خلا کے اس پار


منو سب سے کمزور مخلوق، جوں ہی وہ دو پیروں پر کھڑا ہوا اس کی دنیا ہی بدل گئی۔ کھڑے ہو کر وہ دور تک دیکھنے کے قابل ہو گیا۔ جس سے وہ دشمنوں پر نظر رکھنے کے ساتھ ان کے متوقع حملے سے پہلے بچنے کی تدابیر بھی کرنے لگا۔ کھڑے ہو کر وہ آسمان کی طرف دیکھنے لگا۔ اس کا دن مہم جوئی میں گزرتا جبکہ رات کو وہ آسمان میں کھو جاتا۔ رات کا اندھیرا اسے ڈراتا مگر چاند، تارے اور ٹوٹتے تاروں کی پراسراریت دیکھ کر اسے حیرانی سی ہوتی۔ اس کے دن اور راتیں خوف اور حیرانی میں گزرنے لگے۔

صبح کو نیند سے جاگنے پر ہر شے واضح ہوتی تو منو سورج اور آسمان کی طرف منہ کر کے تشکرانہ انداز میں ہاتھ جوڑ دیتا۔ رات کو چاند چمکتا اور ہر شے جھلملاتی تو وہ فاتحانہ انداز میں مسکرا دیتا۔ پھر چاند چھپ جاتا اور پندرہ راتوں کو ہر شے اندھیرے کی چادر اوڑھ لیتی تو وہ خوفزدہ ہونے لگتا۔ خوف کی وجہ سے وہ چاند کی پرستش کرنے لگا۔ بارشیں، سیلاب اور طوفان۔ وہ ہر آفت کو آسمان سے جوڑ بیٹھا۔ یوں منو کی آسمان کی طرف توجہ بڑھتی گئی اور اس نے ہر ڈر اور خوف کو اسی سے جوڑ دیا۔ منو کی دیکھا دیکھی ہر منش آسمان کی طرف ہی دیکھتا ہے۔ چاہے خوشی، غمی، دکھ، پریشانی ہو یا پھر سکھ۔ وجہ چاہے کوئی بھی ہو منو کے اندر ڈر نے یقین کی جگہ حاصل کرلی اور اسے آسمان کی طرف دیکھ کر ایک تسلی سے ملنے لگی۔

وقت گزرنے کے ساتھ منو سورج، چاند، تاروں، ہوا، آگ کے ساتھ ہر اس شے کی پرستش کرنے لگا جو اسے نقصان یا فائدہ پہچانے لگی۔

منو سے آج سر راہ ملاقات ہو گئی۔ میں کہیں جانے کی جلدی میں تھا۔ مگر وہ بظاہر پرسکون دکھائی دیا۔ اس نے مجھے روک لیا اور گفتگو کرنے لگا۔

میں نے کہا ”یار منوں میں جلدی میں ہوں، کہیں جانا ہے۔ ہم پھر کبھی گپ شپ کریں گے۔“
میری بات کو سنا ان سنا کرتے ہوئے منو نے میرا ہاتھ پکڑ لیا۔
” ارے چھوڑو۔ آج بہت دن بعد ملاقات ہوئی ہے تو کچھ دیر رکو پھر چلے جانا۔“
میں منو کے اسرار پر رک گیا۔ وہ مجھے قریبی شوالہ میں لے گیا۔ جہاں وہ روزانہ جاتا تھا۔

” تم شوالہ میں کیوں نہیں آتے۔ کبھی یہاں تم کو دیکھا نہیں۔ روز آیا کرو من کو سکون ملے گا۔ آتما سکھی رہے گی، کشٹ دور ہوجائیں گے اور سکھ پاؤ گے۔“ منو نے مشورہ دیا

میں چپ چاپ اس کی باتیں سنتا رہا۔ وہ بولتا رہا۔
”تم کیوں نہیں آتے؟“ منو نے اپنی بات دوہرائی
” بس یوں ہی نہیں آتا۔“ میں نے کہا

” کوئی تو وجہ ہوگی نا۔ یہ دیکھو کتنے لوگ روزانہ، صبح شام یہاں آتے ہیں۔ ان میں خواتین ہیں، بزرگ، جوان اور بچے ہیں۔ مگر تم نہیں آتے۔ کوئی تو بات ہوگی نا؟“ منو نے اپنی بات پھر دوہرائی۔

”یہاں آ کر بیزار ہوجاتا ہوں۔ دم گھٹتا ہے میرا۔ اس لئے نہیں آتا۔“ میں ایک سانس میں بول گیا۔
اس کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں، اسے میرے اس جواب کی توقع نہیں تھی۔
وہ کہنے لگا
” یہاں ہم سکھ اور شانتی کے لئے آتے ہیں۔ تاکہ کشٹ دور اور سکھ پاس رہیں۔ ہمیشہ!“

”یہاں صبح شام اتنے سارے لوگ آتے ہیں کیا ان سب کو سکھ اور شانتی میسر ہے۔ کیا وہ بیماری اور پریشانیوں سے مکت ہیں۔ ؟“ میں نے کہا

” ہماری پریشانیوں کی ایک ہی وجہ ہے کہ ہم دھرم کے راستے سے بھٹک گئے ہیں۔ ؟“ منو نے کہا
” ایسا نہیں ہے۔ یہ جو اتنے سارے لوگ یہاں ہیں۔ کیا ان سب کو سکھ مل چکا ہے!“ میں نے کہا

اس نے میری سوال کا جواب دینے کے بجائے کہا ”کچھ بھی ہو اوپر ایشور ہے جو سب کچھ دیکھ رہا ہے۔ تم کو اس بات پر یقین ہونا چاہیے۔“

”تم نے میری بات کا جواب نہیں دیا۔ کیا یہ سب سکھی ہیں۔ ان میں سے کسی کو بھی کوئی پریشانی یا دکھ نہیں ہے۔ اچھا یہ بتاؤ وہ جو کچھ دن پہلے یاتریوں کی ایک بس کو حادثہ ہوا تھا۔ جس میں شیرخوار بچے اور ستر سال کے بزرگ سمیت تمام لوگ مارے گئے۔ وہ تو اچھے لوگ تھے نا۔ نیک کام کے لئے جا رہے تھے۔ پھر ان کے ساتھ ایسا کیوں ہوا!“

میری بات سن کر وہ چپ ہو گیا۔ اس کے پاس اس بات کا کوئی جواب نہیں تھا۔
وہ پوجا میں مصروف ہو گیا اور میں باہر آ کر اپنی منزل کی طرف چل پڑا۔

اس بات کو کچھ دن گزر گئے میں ایک شام ٹی وی دیکھ رہا تھا جس پر دنیا کی پہلی روسی خلانوورد ویلنٹینا تیریشکووا کا انٹرویو چل رہا تھا۔ وہ کہہ رہیں تھیں کہ ”جب وہ پہلی بار خلا کا سفر کرنے کے بعد واپس زمین پر اتریں تو وہاں اسے عمر رسیدہ عورتوں نے گھیر لیا۔ ایک خاتون پوچھنے لگی۔ اوہ میری بیٹی۔ کیا تم نے خلا میں ایشور کو دیکھا۔ کیونکہ تم تو اتنی بلندی پر تھیں۔ جس پر میں نے کہا کہ۔ نہیں۔ میں خلا میں نہیں دیکھ پائی۔“


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments