صحافیوں کو ہراساں کرنے سے متعلق رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع: مقدمات میں نامزد 32 افراد گرفتار لیکن ابصار عالم، اسد طور پر حملے کے مقدمات کی تفتیش میں کوئی پیشرفت نہیں

شہزاد ملک - بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد


صحافی
پاکستان کے وفاقی دارالحکومت کی پولیس کے سربراہ نے صحافیوں کو ہراساں کرنے سے متعلق اسلام آباد کے محتلف تھانوں میں درج کیے گئے مقدمات کی تفتیش میں ہونے والی پیشرفت کے بارے میں سپریم کورٹ میں ایک رپورٹ جمع کروا دی ہے۔

اس رپورٹ کے مطابق صحافیوں کو ہراساں کرنے اور ان پر حملہ کرنے کے الزام میں متعدد افراد کو گرفتار کر کے جیل بھیج دیا گیا ہے لیکن پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی کے سابق چیئرمین ابصار عالم اور بلاگر اسد طور پر حملہ کرنے والے ملزمان کو ابھی تک گرفتار نہیں کیا جا سکا۔

اسلام آباد پولیس کے سربراہ کی جانب سے سپریم کورٹ میں جمع کروائی گئی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ گذشتہ ایک سال کے دوران اسلام آباد کے مختلف تھانوں میں 16 مقدمات درج کیے گئے جبکہ ان مقدمات میں جن افراد کو نامزد کیا گیا ان میں سے 32 افراد کو گرفتار کر کے ان کے خلاف تحقیقات مکمل کر کے چالان متعلقہ عدالتوں میں پہنچا دیے ہیں۔

اسلام آباد کے مختلف تھانوں میں یہ مقدمات 13 ستمبر سنہ 2020 سے 12 ستمبر سنہ 2021 کے درمیان درج ہوئے تھے۔

اسلام آباد پولیس کے سربراہ نے یہ رپورٹ عدالت عظمیٰ کی طرف سے صحافیوں کو ہراساں کرنے سے متعلق لیے گئے از خود نوٹس پر جمع کروائی۔

واضح رہے کہ سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسی نے لاہور میں ایف آئی اے کی جانب سے صحافی عامر میر اور عمران شفقت کو ہراساں کرنے کے واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے ملک میں صحافیوں کو ہراساں کرنے سے متعلق از خود نوٹس لیا تھا تاہم اس وقت کے قائم مقام چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی بجائے جسٹس اعجاز الااحسن کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا دو رکنی بینچ تشکیل دے دیا تھا۔

سپریم کورٹ کے قائم مقام چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی جانب سے جب اس از خود نوٹس کی سماعت کے لیے نیا بینچ تشکیل دیا گیا تو سپریم کورٹ کی کوریج کرنے والے صحافیوں کی نمائندہ تنظیم کے سابق صدر قیوم صدیقی نے عدالت میں بیان دیا کہ وہ اس حوالے سے اپنی درخواست واپس لے رہے ہیں تاہم اس تنظیم کے موجودہ صدر نے بیان دیا کہ وہ اس ازخود نوٹس کی پیروی جاری رکھیں گے۔

پولیس کی جانب سے جمع کروائی گئی اس رپورٹ کے مطابق 16 میں سے 12 مقدمات کے چالان متعقلہ عدالتوں میں بھجوا دیے گئے ہیں۔ ان 16 مقدمات میں سے آٹھ مقدمات سٹی سرکل، چھ مقدمات رورول سرکل جبکہ دو مقدمات صدر سرکل کے مختلف تھانوں میں درج کیے گئے ہیں۔

’ابصار عالم اور اسد طور پر حملہ کرنے والے ملزمان کو ابھی تک گرفتار نہیں کیا جا سکا‘

اس رپورٹ کے مطابق معروف صحافی اور پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی کے سابق چیئرمین ابصار عالم اور بلاگر اسد طور پر حملہ کرنے والے ملزمان کو ابھی تک گرفتار نہیں کیا جا سکا جبکہ وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید احمد نے دعویٰ کیا تھا کہ ان واقعات میں ملوث افراد کو چند ہفتوں میں گرفتار کیا جائے گا لیکن مہینوں گزرنے کے باوجود ابھی تک ان مقدمات کی تفتیش میں کوئی پیشرفت نہیں ہوئی۔

اسلام آباد پولیس کے سربراہ کی طرف سے سپریم کورٹ میں جمع کروائی گئی رپورٹ میں ابصار عالم اور اسد طور پر حملوں سے متعلق درج کیے گئے مقدمات کی تفتیش میں نیشنل ڈیٹا بیس رجسٹریشن اتھارٹی یعنی نادرا کی رپورٹ کا بھی ذکر ہے۔

نادرا کی اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ابصار عالم اور اسد طور پر جہاں پر حملہ کیا گیا وہاں سے سی سی ٹی وی فوٹیج حاصل کی گئی تھیں لیکن ان کی کوالٹی بہتر نہیں تھی جس کی وجہ سے ان حملوں میں ملوث افراد کی شناخت نہیں ہو سکی۔

یہ بھی پڑھیے

‘اغوا کاروں نے جب جھاڑیوں میں پھینکا تو کلمہ پڑھنا شروع کر دیا تھا’

کچھ صحافی لڑکیوں کو کیوں تنگ کرتے ہیں؟

’جو ماضی میں پسندیدہ صحافی تھے آج ناپسندیدہ کیوں ہو گئے‘

یہ دونوں مقدمات ابھی تک زیر تفتیش ہیں اور ایس پی صدر سرکل کی سربراہی میں ایک خصوصی تحقیقاتی ٹیم بنائی گئی ہے تاہم اس مقدمے کی تفتیش میں کوئی پیشرفت نہیں ہوئی۔

پولیس نے ابصار عالم پر حملہ کرنے کے مقدمے میں 22 افراد کے بیانات قلمبند کیے ہیں جبکہ اسد طور پر حملے کے مقدمے میں 30 عینی شاہدین کے بیانات قلمبند کیے گئے۔

واضح رہے کہ اس سے قبل صحافی مطیع اللہ جان کو جب اغوا کیا گیا تھا تو اس وقت بھی جب سپریم کورٹ نے اسلام آباد پولیس کے سربراہ سے اس واقعے میں ملوث ملزمان کے بارے میں جو رپورٹ مانگی تھی اس پر بھی پولیس حکام کی طرف سے یہ بتایا گیا تھا کہ جس گاڑی میں مذکورہ صحافی کو اغوا کر کے لے جایا گیا تھا اس کا ریکارڈ سیف سٹی کیمروں میں نہیں آیا جس کی وجہ سے نہ ہی گاڑی اور نہ ہی ملزموں کا کوئی سراغ مل سکا ہے۔

مطیع اللہ

رپورٹ میں دیگر کیسز

اس رپورٹ میں صحافی اور اینکر پرسن مہر بخاری کو ہراساں کرنے والے مقدمے کا بھی ذکر ہے جس میں کہا گیا ہے کہ مذکورہ صحافی اس سال دو جولائی کو اپنے اہلخانہ کے ہمراہ مری جا رہی تھیں کہ بارہ کہو کے قریب ایک گاڑی نے ان کی گاڑی کو اورٹیک کیا اور اس کے بعد گاڑی مہر بخاری کی گاڑی کے آگے کھڑی کردی اور ڈرائیور نے باہر نکل کا مذکورہ اینکرپرسن کو نہ صرف گالیاں دیں بلکہ ان کو سنگین تنائج کی دھمکیاں بھی دیں۔

اس رپورٹ میں صرف ایک ایسے مقدمے کا ذکر ہے جس میں نجی ٹی وی چینل اےآر وائی کے کمیرہ مین کو ہراساں کرنے کے الزام میں جن افراد کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا تھا انھوں نے متعلقہ عدالت سے نہ صرف ضمانت قبل از گرفتاری کروائی بلکہ عدالت نے ان کی ضمانتوں کو بھی کنفرم کردیا۔

اس مقدمے سے متعلق رپورٹ میں کہا گیا کہ مذکورہ صحافی نے اس ضمن میں شامل تفتیش ہی نہیں ہوئے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32547 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments