کیا پڑھا لکھا ہونا آپ کی بھی کمزوری ہے؟


کالج سے چھٹی کے بعد جب عائشہ کلینک روڈ سے گزر ہوا تو دیکھا کہ کچھ لوگ بھیڑ جمائے ہوئے تھے۔ جس میں ایک نوجوان لگ بھگ تیس بتیس سال کا ایک داڑھی والے آدمی سے جس کی عمر پچاس سال سے تو زیادہ ہی ہوگی، ہاتھا پائی کر رہا ہے اور بار بار اس کا گریبان پکڑنے کی کوشش کر رہا تھا۔ مگر لوگ اس کو دوسری طرف دھکیل کر معاملے کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ بڑا تجسس ہوا کہ یار کیسے ایک نوجوان جو کہ حلیے سے کافی اچھا بھلا دکھتا تھا، باپ کے عمر کے آدمی سے کیوں الجھ رہا تھا۔ بائیک سائیڈ پر لگائی اور بھیڑ میں گھس گیا۔

معاملے ذرا ٹھنڈا ہوا تو معلوم ہوا کہ نوجوان گریجویٹ ہے اور فل وقت کسی پرائیویٹ محکمے میں ملازم ہے۔ جب اس سے پوچھا گیا کہ ایسی کیا بات ہے کہ تم نے ایک بزرگ جیسے انسان پر ہاتھ اٹھایا۔ جیسے ہی یہ سوال کیا تو وہ نوجوان بینچ پر بیٹھ کر رونے لگا اور ساتھ ہی اپنی روداد سنانا شروع کی کہ پچھلے ڈیڑھ سال سے میں اس انسان کا لحاظ کر رہا ہوں۔ میں نے دن رات ایک کر کے 3 لاکھ روپے جمع کیے تھے۔ پلاٹ خریدنے کے لیے یہ رقم میں نے اس کو دی اور 8 لاکھ قسطوں میں ادا کرنے کا وعدہ ہوا تھا۔

مگر آج ڈیڑھ سال ہو چکا ہے نہ پلاٹ ملا اور نہ 3 لاکھ روپے واپس ملے۔ پچھلے ایک سال سے کبھی آج تو کبھی کل پیسے دینے کے وعدے کرتا رہا۔ اور اب کہتا کہ تمہارے پاس کیا ثبوت ہے کہ تم نے یہ پیسے مجھے دیے۔ میں اپنی مری ہوئی ماں کی قسم کھاتا ہوں کہ اس انسان کو میں نے 3 لاکھ روپے دیے ہیں۔ اب آپ خود ہی بتائیے کہ اب میں کیا کروں۔ میرا چھوٹا بھائی ابھی سیکنڈ ائر میں ہے اور بہن بی اے کر رہی ہے۔ ان کے اخراجات نکال کر میں کس طرح پیسے جمع کیے تھے اور یہ سارے پیسے کھا پی گیا۔

میں پڑھا لکھا تھا تو اس لیے آج تک اس سے اونچی آواز میں بات نہیں کر پایا۔ اس آدمی نے سمجھا کہ بس یہ مدھم سا بولنے والا انسان کیسے میرے سامنے بول پائے گا۔ میرا پڑھا لکھا ہونا ہی میری سب سے بڑی کمزوری بن گئی۔ اگر پہلے دن ہی اس کو دھتکارا ہوتا تو آج یہ سب کچھ نہ ہوتا۔ لوگ کا دھیان ذرا اس طرف تھا تو وہ بزرگ نما انسان پتا بھی نہیں چلا کہ کب کک لگائی اور جائے وقوعہ سے فرار ہو گیا۔ لوگوں میں سے ایک آدمی اس انسان کو جانتا تھا۔ اس نے بھی اس بات کی تصدیق کی کہ میرے ایک جاننے والے کے اس نے 30 ہزار کھائے ہیں۔

اس لیے اب بھی وقت ہے کہ آنکھیں کھولیے اور عزت اس انسان کی کیجیے جو اس کا اصل حقدار ہے۔ بڑے عمر کے لوگ بے شک جھوٹ پر جھوٹ بولیں، دھوکے پر دھوکہ کریں۔ مگر ہم عمر کا لحاظ کر کے خود کا نقصان کروا بیٹھتے ہیں۔ عمر کے لحاظ والا چیپٹر اب اس دنیا میں فٹ نہیں ہونے والا بابو۔ عزت اس انسان کی کیجیے جو بات کا پکا ہو، کھرا ہو، دیانتدار ہو اور آپ کی عزت کریں، پھر چاہے وہ نو سال کا لڑکا ہی کیوں نہ ہو۔

اور دوسری بات یہ ہے کہ اگر آپ پڑھے لکھے ہیں تو جہاں بولنا بنتا ہے بھئی وہاں بولیے۔ اگر آپ نے بھی آج چپ سادھ لی تو اس طرح کے لوگ معاشرے کو کھا جائیں گے۔ اگر کسی نے آپ کے ساتھ ناحق کیا ہے تو اپنے حق کے لیے لڑیے اور لڑیے بھی ایسا کہ پتا چلے کہ کوئی اپنے حق کے لیے لڑا ہے۔

پڑھا لکھا ہونے کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ آپ کو غلط بات پر غصہ نہیں آتا۔ آپ انسان ہیں اور انسان جذبات سے مل کر بنتا ہے۔ وہ خوشی کے موقع پر خوش ہوتا ہے اور جب کوئی اس سے ناحق بات کرتا ہے تو اسے غصہ آتا ہے۔ بقول طارق عزیز صاحب کہ ”اگر آپ کو غلط بات پر غصہ نہیں آتا تو آپ بے غیرت انسان ہیں“ ۔

مگر غصہ اس نوعیت کا نہیں ہونا چاہیے کہ اگلے کا سر ہی پھوڑ ڈالیں۔ غصہ بس زبانی کلامی والا ہونا چاہیے اور اگر کوئی ایسی بات ہے کہ جہاں غصہ کرنا مناسب نہیں تو وہاں غصہ پی جائیے۔ مگر کچھ حالات میں غصہ لازم ملزوم ہوتا ہے۔ پڑھا لکھا ہونا انسان کا ہتھیار ہوتا ہے مگر جاہل لوگوں نے جان بوجھ کر لوگوں کے ذہنوں میں یہ بات ڈال دی ہے کہ پڑھا لکھا انسان بولتا نہیں۔

کیوں کہ انھیں پتا ہے کہ اگر پڑھا لکھا انسان بولنے شروع کرے گا تو ان کا دھندا بند ہو جائے گا، ان کے جھوٹ معاشرے کو پتا چل جائیں گے، ان کا پردہ فاش ہو جائے گا۔

اس لیے اگر آج نہیں بولو گے تو کل بھگتو گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments