ہم کیا کریں گے ڈاکٹر ابرار احمد!


”تمہاری کتاب کے اوراق اڑ رہے ہیں / میری نظموں کے آنسو خشک ہو چکے ہیں۔“ اور وہ شام گزر چکی ہے۔ ایوان کرامازوف پوچھتا ہے، ہم کیا کریں گے ڈاکٹر ابرار؟ نظموں کے کرداروں کے سب خواب بیچ سے شکست ہو چکے۔ ”ٹوٹی ہوئی نیند میں چلتے ہوئے ہم کدھر جائیں گے ”۔ شاعر کی“ روئی ہوئی آنکھ سے دنیا بہت صاف دکھائی دیتی ”تھی، اب اسے رتھ میں جتا کون دیکھ سکے گا؟ غم آگیں تاثیر اور غنائیت سے بھری نظموں کے سارے لفظ“ دل ہی دل میں ہاتھ ہلانے ”لگتے ہیں۔ وہی نظمیں جن میں وہ تین زمانوں اور تین پہروں کی دو تکونوں کی تکرار بناتا اور اپنی شہری اور قصباتی زندگیوں اور قصبے سے شہر میں ہجرت کی کہانی سموتا، آواز لگاتا پھرتا تھا،

”ہے کوئی؟ زندہ ہے کوئی؟
جاگا ہے کوئی؟ سنتا ہے کوئی؟ ”

پھر لفظوں کی پذیرائی کرتا مسیحائی کرنے لگتا۔ وقت کی بے رحمی سے بے خبر بہار کے مہینے میں مجھے کہتا رہا، دیکھو اپنی ماں کی وفات کو کسی طرح ریشنلائز کر لو ورنہ بہت مشکل ہو جائے گی اور خزاں کے آخری دنوں میں دنیا کی رنگا رنگی سے خالی پن کشید کرتا اور موہوم کی مہک کو نظموں میں قید کرتا شاعر ”دیواروں تک ٹھہری نظروں کے آشوب سے باہر“ نکل گیا۔ یہ نہیں بتایا کہ اس کے جانے کو کیسے ریشنلائز کرنا ہے۔ ہمارے پاس تو بس ’آخری دن سے پہلے‘ اور ’موہوم کی مہک‘ میں درج، وجود کے گرد پھیلی بے ثباتی اور نارسائی کے کہانیاں بچی ہیں۔

”قبروں پر دیے بجھ گئے ہیں
اور
درختوں میں ستارے ٹوٹ رہے ہیں
بوسیدہ کواڑوں پر
خاموشی دستک دیتی ہے
اداسی اور محبت سے بوجھل ہوا
سیٹیاں بجاتی
زمانوں سے گذر رہی ہے
کیلنڈر سے سال دنوں کی طرح اتر رہے ہیں
آنگنوں میں چارپائیاں اوندھی پڑی ہیں
اور چولھوں میں راکھ سرد ہو چکی ہے ”
(داستان)
”نشستوں پر گرے پتے بتاتے ہیں“ کہ اب وہ کسی کے گھر نہیں جائے گا اور پوچھے گا،
”رات بھر کون تھا ساتھ میرے
وہ تم تو نہیں تھے
وہ تم تو نہ تھے
پھر کسے میں بتاتا رہا
رات بھر
اس جگہ شہر تھا۔ ”

اب اس کے ساتھ محمد خالد اور سب دھند میں کھو جانے والے ”ماچس بجاتے، گیت گاتے دل زدہ ساتھی“ ہیں اور ان کے جلو میں ابرار احمد سوچتا ہے کہ کیا یہی وہ دن تھا جس کے بارے میں میں نے کہا تھا کہ ”سارے دن۔ میرے اندر غروب ہو جائیں گے“ ۔ اور سوچتا ہے ”یہ کالک کیوں نہیں جاتی؟“ ۔ اور سنتا ہے اپنے بارے اٹھتے سوالوں اور چہ مگوئیوں کو۔ کف افسوس ملتا ہے اور پھر سوچتا ہے کہ اس نے جب سلویا پلاتھ سے ملنے کی خواہش کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ ”کاش تم جیتے چلے جانے پر خود کو آمادہ کر سکتیں /اور ہم۔ کم از کم ایک مرتبہ/ اس آسمان کے نیچے /ایک دوسرے کو دیکھ سکتے“ تو ایک شاعر نے دوسرے شاعر کی شاعری میں ڈوبے ہوئے اس کے بارے یہ نہیں سوچا تھا کہ سلویا کون تھی، اس نے کیسی زندگی چنی تھی اور کیسی موت کو گلے لگایا تھا۔

کچھ پتا نہیں چلتا
ابرار احمد
آبائی شہر کو جاتی گاڑی کو دیکھتا ہوں
اس میں سوار نہیں ہوتا
اور نہ ہی ہاتھ ہلاتا ہوں
دنیا۔
عجیب و غریب لوگوں اور چیزوں سے بھری پڑی ہے
میں بھی بچتا بچاتا ان میں سے گزرتا ہوں
بغیر کسی یاد کے
بغیر کسی خواب کے
ایک دھند ہے
جو دماغ پر جم گئی ہے
ایک رفتار ہے،
جو کچھ دیکھنے نہیں دیتی
خالی جگہیں پر نہیں ہوتیں
لیکن بادل دوڑے چلے جاتے ہیں
پتھروں اور دیواروں کے درمیان
ہم۔ سایوں کی طرح
بھٹکتے پھرتے ہیں
دن ہے یا رات
جیت ہے یا ہار
سفر ہے یا قیام
کچھ پتا نہیں چلتا
بس یوں ہے
کہ جب میرے پاؤں کو ٹھوکر لگتی ہے
یا میرا ماتھا اچانک۔ کسی دیوار سے ٹکراتا ہے
مجھے لگتا ہے
جیسے کوئی کہتا ہو
”بیٹے۔ میرے بیٹے!“


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments