اترپردیش کی سیاست میں بانی پاکستان کا ذکر: ’اگر جناح انڈیا کے پہلے وزیر اعظم ہوتے تو ملک تقسیم نہیں ہوتا‘


محمد علی جناح
کچھ سالوں سے انڈیا کی سیاست میں محمد علی جناح کا ذکر بار بار آ رہا ہے
بانی پاکستان محمد علی جناح گذشتہ کچھ دنوں سے انڈین ریاست اتر پردیش کی سیاست میں بحث کا موضوع بنے ہوئے ہیں۔ جناح کے حوالے سے تازہ ترین بیان سُلیھ دیو بھارتیہ سماج پارٹی کے رہنما اوم پرکاش راج بھر نے دیا ہے۔

راج بھر نے دعویٰ کیا ہے کہ اگر محمد علی جناح انڈیا کے پہلے وزیر اعظم بنتے تو ملک تقسیم نہ ہوتا۔

بھارتیہ جنتا پارٹی اور دیگر جماعتوں نے الزام لگایا ہے کہ انتخابات کے پیش نظر جناح کا تذکرہ لوگوں کو خوش کرنے کے لیے کیا جا رہا ہے۔ کچھ دن پہلے سماج وادی پارٹی کے سربراہ اکھیلیش یادو نے بھی جناح کا تذکرہ کیا تھا جس کے بعد ریاست کی سیاست میں زبردست بحث چھڑ گئی تھی۔ اکھیلیش یادو کے بیان پر اتر پردیش کے وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ سمیت کئی رہنماؤں نے سوال اٹھائے تھے۔

اب مرکزی وزیر اور بی جے پی رہنما انوراگ ٹھاکر نے اوم پرکاش راج بھر کے اس بیان پر سوال اٹھائے ہیں۔

خبر رساں ادارے اے این آئی نے انوراگ ٹھاکر کے حوالے سے کہا ہے ‘جب الیکشن آتے ہیں تو خوشامد کی سیاست شروع ہو جاتی ہے اور کچھ لوگ جناح کا ذکر شروع کر دیتے ہیں۔’

https://twitter.com/ANI/status/1458411231157514249

اوم پرکاش راج بھر کی پارٹی نے حال ہی میں سماج وادی پارٹی کے ساتھ اتحاد کیا ہے۔ دونوں جماعتیں اتر پردیش کے اسمبلی انتخابات میں مل کر مقابلہ کریں گی۔ راج بھر پہلے بھارتیہ جنتا پارٹی کے اتحادی تھے۔

اکھیلیش یادو کا بیان

کچھ دن پہلے سماج وادی پارٹی کے سربراہ اکھیلیش یادو کے جناح سےمتعلق بیان پر بحث ہوئی تھی۔ اکھیلیش یادو نے ہردوئی میں ایک پروگرام میں کہا تھا’سردار پٹیل جی، مہاتما گاندھی، جواہر لعل نہرو اور محمد علی جناح ایک ہی ادارے میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد بیرسٹر بن کر آئے۔ انھوں نے اسی جگہ پر تعلیم حاصل کی، وہ بیرسٹر بنے، انھیں آزادی ملی۔ انھیں جدوجہد کرنی پڑی لیکن وہ پیچھے نہیں ہٹے۔’

یوگی آدتیہ ناتھ نے کیا کہا؟

اکھیلیش یادو کے اس بیان پر بھارتیہ جنتا پارٹی سمیت کئی پارٹیوں نے سوال اٹھائے۔ اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے اکھیلیش یادو کے بیان پر اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ انھیں ملک سے معافی مانگنی چاہیے۔

یوگی آدتیہ ناتھ نے کہا ‘ان کی تفرقہ انگیز ذہنیت ایک بار پھر اس وقت سامنے آئی جب انھوں نے سردار پٹیل کو جناح کے برابر لا کر جناح کی تعریف کرنے کی کوشش کی۔ یہ بیانات انتہائی شرمناک تھے۔’

بی جے پی کے کئی دیگر رہنماؤں نے اسے ‘مسلمانوں کی خوشنودی حاصل کرنے کی کوشش’ قرار دیا۔ بی جے پی رہنما امیت مالویہ نے اکھیلیش یادو کی تقریر کا ایک حصہ ٹوئٹ کیا اور الزام لگایا کہ وہ ووٹ حاصل کرنے کے لیے اس طرح کے بیانات دے رہے ہیں۔

اکھلیش یادو

اکھلیش یادو نے بھی کچھ عرصہ پہلے جناح کا ذکر کیا تھا

آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے رہنما اسد الدین اویسی، جو اتر پردیش کے آئندہ انتخابات میں اپنی طاقت کے مظاہرے کے لیے تیار ہیں، انھوں نے بھی اکھیلیش یادو کے بیان پر اعتراض کیا اورانھیں ٹھیک سے تاریخ پڑھنے کا مشورہ دیا۔

اویسی نے کہا ‘جناح سے ہمارا کوئی تعلق نہیں ہے۔ اکھیلیش یادو یہ سمجھ رہے ہیں کہ ان کی اس طرح کی بات سے کوئی طبقہ یا کوئی ووٹر خوش ہوگا تو وہ غلطی کر رہے ہیں۔’

تاہم تنازعہ شروع ہونے کے بعد بھی اکھیلیش یادو اپنے بیان پر قائم رہے۔ سماج وادی پارٹی کے نارد رائے جیسے رہنماؤں نے بی جے پی رہنماؤں کو مشورہ دیا کہ جناح کے بارے میں وہ ایل کے اڈوانی سے سوال کریں۔ پچھلی دہائی میں جب بی جے پی کے رہنما اور انڈیا کے سابق ڈپٹی وزیر اعظم لال کرشن اڈوانی نے پاکستان کا دورہ کیا تھا تو جناح کے بارے میں ان کے ایک بیان پر کافی تنازعہ ہوا تھا۔

جناح کے بارے میں مزید پڑھیے

انڈین مسلمان قانون کا پاس رکھیں: جناح

انڈیا میں آج کل محمد علی جناح کا اتنا ذکر کیوں؟

علی گڑھ یونیورسٹی میں اب بھی جناح کی تصویر کیوں؟

جواہر لال نہرو اور محمد علی جناح کے درمیان فاصلے کیوں بڑھتے گئے؟

جناح کے حوالے سے ماضی میں ابھرنے والے تنازعات

حالیہ برسوں میں اتر پردیش میں جناح کا نام مسلسل سیاسی بحث کا موضوع رہا ہے۔ سال 2018 میں، اتر پردیش کے علی گڑھ سے ایم پی ستیش گوتم نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) میں لگی جناح کی تصویر پر سوال اٹھایا تھا۔

گوتم نے سوال کیا تھا’اے ایم یو میں ملک کو تقسیم کرنے والے شخص کی تصویر لگانے کی کیا وجہ ہے؟ تصویر لگانے کی کیا مجبوری ہے؟

کچھ عرصے تک اس بارے پورے ملک میں بحث چھڑی رہی تھی۔

یہ بھی حقیقت ہے کہ محمد علی جناح نے اپنے تقریباً تمام اثاثے اے ایم یو اور دو دیگر درسگاہوں (پشاور میں اسلامیہ کالج اور کراچی میں سندھ مدرسۃ الاسلام ) کے لیے چھوڑ دیے تھے۔

اُس وقت بی بی سی ہندی نے ایل کے اڈوانی کے قریبی ساتھی سدھیندرا کلکرنی سے بات چیت کی تھی جنھوں نے جناح پر بہت کام کیا ہے۔

کلکرنی نے بی بی سی کے ساتھ فیس بک لائیو میں کہا، اے ایم یو میں جناح کی تصویر 1938 میں لگائی گئی تھی۔ یہ سچ ہے کہ آزادی کی جدو جہد میں جناح ایک دن کے لیے بھی جیل نہیں گئے، لیکن اس طرح بی آر امبیڈکر بھی تھے۔ وہ بھی کبھی جیل نہیں گئے، لیکن کیا اس سے آزادی کی لڑائی میں ان کا کردار کم ہوجاتا ہے۔

سنہ 1908 میں جب لوک مانیہ بال گنگادھر تلک کو برما میں غداری کا الزام لگا کر چھ سال کالے پانی کی سزا سنائی گئی تو یہ محمد علی جناح ہی تھے جنہوں نے تلک کا مقدمہ لڑا۔ 1916 میں کانگریس اور مسلم لیگ کے درمیان ایک معاہدہ ہوا جس میں یہ طے پایا کہ ہندوستان کی آزادی کے لیے ہندو اور مسلمان مل کر لڑیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32294 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments