عمران خان اپوزیشن سے مصالحت کیوں نہیں کر سکتا


پی ٹی آئی کی حکومت کے بر سر اقتدار آنے کے آغاز سے بعض سیاسی تجزیہ نگار اور کالم۔ نگار مختلف موقعوں پر یہ رائے یا مشورہ دیتے چلے آ رہے رہے ہیں کہ پی ٹی آئی حکومت کے استحکام اور کامیابی اور ملکی ترقی کے لیے یہ ضروری ہے کہ عمران خان اپوزیشن رہنماؤں کے خلاف معاندانہ رویہ ترک کر کے مصالحانہ پالیسی اپنائے۔ اس بات سے قطع نظر کہ ان کے اس رائے یا سوچ کا بنیادی محرک یا مقصد اپوزیشن سیاست دانوں کے لیے بوجوہ کسی سہولت یا رعایت کا حصول ہے یا یہ واقعی ان کی مخلصانہ رائے ہے کہ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان تناؤ کا خاتمہ ملک کے جمہوری اور معاشی ترقی کے لیے ضروری ہے تاہم اس بات سے متوازن اور سنجیدہ سوچ رکھنے والے حلقے اصولاً اس سے شاید اختلاف نہ کر سکیں کہ ملک کی معاشی ترقی اور خارجی معاملات میں موثر پالیسی کے لیے ملک میں سیاسی استحکام کا ہونا ضروری ہے۔

اگر کسی حکمران جماعت کی پالیسیاں چاہے کتنی بھی بہترین کیوں نہ ہوں مگر ملک کے اندر سیاسی تناؤ کی وجہ سے ان پر موثر عمل درآمد نہیں کرایا جا سکتا ہے۔ سیاسی بے یقینی کی فضا میں سرمایہ کار اور صنعت کار تردد کا شکار رہتے ہیں۔ تجارتی سرگرمیوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کسی بڑے ترقیاتی منصوبوں کے احسن طریقے سے تکمیل نہیں ہو پاتی ہے۔ اہم اصلاحات کے لیے قانون سازی تعطل کی نذر ہو جاتی ہے۔ جس کا ملک کے معیشت اور نتیجتاً عوام پر منفی اثر پڑتا ہے۔ اسی طرح اندرونی سیاسی تناؤ حد سے بڑھ جائے تو اس سے ملک کی خارجی پالیسی کے معاملات بھی بری طرح متاثر ہوتے ہیں۔

اسی بنا سیاسی استحکام کے لیے یہ ضروری سمجھا جاتا ہے کہ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان عناد اور تناؤ ایک حد سے نہ بڑھے۔

اس حوالے سے پہلی ذمہ داری تو حکومت کی بنتی ہے کہ وہ ملکی مشکلات اور مخصوص حالات کے باعث اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ تناؤ کم کرنے کی سوچ اور رویہ اپنائے۔ حکومت کے اس قسم کے طرز عمل کو بہت سارے سنجیدہ محب وطن حلقے یقیناً سراہیں گے۔ سوال مگر یہ ہے کہ کیا عمران خان کی زیر قیادت حکومت ایسا کر سکے گی؟

اس کا امکان کچھ زیادہ نہیں۔ کیونکہ اس کے لیے عمران خان کو اپوزیشن کے بعض رہنماؤں کے حوالے سے اپنے احتساب کے بیانیے پر سمجھوتا کرنا پڑے گا اور وہ اس کا متحمل نہیں ہو سکتا ہے۔ اس کے کارکنوں اور ووٹرز میں خاصی بڑی اور موثر تعداد اس کے پرجوش حامی اس کے ”کڑے احتساب“ اور ”کسی صورت نہیں چھوڑوں گا” کے نعرے اور وعدے سے مسحور ہیں۔

اپنے دعوے کے مطابق وہ کڑا احتساب کرنے میں کتنا کامیاب ہوا ہے یا یو سکتا ہے ایک علیحدہ بحث ہے تاہم وہ جانتا ہے کہ اپنے اس دعوے اور نعرے سے یو ٹرن لینے سے وہ اپنے پرجوش حامیوں اور جذباتی کارکنوں کے یہاں اپنا اعتبار اور ساکھ کھو دے گا جو اس کے لیے ایک مہنگا سودا ہو گا۔ اس لیے عمران خان کا اپوزیشن رہنماؤں کے خلاف عناد اور احتساب کے بیانیہ کو ترک کر کے ان سے مصالحت کرنے کا امکان کم ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments