مشتاق احمد کی وائرل ویڈیو اور کرکٹرز کی زندگیوں کے نشیب و فراز: پاکستانی سٹارز جنھوں نے غربت کو شوق کی راہ میں رکاوٹ نہ بننے دیا

عبدالرشید شکور - بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کراچی


رزاق، مشتاق اور یوسف
پاکستانی کرکٹ ٹیم کے سابق لیگ سپنر مشتاق احمد کی ایک ویڈیو کچھ عرصہ قبل منظر عام پر آئی تھی جو اس حقیقت کو اجاگر کرتی تھی کہ غریب ہونا کوئی جرم نہیں۔ اس ویڈیو میں مشتاق احمد نے اپنی زندگی کے بارے میں کُھل کر اظہار خیال کیا تھا کہ وہ خود ایک غریب فیملی سے تعلق رکھتے تھے۔

ایسی فیملی جو صرف ایک کمرے کے مکان میں رہتی تھی۔ اُن کے والد ساہیوال کی غلہ منڈی میں مزدوری کیا کرتے تھے، وہ روزانہ سو روپے کما کر آتے تو گھر میں آٹھ بھائی بہن کھانے والے ہوتے تھے۔

مشتاق احمد کہتے ہیں کہ انھیں کرکٹ کا جنون کی حد تک شوق تھا لیکن غربت کی وجہ سے انھیں جوتوں کے بغیر کھیلنا پڑتا تھا جس سے ان کے پیر زخمی ہو جاتے تھے۔ انھیں وہ وقت بھی یاد ہے جب والد نے کسی طرح پیسے جمع کر کے بیٹ اور دوسری چیزیں لا کر دیں تاکہ وہ صحیح طرح کرکٹ کھیل سکیں۔

’کئی بار ایسا بھی ہوا کہ امی نے بہن بھائیوں کو کہا کہ تم لوگ کم کھانا تاکہ تمہارے والد بھی کھا سکیں جس پر والد کہا کرتے تھے کہ میں باہر سے کھانا کھا کر آیا ہوں۔ انھوں نے نہ جانے کتنی راتیں بغیر کھائے گزاریں تاکہ ان کی اولاد بھوکی نہ سوئے۔‘

مشتاق احمد کی یہ ویڈیو دراصل ان تکلیف دہ حالات کو اجاگر کرتی ہے جن سے ہمارے بیشتر کرکٹرز گزر کر آتے ہیں۔ یہ ویڈیو ان کرکٹرز کے بڑوں کی قربانیوں کو بھی ظاہر کرتی ہے جنھوں نے اپنی اولاد کے شوق کی تکمیل کے لیے نہ جانے کتنی تکالیف برداشت کیں۔

پاکستانی کرکٹ کی تاریخ میں ایسے کئی نام موجود ہیں جنھوں نے شہرت اور دولت راتوں رات حاصل نہیں کی بلکہ ایک خاص مقام تک پہنچنے کے لیے انھیں زندگی کے نشیب و فراز دیکھنے پڑے اور مشکل حالات سے گزرنا پڑا۔

https://twitter.com/warwounded__/status/1454481431921496073

ماضی کے کھلاڑیوں کے قصّے

پاکستانی کرکٹ ٹیم کے سابق آل راؤنڈر عبدالرزاق کی کہانی کم دلچسپ نہیں ہے۔ شاہدرہ میں رہنے والے فیکٹری کے کاریگر کے بیٹے نے جب اپنے گلی محلے میں کرکٹ شروع کی تو اس وقت سے ہی اس نے بڑا کرکٹر بننے کا خواب دیکھنا شروع کر دیا تھا۔

گھر والوں کی شدید مخالفت کے باوجود ایک دن انھوں نے قذافی سٹیڈیم کا رخ کیا جہاں انڈر 19 کےٹرائلز ہو رہے تھے۔ انھیں اس وقت تک یہ بھی معلوم نہ تھا کہ ب فارم اور برتھ سرٹیفیکٹ کیا ہوتا ہے چنانچہ ٹرائلز لینے والے اقبال قاسم اور ہارون رشید کے پاس یہی ایک راستہ تھا کہ وہ اس باصلاحیت نوجوان کو عمر جانچنے کے بون ٹیسٹ کے لیے شوکت خانم ہسپتال بھیج دیں۔

پاکستانی ٹیم کے سابق بیٹسمین محمد یوسف درزی کی دکان پر کام کرتے تھے لیکن ان کی اصل تراش ان کی سٹائلش بیٹنگ میں چھپی تھی جسے دنیا نے دیکھا اور اس کی معترف ہو گئی۔

موجودہ کرکٹرز میں بھی ہمیں ایسے متعدد نام نظر آتے ہیں جنھوں نے گاؤں دیہات اور دور افتادہ علاقوں سے اپنا سفر شروع کیا اور اب دنیا کے ان کے نام کے گُن گاتی ہے۔

شاداب خان

موجودہ ٹیم میں شامل لڑکوں کی کہانیاں

لیگ سپنر شاداب خان کا تعلق میانوالی کے علاقے کمر مشانی سے ہے۔ ان کے والد ملازمت کے سلسلے میں 35 سال سعودی عرب میں مقیم رہے۔ شاداب خان کی فیملی میانوالی سے راولپنڈی اس وجہ سے منتقل ہوئی کہ ان کے بڑے بھائی مہتاب خان پنڈی میں نہ صرف تعلیم حاصل کر سکیں بلکہ کرکٹ کا شوق بھی پورا کرسکیں۔

اس وقت تک شاداب خان کو کرکٹ میں کوئی دلچسپی نہ تھی بلکہ انھیں فٹبال پسند تھی جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ وہ واپڈا کی انڈر17 فٹبال ٹیم میں بھی منتخب ہو گئے تھے۔

شاداب خان اپنے بڑے بھائی کے ساتھ کرکٹ میچوں میں جایا کرتے تھے لیکن ان سے ضرورت پڑنے پر صرف فیلڈنگ کرائی جاتی تھی ۔ گراؤنڈ ناہموار ہونے کے باوجود شاداب خان حیران کن طور پر زبردست فیلڈنگ کرتے تھے۔

یہاں تک کہ ڈائیو مارتے ہوئے ان کے پیر زخمی ہو جاتے تھے لیکن فیلڈنگ میں یہی جوش و خروش اُن کی پہچان بن گیا اور اب وہ انٹرنیشنل کرکٹ میں ایک مستعد فیلڈر کے طور پر دیکھے جاتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

وسیم اکرم: کالج کی ٹیم کا بارہواں کھلاڑی پاکستانی ٹیم کا فاسٹ بولر کیسے بنا؟

جاوید برکی: جرنیل کا بیٹا پاکستانی کرکٹ ٹیم کا کپتان کیسے بنا؟

وہ اننگز جس نے گمنام ظہیر عباس کو ایشیئن بریڈمین بنا دیا

ماجد خان اور سست بیٹنگ کے دور کی تیز ترین سنچری

شاداب خان کا پاکستان سپر لیگ کے دوسرے ایڈیشن میں اسلام آباد یونائٹڈ میں شامل ہونے کا معاملہ بھی خاصا دلچسپ ہے۔ انھیں سپلیمنٹری کیٹگری میں لیا گیا تھا اور جب اسلام آباد یونائٹڈ کی انتظامیہ نے ان سے ان کی ِکٹ کی پیمائش کے لیے رابطہ کیا تو اس وقت بھی انھیں یقین نہیں آ رہا تھا کہ سپلیمنٹری کیٹگری میں شامل کرکٹرز بھی ٹیم کے ساتھ بیرون ملک سفر کر سکتے ہیں۔

شاداب خان کے ٹیلنٹ پر پہلی نظر ڈالنے والے وسیم اکرم بھی متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ جب انھوں نے دبئی کرکٹ اکیڈمی میں شاداب خان کو پریکٹس کرتے دیکھا تو ان کے الفاظ تھے ʹیہ کیا چیز آ گئی ہے۔ یہ لڑکا سب کچھ کر سکتا ہے۔ʹ

شاداب خان کی سادگی کا ایک اور واقعہ جو ان کے دوست سُناتے ہیں کہ چیمپئنز ٹرافی جیتنے کے بعد انھوں نے نئی کار لی اور پہلی مرتبہ اس میں بیٹھ کر پنڈی سے لاہور جانے کے لیے نکلے لیکن راستے میں گاڑی بند ہو گئی۔

بھائی کو فون کر کے شکایت کی کہ یہ کیسی نئی کار لی ہے جو چلتے چلتے بند ہو گئی ہے۔ پھر ایک دوست کو فون کیا لیکن کسی کی سمجھ میں نہ آیا کہ خرابی کیا ہے؟ آخر ان سے سوال ہوا کہ کیا پٹرول ڈلوایا تھا؟ پتہ چلا کہ اتنے لمبے سفر پر نکلنے سے پہلے شاداب خان نے یہ نہیں سوچا تھا کہ پٹرول ڈلوا لیا جائے۔

حسن علی

اسی نوعیت کے پس منظر سے پاکستانی ٹیم میں آنے والوں میں فاسٹ بولر حسن علی بھی ایک اہم نام ہے جن کا تعلق گوجرانوالہ کے قریبی گاؤں لدھے والا وڑائچ سے ہے۔

گلی محلوں میں کرکٹ کھیلی اور علاقائی سطح پر انڈر 16 مقابلوں میں حصہ لیا۔ اس کے بعد انھوں نے لاہور جا کر سید پیپرز کی ٹیم کی طرف سے گریڈ ٹو کرکٹ بھی کھیلی اور پھر یہ سفر انھیں فرسٹ کلاس کرکٹ سے ہوتے ہوئے پہلی پاکستان سپر لیگ تک لے آیا جب پشاور زلمی نے انھیں ایمرجنگ کیٹگری میں شامل کیا تھا۔

حسن علی کے کرکٹ کے شوق کو آگے بڑھانے میں ان کے بھائی عطا الرحمن کا اہم کردار رہا ہے۔

حسن علی نے بی بی سی اردو کو دیے گئے اپنے ایک انٹرویو میں بتایا تھا کہ وہ کبڈی بھی کھیلا کرتے تھے لیکن بڑے بھائی نے ان کے کرکٹ کے شوق کو ختم نہیں ہونے دیا اور آج وہ جس مقام پر ہیں اس میں ان کے بھائی کی محنت اور دلچسپی کی بہت زیادہ اہمیت ہے۔

حسن علی نے مختصر سے عرصے میں اپنی پہچان کرائی۔ وہ 2017 میں چیمپئنز ٹرافی کے بہترین کرکٹر قرار پائے تھے اسی وجہ سے وہ آئی سی سی کے بہترین ایمرجنگ پلیئر ایوارڈ کے بھی حقدار ٹھہرے تھے اور آئی سی سی کی عالمی ون ڈے رینکنگ میں بھی پہلے نمبر پر آ گئے تھے۔

حارث رؤف

پاکستان کے ایک اور فاسٹ بولر حارث رؤف کی کہانی بھی ان کے کھیل سے والہانہ شوق کا پتہ دیتی ہے۔ وہ راولپنڈی میں ایک دکان پر سیلز مین تھے اور ساتھ ہی ٹیپ بال سے کرکٹ کھیل کر اپنا شوق پورا کیا کرتے تھے۔

یہ شوق ایک دن انھیں راولپنڈی سے گوجرانوالہ لے گیا جہاں لاہور قلندرز کے رائزنگ سٹارز پروگرام کے تحت ہونے والے ٹرائلز میں کوچ عاقب جاوید نے ان کا انتخاب کیا اور یہ کہہ دیا کہ یہ بولر آنے والے دنوں کا سپر سٹار ہے۔ پھر انھیں ٹیلنٹ ڈیولپمنٹ پروگرام کے تحت آسٹریلیا بھیجا گیا جہاں ان پر بِگ بیش کے دروازے بھی کھل گئے۔

فاسٹ بولرز محمد عباس، محمد عرفان اور انور علی ہوں یا موجودہ ٹیم میں چھکے مارنے کے لیے شہرت رکھنے والے آصف علی، یہ تمام کرکٹرز گھر کے اخراجات پورے کرنے کے لیے فیکٹریوں میں ملازمت کرتے رہے ہیں۔

شاہنواز دھانی

فاسٹ بولر شاہنواز دھانی سندھ کے ایک گاؤں میں اپنے والد اور بھائی کا کھیتی باڑی میں ہاتھ بٹاتے تھے۔ انھوں نے اپنے والد کی خواہش کا احترام کرتے ہوئے بی کام ضرور کیا لیکن سرکاری افسر بننے کے بجائے کرکٹ کا انتخاب کیا۔ جب وہ لاڑکانہ ریجن کے انڈر 19 ٹرائلز کے لیے گئے تو ان کے پاس نہ جوتے تھے اور نہ ہی جرابیں۔ یہ سب کچھ ان کے دوست نے انھیں فراہم کیا۔

یہ بھی پڑھیے

سلیکٹر ایسا کیوں کرتے ہیں؟ کرکٹرز جن کا فیصلہ نہیں ہو سکا وہ فلاپ تھے یا زبردست

تین روزہ بارش جس نے دنیائے کرکٹ میں ون ڈے میچز کی بنیاد رکھی

کاؤنٹی کرکٹ میں ہزاروں رنز، سینکڑوں وکٹیں لینے والے پاکستانی

فاسٹ بولر محمد وسیم جونیئر کا تعلق شمالی وزیرستان سے ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ جب وہ وہاں کرکٹ کھیل رہے تھے اس وقت حالات اچھے نہیں تھے۔ انھیں اس بات کا بخوبی اندازہ تھا کہ شمالی وزیرستان میں رہ کر ان کے لیے بڑی کرکٹ کھیلنا ممکن نہیں لہذا انھوں نے پشاور کا رخ کیا اور اپنے دوستوں کے ساتھ کرائے کا مکان لے لیا۔ جب انھوں نے پشاور جانے کا ارادہ ظاہر کیا تھا تو والد نے سخت مخالفت کی لیکن اس مرحلے پر ان کے چچا نے والد کو قائل کرنے میں مدد کی۔

پاکستان کے لیفٹ آرم سپنر ظفر گوہر کا تعلق لاہور سے ہے۔ جب وہ بارہ سال کے تھے تب سے ہی وہ کرکٹ کے جنون میں مبتلا تھے جس کا ذکر سابق ٹیسٹ کرکٹر شفقت رانا اس طرح کرتے ہیں کہ یہ لڑکا روزانہ تین بسیں تبدیل کرکے باٹا پور کے علاقے سے ان کی کرکٹ اکیڈمی میں آیا کرتا تھا اور چاہے کتنی ہی شدید گرمی ہو وہ ہمیشہ وقت سے پہلے اکیڈمی میں پہنچ کر سب کو حیران کر دیتا تھا۔

شفقت رانا کا کہنا ہے کہ ظفر گوہر کے گھر کے مالی حالات اچھے نہیں تھے لہذا وہ اس کی صرف اس لیے مدد کیا کرتے تھے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ اپنے والد سے پیسے مانگے اور وہ مجبوری کی وجہ سے اسے نہ دے سکیں اور اس کا شوق رک جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32295 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments