برطانوی حکومت کے خلاف جہاد ناجائز اور پاکستان کی حکومت کے خلاف فرض


قیام پاکستان کو ستر برس سے زیادہ گزر گئے۔ پاکستان کی اکثر حکومتیں علماء کی طرف سے جاری کردہ انواع و اقسام کے فتووں کی زد میں رہی ہیں۔ یہ سلسلہ قائد اعظم سے شروع ہوا اور انہیں کافر اعظم کے نام سے نوازا گیا۔ لیاقت علی خان صاحب کی اہلیہ محترمہ پر جن الفاظ میں کیچڑ اچھالا گیا انہیں نہ ہی بیان کیا جائے تو بہتر ہو گا۔ خواجہ ناظم الدین صاحب کو احمدی قرار دے کے کر ان کے خلاف ان کے خلاف شورش برپا کی گئی۔ بھٹو صاحب کو پہلے سوشلسٹ ہونے کی وجہ سے فتووں کا نشانہ بنایا گیا اور پھر لاہور ہائی کورٹ نے انہیں نام کا مسلمان قرار دے دیا۔ بے نظیر بھٹو صاحبہ کی وزارت عظمیٰ کے خلاف یہ فتویٰ دیا گیا کہ عورت اسلامی حکومت میں یہ عہدہ نہیں سنبھال سکتی۔ نواز شریف صاحب کے خلاف تو جذبات اتنے بھڑک اٹھے کہ جامعہ نعیمیہ میں ان پر جوتا پھینکا گیا۔

یہ الزام بھی بار بار لگایا جاتا ہے کہ یہ حکومت تو مغربی طاقتوں کی پروردہ ہے۔ ان کو دینی احکامات کا علم نہیں، یہ ہماری قیادت کس طرح کر سکتے ہیں؟ یہ راہ راست سے ہٹ گئے ہیں اور مغربی طاقتوں کے آلہ کار بن گئے ہیں، اب ان کے خلاف بغاوت کو فرض سمجھو۔ سلیم شہزاد صاحب نے اپنی کتاب Inside Alqaeda and Taliban beyond bin Laden کے ایک باب تکفیر اینڈ خروج میں یہ تفصیلات بیان کی ہیں کہ کس طرح پہلے حکمرانوں کو مرتد اور فاسق قرار دیا جاتا ہے اور پھر ان کے خلاف بغاوت شروع کرائی جاتی ہے۔ یہ بات بھی سننے میں آتی ہے کہ فلاں سیاستدان کے باپ دادا کو تو انگریزوں نے نوازا تھا، اب اس انگریز کے پٹھو کو ہم کس طرح اپنا لیڈر تسلیم کر لیں۔

اس پس منظر میں مناسب ہو گا اگر ہم یہ تجزیہ کریں کہ جب انگریز ہندوستان پر حکمران تھا، اس وقت مختلف مسالک کے علماء نے انگریزوں کی حکومت کے خلاف کیا فتوے صادر کیے تھے۔ کیا یہ فتاویٰ دیے گئے تھے کہ اس کافر حکومت کے خلاف جہاد کرو یا حقیقت اس کے برعکس تھی۔ یہ تجزیہ 1857 کی جنگ کے اختتام سے پہلی جنگ عظیم تک کے محدود ہو گا کیونکہ اس کے بعد تحریک خلافت کے ساتھ ایک مختلف دور کا آغاز ہوتا ہے۔ اور ہم اس سلسلہ میں صرف نمایاں ترین علماء اور اداروں کے فتاویٰ کا ذکر کریں گے۔

جب 1857 کی جنگ اختتام پذیر ہوئی تو برطانوی حکومت اس بات کو سمجھتی تھی کہ مسلمانوں میں علماء کی فتووں کی ایک خاص اہمیت ہے۔ اور وہ ان فتاویٰ پر گہری نظر رکھتے تھے۔ چنانچہ 1871 میں ہندوستان کے ایک برطانوی افسر ڈبلیو ڈبلیو ہنٹر نے ایک کتاب دی انڈین مسلمانز تحریر کی۔ اس کتاب میں انہوں نے اس بات پر کافی اظہار تشویش کیا ہے کہ بنگال سے سرحد پر مسلمانوں کے جہادی کیمپوں کو کچھ نہ کچھ مالی مدد پہنچتی ہے۔ لیکن اسی کتاب میں انہوں نے اس بات پر بہت خوشی کا اظہار کیا ہے کہ مختلف مسالک کے اکثر علماء نے اس بات کے حق میں فتویٰ دے دیا ہے کہ ہندوستان کی برطانوی حکومت کے خلاف جہاد بالکل جائز نہیں ہے۔

چنانچہ انہوں نے اس کتاب کے ضمیمہ میں مکہ مکرمہ کے حنفی، شافی اور مالکی مفتیان کے فتاویٰ درج کیے ہیں جن میں برطانوی حکومت کے تحت ہندوستان کو دارالاسلام قرار دیا گیا تھا۔ اسی طرح اس کتاب میں لکھنو، دہلی اور رامپور کے علماء اور کلکتہ محمڈن سوسائٹی کے فتاویٰ درج ہیں جن میں بیان کیا گیا تھا کہ ہندوستان کی برطانوی حکومت کے خلاف جہاد ہر گز جائز نہیں ہے۔ وہ اسی کتاب کے صفحہ 121 پر سنی علماء کے بہت سے فتاویٰ درج کرنے کے بعد ایک مولوی صاحب کا شکریہ بھی ادا کرتے ہیں کہ انہوں نے جہاد کے خلاف فتویٰ دیا۔ اور صفحہ 114 پر اس بات پر انگریزوں کو مبارکباد بھی دیتے ہیں کہ اکثر علماء نے ہمارے حق میں فتویٰ دے دیا ہے۔ اور یہ ذکر کرتے ہیں کہ شیعہ احباب کے نزدیک تو اس دور میں جہاد جائز ہی نہیں ہے۔

یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ فقہ کی رو سے جس ملک کو دارالاسلام قرار دیا جاتا تھا، اس کی حکومت کے خلاف تو جہاد سراسر ناجائز ہوتا تھا۔ اور جس کو دارالحرب قرار دیا جاتا تھا، اس کے خلاف جہاد کرنا ضروری نہیں ہوتا بلکہ بعض علماء کے نزدیک اس میں بعض احکامات پر عمل ضروری نہیں رہتا تھا مثال کے طور پر بعض علماء سود لینا ناجائز قرار دے دیتے تھے۔

دارالعلوم دیوبند ہندوستان کے مسلمانوں کا ایک اہم ادارہ تھا۔ اس کے مفتی رشید احمد گنگوہی صاحب سے جب یہ سوال کیا گیا کہ کیا ہندوستان دارالحرب یا دارالاسلام تو انہوں نے یہ فتویٰ دیا

” ہند کے دارالحرب ہونے میں اختلاف علماء کا ہے بظاہر تحقیق حال بندہ کی خوب نہیں ہوئی حسب اپنی تحقیق کے سب نے فرمایا ہے اور اصل مسئلہ میں کسی کو خلاف نہیں اور بندہ کو بھی خوب تحقیق نہیں کہ کیا کیفیت ہند کی ہے۔ فقط“

(فتاویٰ رشیدیہ کامل مبوب، رشید احمد گنگوہی، ناشر محمد سعید اینڈ سنز کراچی ص 430 )

گویا ہندوستان پر انگریزوں کے قبضہ کو ایک طویل عرصہ گزر چکا تھا اور اب تک دیوبند کے علماء کی تحقیق ہی مکمل نہیں ہوئی تھی۔ لیکن بحیثیت ادارہ دارالعلوم دیوبند کی یہی پالیسی تھی کہ برطانوی حکومت کے خلاف کوئی محاذ آرائی نہیں کرنی۔ جب پہلی جنگ عظیم کے دوران مدرسہ کے سربراہ مولوی محمد احمد صاحب نے یہ محسوس کیا کہ مدرسہ کے بعض اساتذہ اب وفادار شہری نہیں رہے تو انہوں نے اس بارے میں یو پی کے گورنر کو مخبری بھی کی تھی کہ ان لوگوں کی فلاں فلاں جگہ پر ملاقاتیں ہوئی ہیں۔

خود دیوبند کی انتظامیہ نے حکومت کو اپنے استاد محمود الحسن صاحب کی شکایت کی کہ ان کے ترکوں سے تعلقات ہیں اور اس شکایت کی بنا پر محمود الحسن صاحب کو گرفتار بھی کیا گیا۔ مولوی محمد احمد صاحب نے حکومت کو یہ مشورہ بھی دیا کہ عبیداللہ سندھی صاحب کو جو ریشمی رومال کی تحریک میں شامل تھے دہلی سے نکال دیا جائے۔ اس پر برطانوی حکومت نے دارالعلوم دیوبند کے سربراہ محمد احمد صاحب کو شمس العلماء کا خطاب دیا تھا۔ اور شکریہ کے ایڈریس میں علماء دیوبند نے اعتراف کیا تھا کہ انہیں برطانوی حکومت کی طرف سے خصوصی مراعات مل رہی ہیں۔

(The Indian Muslims compiled by Shan Muhammad Vol 5 p46-52)

جہاں تک اہلحدیث علماء کا تعلق ہے تو ان کا بھی یہی فتویٰ تھا کہ برطانوی حکومت کے خلاف کسی قسم کا جہاد جائز نہیں ہے۔ اس سلسلہ میں اہلحدیث کے مشہور عالم مولوی محمد حسین بٹالوی صاحب نے ایک رسالہ ”الاقتصاد فی الجہاد“ لکھا تھا اور اسے اپنے رسالہ اشاعۃ السنہ میں بھی شائع کروایا تھا۔ اس میں انہوں نے مذہبی دلائل درج کیے تھے کہ انگریزوں کے تحت ہندوستان عین دارالاسلام ہے اور ان کے خلاف جنگ جہاد نہیں بلکہ فتنہ و فساد ہو گی۔ [اشاعۃ السنہ جلد 9 نمبر 9 ص 257 تا 299 ]

بلکہ انہوں نے یہ تجویز دی تھی برطانوی حکومت کا یہ پولیٹیکل فرض ہے کہ وہ بہت سے علماء سے جہاد کے خلاف رسائل لکھوا کر انہیں مختلف ممالک میں تقسیم کروائے اور اعتراف کیا تھا کہ بہت سے علماء ویسے ہی حکومت کے ملازم اور پنشنر ہیں۔ [اشاعۃ السنہ جلد 7 نمبر 12 ص 357 ]۔ بلکہ جب ملکہ وکٹوریہ کی جوبلی منائی گئی تو مولوی محمد حسین بٹالوی صاحب نے ایک طویل مضمون لکھ کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ اس جوبلی کو منانے کے بارے میں شرعی شہادت پائی جاتی ہے۔ اور برٹش سلطنت سے عقیدت اور اطاعت ایک مذہبی فریضہ ہے۔ [اشاعۃ السنہ جلد جلد 9 نمبر 8 ص 229 ] حیرت ہے کہ ملکہ وکٹوریہ کی اطاعت مذہبی فریضہ تھی اور بے نظیر بھٹو صاحبہ کی وزارت عظمیٰ ناجائز قرار دے دی گئی۔

اسی قسم کے فتوے بریلوی علماء نے بھی جاری کیے تھے۔ اس کی تفصیل خاکسار ایک گزشتہ کالم میں بیان کر چکا ہے۔

ان سطور کا مقصد ان علماء پر تنقید کرنا نہیں ہے۔ ان علماء نے یہ خیال کیا کہ اس دور میں مسلمانوں کا مفاد اسی میں ہے کہ وہ برطانوی سلطنت سے بغاوت یا اختلاف کرنے کی بجائے اپنی حالت بہتر بنائیں۔ تو انہیں اس کا حق تھا کہ وہ اپنے نظریات کا اظہار کریں۔ نہ صرف سر سید احمد خان بلکہ آل انڈیا مسلم لیگ کی بھی یہی پالیسی تھی۔ لیکن یہ بات قابل توجہ ہے کہ اگر برطانوی حکومت کی اطاعت کا سبق پڑھایا جا سکتا ہے اور ان کے حق میں فتوے جاری کیے جا سکتے ہیں تو کیا وجہ ہے کہ ہر کچھ عرصہ بعد انہی مسالک کے بعض علماء پاکستان کی حکومت کے خلاف شورش برپا کر دیتے ہیں۔ اور ان کے خلاف خطرناک فتاویٰ جاری کرتے ہیں اور مذہبی شدت پسندوں کا ایک طبقہ اس بنیاد پر حکومت کے خلاف بغاوت کو جہاد قرار دے کر لوگوں کو بغاوت پر اکسانا شروع کر دیتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments