کپتان، معیشت اور ورلڈ کپ کی ہار
سب اچھا چل رہا تھا۔ پاکستانی کرکٹ ٹیم غیر متوقع طور پر اچھا کھیل رہی تھی۔ ہمیشہ ورلڈ کپ کا میچ بھارت سے ہارنے کی نحوست بھی اس نے ختم کر دی تھی اور اسے بہت عبرتناک شکست دی تھی۔ کوئی بھی میچ ہارے بغیر وہ سیدھی سیمی فائنل میں پہنچ گئی تھی۔ پھر سیمی فائنل شروع ہونے سے دو گھنٹے پہلے کپتان نے اعلان کر دیا کہ وہ فائنل دیکھیں گے۔
اہل نظر اسی وقت سمجھ گئے تھے کہ کپتان نے ورلڈ کپ کا نوٹس لے لیا ہے تو اب ہماری ٹیم کے ہارنے کا وقت آ گیا ہے۔ پھر آغاز ٹاس ہارنے سے ہوا۔ اہل نظر کا یقین پختہ ہوا۔
خیر پاکستانی بیٹنگ نے کچھ آسرا دیا اور قوم کو میچ سے جوڑے رکھا۔ لیکن آخری اووروں میں جس طرح حارث رؤف اور اس کے بعد حسن علی کی پٹائی ہوئی اسے دیکھ کر کپتان کی شخصیت کے خواص پر یقین مزید پختہ ہونا شروع ہوا کہ اس نے نوٹس لیا ہے تو اسے ایزی نہیں لینا۔ پھر اس سے اگلے اوور میں جس طرح ٹورنامنٹ کے بہترین باؤلر شاہین آفریدی کی تیسری بال پر حسن علی کے ہاتھوں سے میتھیو ویڈ کا کیچ ڈراپ ہوا، اس کا سبب بعض افراد نے تو اوس کو قرار دیا لیکن جاننے والے جانتے تھے کہ یہ کس ہستی کا اعجاز ہے۔ اور پھر شاہین آفریدی جیسے خطرناک باؤلر کو تین بالوں پر مسلسل تین چھکے مار کر ویڈ نے پاکستان کو باہر کیا، اس کے بعد تو کسی شک شبے کی گنجائش ہی باقی نہیں رہی۔
یہ سب ہوتا ہم پہلے دیکھتے آئے ہیں۔ کچھ لوگ ہوتے ہی بہت سبز قدم ہیں۔ جس میدان میں اتریں ادھر انہیں تو ہرا ہرا دکھائی دیتا ہے لیکن باقی افراد گھبرا جاتے ہیں۔ اچھی بھلی معیشت چل رہی تھی، ساڑھے پانچ فیصد سے اوپر بڑھنے کی رفتار تھی، پھر کپتان آیا، اس نے نوٹس لیا اور معیشت کی نیا ڈوب گئی۔ روزمرہ کی مہنگائی میں بھی یہی معاملہ دیکھنے میں آتا ہے۔
کپتان بجلی، چینی، آٹے، جس چیز کے بارے میں بھی کہتا ہے کہ اس کی بڑھتی قیمت کا نوٹس لے لیا ہے تو اس شے کی قیمت کو پر لگ جاتے ہیں۔ پچاس ساٹھ روپے کلو کی چینی ایسے ہی تو ایک سو پچاس کی نہیں ہوئی۔
بس کچھ لوگ ہوتے ہی ایسے ہیں کہ وہ اس دنیا کے بندے نہیں ہوتے۔ ان کا کام روحانی دنیا میں ہوتا ہے انسانی دنیا میں نہیں۔ وہ اپنی غیر معمولی روحانی قوتوں کے سبب نیک روحوں اور جنات پر تو راج کر سکتے ہیں مگر اس فانی دنیا کے جس کام میں بھی ہاتھ ڈالتے ہیں، اس کا بیڑا غرق کر دیتے ہیں۔ کوئی وجہ تو ہے کہ اللہ سے لو لگانے والے درویش، سالک، مجذوب اور ملنگ اس دنیا سے دور بھاگتے ہیں اور اسے دنیا دار لوگوں پر چھوڑ دیتے ہیں۔ وہ انتخاب کرتے ہیں کہ اس دنیا کا عیش و آرام انہیں مل جائے یا پھر وہ روحانیت میں اعلیٰ مقام پائیں۔
بظاہر کپتان کو بھی قدرت اشارے کر رہی ہے کہ اس دنیا کا پیچھا چھوڑ دو اور اپنے اصل مقام کی طرف پلٹو۔ ملنگ ہو جاؤ۔ دھمال ڈالو حال کھیلو۔ اس دنیا کی حیثیت مکھی کے پر جتنی بھی نہیں ہے۔ اور ہم نے دیکھا بھی کہ پاکستانی روپے کو بھی کپتان نے ہاتھ لگایا تو یہی ہوا اور ڈالر، پٹرول اور قرضے سب ایسے بڑھے کہ روپے کی قیمت مکھی کے پر جتنی ہی دکھائی دینے لگی۔
یا پھر ممکن ہے کہ بابر اعظم اور ان کے ساتھیوں نے سوچا ہو کہ قوم کے ساتھ ایک مرتبہ جو ہو چکی ہے، وہی برداشت کرنا اس کے لیے مشکل ہے، دوبارہ ویسا نہیں کرنا چاہیے۔ وہ قوم کی خاطر ہار گئے۔ ختم شد۔
- ولایتی بچے بڑے ہو کر کیا بننے کا خواب دیکھتے ہیں؟ - 26/03/2024
- ہم نے غلط ہیرو تراش رکھے ہیں - 25/03/2024
- قصہ ووٹ ڈالنے اور پولیس کے ہاتھوں ایک ووٹر کی پٹائی کا - 08/02/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).