افغانستان میں مبینہ جنگی جرائم: سینیئر برطانوی فوجی افسران نے غیرمسلح افغان باشندوں کو قتل کرنے کے شواہد چھپائے

ہنا او،گریڈی - بی بی سی پینوراما


افغانستان میں برطانوی فوجی
PA Media
برطانوی ہائی کورٹ میں وزارت دفاع کی جانب سے پیش کردہ دستاویزات میں انکشاف ہوا ہے کہ برطانوی سپیشل فورسز کے افسران کو اس بات کا خدشہ تھا کہ ان کے فوجیوں نے چند ایسے غیر مسلح افغان باشندوں کو قتل کیا ہے جن سے انھیں کوئی خطرہ نہیں تھا۔

ان دستاویزات سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ یہ الزامات خفیہ رکھے گئے اور رائل ملٹری پولیس کو رپورٹ نہیں کیے گئے۔ برطانوی وزارت دفاع کا مؤقف ہے کہ یہ شواہد نئے نہیں ہیں اور ان پر پہلے ہی تفتیش ہو چکی ہے۔

یہ عدالتی کیس سنہ 2019 میں بی بی سی پینوراما اور سنڈے ٹائمز کی تحقیق کے بعد شروع ہوا جس میں افغانستان کی جنگ میں شامل برطانوی سپیشل فورسز کے خلاف جنگی جرائم کے الزامات منظر عام پر لائے گئے تھے۔ برطانوی عدالت اس سوال پر غور کر رہی ہے کہ آیا ان الزامات پر مسلح افواج نے تسلی بخش تفتیش کی یا نہیں۔

اس کیس کے مدعی افغان شہری سیف اللہ کا الزام ہے کہ ان کے خاندان کے چار افراد کو 16 فروری 2011 کو مبینہ طور پر قتل کیا گیا تھا۔ عدالت نے سیف اللہ کے وکلا کی جانب سے عدالتی نظر ثانی سے قبل اس کیس سے متلعق مزید دستاویزات جاری کرنے کی درخواست پر برطانوی سیکریٹری دفاع کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ ان الزامات سے متعلق مزید دستاویزات پیش کریں۔

اس کیس کے دوران عدالت میں اب تک سامنے آنے والی دستاویزات کے مطابق سات فروری 2011 کو ایک ریڈ کے دوران نو افغان شہریوں کے قتل کی تفصیلات سامنے آ چکی ہیں جب کہ اس کے دو دن بعد آٹھ افغان شہریوں کو برطانوی سپیشل فورسز کی جانب سے مبینہ طور پر قتل کیے جانے کے واقعے کا بھی تذکرہ موجود ہے۔

واضح رہے کہ ان دستاویزات کے مطابق بارہ سے زیادہ قیدیوں کو اس وقت قتل کیا گیا جب انھیں تلاشی کے لیے لے جایا جا رہا تھا۔ برطانوی فوجیوں کا کہنا ہے کہ ان قیدیوں نے ہتھیار چھیننے کی کوشش کی جس کے بعد وہ یہ انتہائی اقدام اٹھانے پر مجبور ہوئے۔

دستاویزات کے مطابق ایک برطانوی لیفٹیننٹ کرنل نے واقعے کے سرکاری موقف پر غیر یقینی کا اظہار کیا تھا۔ اس افسر کا کہنا تھا کہ یہ بات ناقابل یقین لگتی ہے کہ ان قیدیوں کو ایک بلڈنگ میں تلاشی کے لیے واپس بھیجا گیا جہاں انھوں نے ہتھیار چھیننے کی کوشش کی۔ ایک اور افسر نے جواب دیا کہ مجھے یہ بات افسردہ کرتی ہے کہ نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے، یہ قیادت کی بڑی ناکامی ہے۔

اس واقعے کے تقریباً ایک ہفتے بعد سیف اللہ کے خاندان کے چار افراد کو ایسے ہی حالات میں اسی سپیشل فورسز کی ٹیم نے مبینہ طور پر قتل کیا۔ دستاویزات کے مطابق اس واقعے کو ایک سینیئر افسر نے ’حیران کُن‘ قرار دیا۔ ایک اور سینیئر افسر نے فوجیوں کی جانب سے واقعے کی بیان کردہ تفصیلات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ سرکاری موقف میں تہہ در تہہ موجود ناقابل تصور تفصیلات اسے سمجھ سے بالاتر اور حیران کن بنا دیتی ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

کیا برطانوی سپیشل فورسز نے معصوم افغان بچے قتل کیے؟

برطانوی حکومت اور فوج پر ’جنگی جرائم چھپانے‘ کا الزام

افغان فوجیوں میں سے زیادہ تر کا وجود صرف کاغذوں میں ہی تھا: سابق وزیرِ خزانہ خالد پائندہ

عدالت میں ایک برطانوی افسر کی جانب سے اپنے کمانڈنگ افسر کو لکھا گیا تحریری بیان بھی سامنے آیا جس کے مطابق سپیشل فورسز کے ایک رکن نے اسے بتایا کہ ایسے تمام مردوں کو قتل کر دیا جاتا ہے جن کی عمر سے لگتا ہے کہ وہ شدت پسندوں کی جانب سے لڑ سکتے ہیں، چاہے ان سے کسی قسم کا خطرہ محسوس ہو یا نہ ہو۔

اسی بیان میں افسر نے یہ بھی لکھا کہ اس بات کی نشان دہی بھی کی گئی کہ مختلف طریقوں سے کمپاونڈز میں بند افغان قیدیوں کو مارا جا رہا تھا۔ ایک کیس میں سامنے آیا کہ ایک شخص کو پستول سے گولی مارنے سے پہلے اس کے منھ پر تکیہ رکھ دیا گیا۔ عدالت میں سامنے آنے والی دستاویزات میں یہ بھی سامنے آیا کہ ان الزامات کو برطانوی سپیشل فورسز کے ہیڈ کوارٹر میں ایک بہت سینیئر افسر کے علم میں بھی لایا گیا۔ عدالت کو بتایا گیا کہ افغانستان میں جنگی جرائم سے متعلق تمام رپورٹس کو ایک ٹاپ سیکرٹ کمپارٹمنٹ میں لاک کر دیا گیا۔

نائٹ ٹائم آپریشن

تفصیلات کے مطابق سپیشل فورسز کی قیادت نے رائل ملٹری پولیس کو ان الزامات سے لاعلم رکھا اور اندرونی طور پر تفتیش کا حکم دیا جس میں گذشتہ چھ ماہ میں پیش آنے والے ایسے گیارہ واقعات کی تحقیق کی گئی جہاں سپیشل فورسز کے ہاتھوں ملتے جلتے حالات میں لوگ مارے گئے تھے۔

ان تمام واقعات میں قیدیوں کو بلڈنگز کے اندر تلاشی کے مقصد سے لے جایا گیا تھا۔ اس تفتیش کی حتمی رپورٹ اسی سپیشل فورسز یونٹ کے کمانڈنگ افسر نے لکھی اور انھوں نے فوجیوں کے موقف کو درست قرار دیا۔

سنہ 2014 میں برطانوی فوج کی رائل ملٹری پولیس نے ان واقعات کی تفتیش کا آغاز کیا تھا۔ آپریشن ’نارتھ مور‘ کہلانے والی اس تفتیش کو سنہ 2019 میں بند کر دیا گیا۔ اس وقت وزارت دفاع نے کہا تھا کہ رائل ملٹری پولیس کو فوجیوں کی جانب سے کسی قسم کے جنگی جرائم کا ثبوت نہیں ملا۔ لیکن عدالتی کیس کے دوران سامنے آنے والی دستاویزات میں اس تفتیش میں موجود نقائص کی نشان دہی کی گئی ہے۔

آپریشن نارتھ مور کے خلاصے کے مطابق اس میں گیارہ میں سے صرف تین واقعات کی تفتیش کی گئی اور دو سینیئر افسران جن کے خلاف الزامات سامنے آئے تھے ان کا انٹرویو کیے بغیر انھیں کلیئر کر دیا گیا۔ یہ انکشاف بھی سامنے آیا کہ تفتیش کے دوران اس بات کا فیصلہ کیا گیا کہ سپیشل فورسز کے ریڈ کی کیمرہ فوٹیج کا جائزہ نہیں لیا جائے گا۔

برطانوی وزارت دفاع کے مطابق سیف اللہ کے خاندان کے چار افراد فوجیوں کی جانب سے اپنا دفاع کرتے ہوئے مارے گئے۔ ماضی میں دیے گئے بیان کے مطابق وزارت دفاع کا کہنا ہے کہ تمام دستاویزات کا جائزہ تفتیش کے دوران لیا جا چکا ہے جس کے بعد ان الزامات کے حق میں ناکافی مواد پایا گیا۔

اگر ان الزامات سے متعلق کسی قسم کے نئے شواہد یا معلومات سامنے آئیں تو ان کا جائزہ لیا جا سکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32296 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments