھا جب مولوی کو بہت ہی عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا زمین پر خدا کا حقیقی نمائندہ تصور کیا جاتا تھا لوگ مسجد کے مولوی کے ساتھ گھریلو مسائل بھی ڈسکس کیا کرتے تھے تاکہ مسائل کو سلجھانے کے لیے بہتر حل مل سکے بچوں کے نام تجویز کروانے کے علاوہ بچیوں کے رشتوں کے مسائل اور استخارہ وغیرہ کے لیے مولوی پر بھروسا کیا کرتے تھے بڑے بڑے جلسوں میں مولوی کی تقریریں سننے کے لیے لاکھوں لوگ جمع ہوتے تھے

مگر پھر وقت نے انگڑائی لی سب کچھ پلٹ گیا اور مولویانہ سسٹم غیر متعلقہ ہونے لگا جو لوگ مولوی کے گرد دائرہ بنا کر بیٹھا کرتے تھے وہ اب کھسکنے لگے جو جمعہ کی نماز ادا کرنے کے لیے وقت سے پہلے مسجد میں پہنچ جایا کرتے تھے تاکہ مولوی کے خطاب سے مستفید ہو سکیں اب وہ وقت ہے کہ لوگ پورے وقت پر پہنچ کر دو رکعت نماز ادا کر کے گھر کی راہ لیتے ہیں ربیع الاول کی محافل اور جلوسوں کی بھی اب وہ رونقیں نہیں رہیں جو کبھی ہوا کرتی تھیں اب چل چلاؤ سلسلہ چل رہا ہے

میرا تعلق ٹیچنگ پروفیشن سے ہے سوچنا، سمجھنا اور سوال کرنا میرا پسندیدہ مشغلہ ہے تاکہ بطور طالب علم کچھ نیا جان پاؤں کچھ دنوں پہلے میری مسجد کے خطیب سے ملاقات ہوئی جو سیکنڈ ائر کے امتحان کی تیاری کے سلسلے میں میرے پاس آیا موقع غنیمت جانتے ہوئے میں نے اس سے مکالمہ کیا

سوال۔ آپ کی تعلیم کیا ہے آپ اس پروفیشن میں کیسے آئے؟

جواب۔ میں نے جب درس نظامی کیا تھا اس وقت میری تعلیم مڈل تھی والدین مجھے عالم بنانا چاہتے تھے تاکہ میں دین کی خدمت کر سکوں میرا ذاتی طور پر اس فیلڈ میں آنے کا کوئی شوق نہیں تھا بس والدین کی خواہش کا احترام کرتے ہوئے میں عالم بن گیا اور میں اس وقت ایک مسجد میں خطیب ہوں

سوال۔ آپ کا تعلق کس مکتب فکر سے ہے؟ کیا آپ کتابیں پڑھنے میں دلچسپی رکھتے ہیں؟

جواب۔ میرا تعلق حنفی فقہ اور بریلوی مکتب سے ہے اور میں اپنے مسلک کو ہی حق سچ جانتا ہوں باقی اور کسی فرقے کو سچ تسلیم نہیں کرتا کتابیں میں نے اپنی زندگی میں بہت پڑھی ہیں اور اب بھی پڑھتا رہتا ہوں مگر میں کتابوں کو منتخب کرنے میں بہت احتیاط کرتا ہوں میں صرف اور صرف اپنی بریلوی سکول آف تھاٹ کی کتابیں ہی پڑھتا ہوں اس کے علاوہ باقی کتابوں کے بارے میں میرا یقین ہے کہ وہ گمراہ کرتی ہیں، باقی مسالک کی کتابیں زہر قاتل کی مانند ہیں اس لیے میں اپنے مسلک کے بزرگوں کی کتابیں پڑھ کر اپنی اصلاح کرتا رہتا ہوں اور اپنے مسلک کی حقانیت تقریر و تحریر میں واضح کرتا رہتا ہوں

سوال۔ آپ کی سعادت حسن منٹو، کارل سیگن، سبط حسن، علی عباس جلال پوری اور علامہ نیاز فتح پوری کے بارے میں کیا رائے ہے؟ کیا آپ ان شخصیات کی کتابوں سے متعارف ہیں؟

جواب۔ میں تو ان میں سے بہت سوں کو بالکل بھی نہیں جانتا میں نے یہ نام زندگی میں پہلی مرتبہ آپ سے سنے ہیں البتہ سنا ہے کہ سعادت حسن منٹو بہت بڑا فحش نگار تھا، طوائفوں رنڈیوں کے اکثر گن گایا کرتا تھا۔ پرلے سرے کا شرابی اور لا دین قسم کا ٹھرکی انسان تھا اور علامہ نیاز فتح پوری تو مسلمانوں کی صف میں ”نان ڈیکلیئر دہریہ“ تھا بس چسکے لینے کے لیے مذہب کی باتیں کرتا رہتا تھا بس ان کے علاوہ میں کسی کو بھی نہیں جانتا۔

سوال۔ سعادت حسن منٹو اور نیاز فتح پوری کے متعلق آپ کی جو رائے ہے وہ آپ نے پڑھ کر بنائی ہے یا سنی سنائی باتیں ہیں؟

جواب۔ نہیں خیر ان کو پڑھا تو بالکل بھی نہیں ہے اور نہ ہی پڑھنے کا ارادہ ہے کیونکہ کہ مجھے اپنے مسلک کتابیں پڑھنے سے ہی فرصت نہیں ملتی البتہ میں نے ان لکھاریوں کے بارے میں مستند لوگوں سے بہت سنا ہے اور اس سننے کے بنیاد پر ہی میں یہ سب کچھ کہہ رہا ہوں ویسے بھی لا مذہب لوگوں کو پڑھنے کی ضرورت نہیں ہے

سوال۔ اب اس پیشے میں مولویوں کی اہمیت کم ہونے لگی ہے کیا آپ بھی محسوس کرتے ہیں؟

میں آپ کی بات سے اتفاق کرتا ہوں لوگ پہلے کی طرح اب مولوی کی عزت نہیں کرتے بلکہ دیکھ کر راستہ ہی بدل لیتے ہیں اور نماز ادا کر کے فوراً ہی مسجد سے نکلنے کی کوشش کرتے ہیں، پہلے لوگ مسائل پوچھنے کے بہانے کچھ دیر بیٹھ جایا کرتے تھے اب خدا بیڑا غرق کرے اس انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کا جس نے ہماری روزی روٹی میں نمایاں کمی کر دی ہے لوگ اپنی پسند کا مولوی یوٹیوب چینل پر سن لیتے ہیں اور مسائل کو گوگل بابا سے پوچھ لیتے ہیں اور گھر میں ہی حل کر لیتے ہیں اور پیٹھ پیچھے ہماری برائیاں کرتے ہیں۔ لیکن ہماری روزی روٹی اللہ کے ہاتھ میں ہے جو کسی صورت بھی بند نہیں ہوتی

سوال؟ پھر آپ ان بدلتے حالات میں کیسے سروائیو کرتے ہیں؟

جواب؟ لوگ جلسوں، محافل، ختم شریف، بیاہ شادی اور جنازوں میں بلاتے ہیں جب میں نیا نیا اس فیلڈ میں آیا تھا میرا اتنا تعارف نہیں تھا تو ان پروگرامز کو اٹینڈ کرنے کا معاوضہ بہت کم ملتا تھا اکثر تو مجھے۔ جزاک اللہ۔ پر ٹرخا دیا جاتا تھا مگر آج میرا نام بن چکا ہے اور ہر تقریب میں شرکت کرنے کی میری فیس مقرر ہوتی ہے ہم لوگوں کی ضرورت بن چکے ہیں اس لیے ان کو کچھ نہ کچھ دینا پڑتا ہے خاص طور پر ربیع الاول اور ماہ محرم میں تو ہماری پانچوں گھی میں ہوتی ہیں اور اتنی محافل ہوتی ہیں کہ ہمارے پاس ہر محفل میں جانے کا ٹائم ہی نہیں ہوتا۔ مندے کے دنوں میں تعویذ دھاگے اور دم درود چلتا رہتا ہے بس اس طرح گھر کا خرچ چلتا ہے

سوال۔ آپ کیا سمجھتے ہیں لوگ دین سے دور ہوتے جا رہے ہیں؟

جواب۔ ہاں بالکل ایسا ہی ہے مگر ہم لوگوں سے بھی زیادہ سیانے ہیں مسجد کے منبر پر بیٹھ کر ہم بھی لوگوں کی نفسیات کو جاننے لگے ہیں ہم تقاریر میں ان کے ذوق کے مطابق چٹکلے چھوڑتے ہیں موسیقی کو تو تقریباً اب ہر بندہ ہی انجوائے کرتا ہے ہم نے اس کا حل کچھ یوں نکالا ہے کہ اب نعتوں میں آلات موسیقی کے ساتھ انڈین گانوں کی طرز کا تڑکا لگانا شروع کر دیا ہے، لوگ اس وجہ سے سر دھنتے ہیں اور نوٹوں کی بارش بھی خوب ہوتی ہے، دلہا کے بعد اب نعت خوانوں پر نوٹ برسنے لگے ہیں۔

سوال۔ یہ شبینہ، گھر میں حفاظ سے سپارے پڑھوانا اس کے پیچھے فلسفہ کیا ہے؟

جواب۔ جناب لوگوں کے پاس اب دین کے لیے وقت بالکل نہیں رہا اب وہ روحانی سکون، جنات اور موذی بلاؤں سے بچنے اور اپنے مرحوم والدین کو بخشوانے کی لیے ہم سے رابطہ کرتے ہیں تو ہم ان کو شبینہ کا مشورہ دیتے ہیں شبینہ کے اندر ایک حافظ کو مطلوبہ بندے کے گھر بھیج دیا جاتا ہے جہاں پر وہ سپیکر پر ایک رات میں قرآن مکمل طور پر پڑھتا ہے۔ اس عمل سے مطلوبہ مالک مکان کی تشفی ہو جاتی ہے اور وہ اس ”سروس“ کے عوض ہماری کچھ مالی مدد کرتا ہے اور جہاں تک بات ہے سپارے پڑھوانے کی تو لوگ اپنے مرحوم والدین کو بخشوانے کی لیے کچھ حفاظ کو اپنے گھر جمع کر لیتے ہیں اور وہ مل کر جو بھی پڑھتے ہیں اس کا ثواب مرحومین کو ڈلیور کر دیا جاتا ہے اس کے عوض ہمیں پیٹ بھر کر کھانا اور کچھ مالی امداد مل جاتی ہے ہم بھی خوش اور مالک مکان کی بھی تسلی ہو جاتی ہے

سوال۔ آپ کا دوسرے مسالک مثلاً دیوبندی، اہلحدیث، شیعہ اور احمدیوں کے بارے میں کیا رائے ہے کیا وہ بھی آپ کی طرح حق پر ہیں؟

جواب۔ نہیں جناب بالکل بھی نہیں ہم تو صرف اتحاد امت کا نعرہ اس وقت لگاتے ہیں جب ہمارے مفادات ایک ہوتے ہیں یا الیکشن وغیرہ میں حصہ لینا ہوتا ہے۔ صرف اس وقت ہم بھائی بھائی ہوتے ہیں ورنہ ہم ایک دوسرے کی ضد ہیں ہم ایک دوسرے کے پیچھے نماز بھی دکھاوے کے لیے پڑھتے ہیں حقیقت میں تو ایک دوسرے کی جڑیں ہی کاٹتے ہیں جناب جس دن ہم ایک ہو گئے تو جھگڑا کس بات کا رہ جائے گا دراصل ہماری جھگڑوں میں ہی بقاء ہے

سوال۔ آپ ایک خدا اور ایک رسول کو ماننے والے ہو تو پھر یہ مناظرہ بازی کیوں چلتی رہتی ہے؟

جواب۔ جناب سیدھی سادھی عوام کو اپنے مسلک کا مداح بنانے کا چکر ہوتا ہے اور اپنی اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد کے لیے راشن پانی اکٹھا کرنے کا جواز گھڑنا ہوتا ہے دوسری لفظوں میں اپنی فالونگ بڑھانے کا چکر ہوتا تاکہ قربانی کھالیں، صدقہ و خیرات اور مالی تعاون وغیرہ اپنے مسلک سے باہر نا جائے اگر لوگوں کو پتہ چل جائے کہ ہمارے درمیان کوئی اختلاف، جھگڑا نہیں تو ہم مالیاتی طور پر خسارے میں چلے جائیں گے جو ہم کو ملتا ہے وہ تقسیم ہونے لگے گا ہم اس معاملہ میں دولت کی مساویانہ تقسیم کے قائل نہیں۔

سوال۔ عالم بن کر جو آپ دین کی خدمت کر رہے ہیں کیا آپ اس سے مطمئن ہیں؟ کیا آپ سائنس کو پڑھنے میں دلچسپی رکھتے ہیں؟

جواب۔ جی جناب میں بالکل مطمئن ہوں میں بطور حنفی بریلوی اپنے مسلک کو حق جانتا ہوں اسی کے مطابق زندگی گزارنے پر فخر محسوس کرتا ہوں، میں دنیاوی تعلیم کی طرف تو میں اس لیے آیا ہوں کہ اب ہمارے مقتدی اپنی گفتگو میں تھوڑے بہت انگریزی کے الفاظ بولتے رہتے ہیں جنہیں سمجھنے میں مجھے کافی دقت ہوتی ہے اور اسی لیے سیکنڈ ائر کے امتحان کی تیاری کے لیے آپ کے پاس آیا ہوں ورنہ تو انگریزی کافروں کی زبان ہے اور مجھے اس سے نفرت ہے باقی سائنس تو حرام اور اسے پڑھنے والے اکثر ملحدین جانے جاتے ہیں تو میں لعنت بھیجتا ہوں ایسی سائنس پر جو میری عاقبت خراب کر ڈالے

سوال۔ کیا آپ بھی اپنی طرح اپنے بچوں کو عالم بنانا چاہتے ہیں؟

نہیں میرے بچے تو انگریزی سکول میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں اور میں انہیں اعلیٰ تعلیم کے لئے بیرون ملک بھیجنے کا ارادہ رکھتا ہوں میرا ایک مقتدی ہے جس کے بچے اور رشتہ دار امریکہ میں مقیم ہیں اس کا مجھ سے وعدہ ہے کہ وہ میرے بچوں کو بھی امریکہ بھجوانے میں میری مدد کرے گا۔

سوال۔ ہنستے ہوئے ؛ کیا یہ کھلا تضاد نہیں ہے؟

جواب۔ نہیں جناب یہ وقت کے تقاضے ہیں اور ہم مسلمانوں کو کافروں سے فائدہ لینا چاہیے کیونکہ دنیا ان کی ہے اور آخرت ہماری ہے ہم ان سے دنیا داری سیکھ کر دنیا میں کامیاب اور آخرت میں بھی کامیاب ہوں گے کیونکہ ان کافروں کا ٹھکانہ جہنم ہے اور جنت کے تو صرف ہم ہی مالک ہیں۔

مولانا صاحب میں آپ سے اجازت چاہتا ہوں آپ کو پڑھانے میں مجھے واقعی بہت مزا آئے گا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments