فارغین مدارس کے لیے میڈیا میں امکانات


یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ میڈیا کا خود اپنا کوئی نظریہ نہیں ہوتا بلکہ اس کو چلانے والے اس کے ذریعے سے اپنے خیالات کی ترسیل کرتے ہیں۔ اگر دین کا علم رکھنے والے افراد ذرائع ابلاغ کو مصرف میں لا سکیں تو یقینا اسے ہدایت کا سرچشمہ بنایا جا سکتا ہے اور اگر دین کا ناقص علم رکھنے والے یا دین سے ناواقف لوگوں کے ہاتھوں میں میڈیا کی طاقت دے دی جائے گی تو پھر یقینا وہی کچھ ہو گا جو آج آپ دیکھ رہے ہیں۔ یونیورسٹیوں کے طلبہ کے پاس اچھی دینی معلومات تو ہو سکتی ہے لیکن نظریاتی حدود کا خیال اور معاشرتی تبدیلیوں کی دینی لحاظ سے درست سمت کا تعین وہی لوگ کر سکتے ہیں، جو دین کا علم اور شعور رکھنے کے ساتھ معاشرتی زندگی کی نزاکتوں پر بصیرت کی نظر رکھتے ہوں۔

مدارس کے باشعور فارغین سے معاشرہ اسی طرح کی امیدیں لگائے ہوئے ہے، جو اصل دینی مصادر سے مستفید اور احادیث کے علوم سے واقف ہوتے ہیں، جس کی روشنی میں وہ ذہنوں کی درست سمت میں رہنمائی کر سکتے ہیں۔ میڈیا کو گفتگو میں پیشہ ورانہ مہارت رکھنے والوں کی ضرورت ہے۔ یہ واقعی المیہ ہے کہ اس وقت، جو دینی پروگرام پیش کیے جا رہے ہیں، ان کو پیش کرنے میں ٹھوس دینی علم رکھنے والوں کی کمی جھلکتی ہے اور اس کے برعکس نیم خواندہ لوگوں کی جماعت کام کر رہی ہے۔

اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ مستند دینی حلقے اچھے اینکر اور ٹی وی پر اچھی گفتگو کرنے والے معاملہ فہم افراد فراہم کرنے میں ناکام رہے ہیں، جس کے سبب سے یہ میدان لائق افراد سے خالی رہ گیا ہے اور ناموزوں افراد دینی پروگراموں کو اپنی لیاقت کے مطابق پیش کر رہے ہیں۔ ٹیلی ویژن چینلوں جیسی صورتحال ویب سائٹس، ایف ایم ریڈیوز وغیرہ میں بھی دیکھی جا سکتی ہے۔

میڈیا کی باریکیاں یا اس میں امکانات کی تلاش سے پہلے یہ جان لینا ضروری ہے کہ یہ پیشہ عزت و شہرت اور ضرورت کے علاوہ انتہائی محنت، تگ و دو ، عزم اور سب سے بڑھ کر بے انتہا صبر چاہتا ہے۔ اس پیشہ میں قدم قدم پر پھول بھی ہیں اور کانٹے بھی۔ اس میں ذرا سی لغزش ہماری جان کو خطرے میں ڈال سکتی ہے یا بے اعتمادی کی خلیج پیدا کر سکتی ہے اور کوشش و عزم سے سرخ روئی اور قبول عام بھی مل سکتا ہے، جس کا مشاہدہ ہم روزانہ ہی اسی میڈیا کے ذریعے کرتے رہتے ہیں۔

اس میں وہی ٹک سکتا ہے، جو ان چیلنجوں سے نبردآزما ہونے کی اہلیت رکھتا ہو۔ یہاں کوئی تھیوری کام نہیں کرتی، کوئی پریکٹیکل نہیں چلتا، بس آپ اس میں دیرپا کارکردگی کا مظاہرہ اسی وقت کر سکتے ہیں جب آپ ان چیلنجوں سے لڑنے کا مادہ رکھتے ہوں۔ پل پل ایک نئے چیلنج سے سابقہ پڑتا ہے، آپ کی ایک غلطی آپ کے ادارے پر سوالیہ نشان لگا سکتی ہے۔ بڑی ہی احتیاط اور جلدی میں ہر کام نمٹانا ہوتا ہے کہ ہر گزرتے وقت کے ساتھ خبریں بدلتی رہتی ہیں اور آپ کے سامنے ہوتا ہے ایک نیا موضوع۔ دلچسپ اور معلومات سے پر ، پل پل ہونے والے واقعات سے دنیا بھر کے لوگوں کو آگاہ کرنے کی ذمے داری ہوتی ہے آپ پر ، اس لئے اس وادی میں قدم رکھنے سے پہلے سوچ، سمجھ اور ایک نظریہ کا ہونا ضروری ہے کہ اس کے بغیر نہ تو کامیابی مل سکتی ہے اور نہ ہی کوئی مقام حاصل کیا جاسکتا ہے۔

جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ اہل مدارس نے ہر جائز فن کو اپنی توجہ بخشی اور اس میں لازوال کارنامے انجام دیے اور دے رہے ہیں تو وہ اس فن میں بھی اپنی صلاحیتوں کا شان دار مظاہرہ کر سکتے ہیں بس ذرا توجہ اور جد و جہد کی ضرورت ہے۔ جب ہم نے اس میدان میں قدم رکھنے کا تہیہ کر لیا تو ہمیں اپنے لیے اپنی صلاحیتوں کے مطابق شعبہ کا انتخاب کرنا ہو گا، اس لئے کہ میڈیا کا میدان کافی وسیع ہے، جس کو کئی حصوں میں تقسیم جا سکتا ہے۔ مثلاً:

( 1 ) پرنٹ میڈیا
( 2 ) الیکٹرانک میڈیا
( 3 ) سائبر میڈیا یا جدید میڈیا

پرنٹ میڈیا میں اخبار و رسائل اور جرائد وغیرہ کو شامل کیا جا سکتا ہے۔ الیکٹرانک میڈیا ریڈیو اور ٹی وی پر مشتمل ہے جبکہ سائبر میڈیا میں انٹرنیٹ، ویب سائٹس اور بلاگز وغیرہ شامل ہیں۔ آئے دن نت نئی ایجادات و اختراعات سے اس میں بھی تبدیلی آ رہی ہے اور اس کے علاوہ بھی نئے نئے ذرائع پیدا ہو رہے ہیں اور ان سب میں تھوڑی محنت اور تگ و دو سے مدارس کے طلبہ اپنی جگہ بنا سکتے ہیں۔

سب سے پہلے ہم یہاں پرنٹ میڈیا پر گفتگو کرتے ہیں۔ اسے دوسرے لفظوں میں صحافت یا جرنلزم بھی کہا جا تا ہے۔ اس میدان میں، جو بھی آتا ہے وہ اپنی تعلیم، تجربہ اور معلومات کے مطابق میدان منتخب کرتا ہے، مثلاً کسی کو اسلامیات سے متعلق دلچسپی ہے تو وہ اس سے متعلق موضوعات پر مستند مواد اور دل کش طرز تحریر پیش کر سکتا ہے، کسی کو ادب سے دلچسپی ہے تو وہ ادب کے شعبہ کو توجہ کا مرکز بنا سکتا ہے اور اس میں اپنی صلاحیتوں اور قابلیتوں کا لوہا منوا سکتا ہے۔ اسی طرح کچھ صحافی بین الاقوامی سیاست پر لکھتے ہیں، کچھ ملکی سیاست پر جو کہ ظاہر ہے ان کی تعلیم، رجحان اور تجربہ کے مطابق ہی ہوتا ہے، اس لیے دینی مدارس سے فارغ التحصیل طلبا بھی اپنے رجحان، تجربہ اور تعلیم کے مطابق ہی میدان منتخب کریں۔ مثلاً:

1۔ مذہبی رجحان کے حامل روزنامے، ماہنامے وغیرہ
2۔ روایتی اخبارات میں مذہبی کالم اور دینی مسائل
3۔ بچوں کے ادب میں مواقع بالخصوص مذہبی اور تاریخی واقعات کو آسان پیرائے میں بیان کرنا
4۔ خواتین کے جرائد میں اسوہ حسنہ کی روشنی میں مضامین
5۔ تاجر حضرات کی تجارت کے اسلامی اصول کی جانب رہنمائی اور کاروبار کی جائز صورتوں کی نشان دہی
6۔ حلال و حرام کی تحقیق اور اس سے متعلق تحقیقی جرائد
7۔ عربی صحافت کا ترجمہ
8۔ اسلامی معاشرے کی رپورٹنگ اور مقامات کا صحیح تلفظ

دوسرے نمبر پر الیکٹرانک میڈیا کو لیتے ہیں۔ الیکٹرانک میڈیا کا فروغ ہوا تو یہ تصور کیا جانے لگا کہ اب پرنٹ میڈیا کی حیثیت باقی نہیں رہے گی، لیکن آج بھی دنیا پرنٹ میڈیا کی اہمیت سے منکر اور اس کی ضرورت سے دست بردار نہیں ہو سکی ہے۔ جہاں تک الیکٹرانک میڈیا میں مدارس کے طلبہ کے کام کرنے کی بات ہے تو وہ اس میدان میں بھی نمایاں خدمات انجام دے سکتے ہیں، جیسا کہ میں نے اوپر عرض کیا میڈیا کے ہر اقسام میں مدارس کے طلبہ اپنی حیثیت منوا سکتے ہیں، خصوصی طور پر آج کل ریڈیو کے علاوہ بہت سے مذہبی ٹی وی چینل بھی شروع ہو چکے ہیں، جن میں مدارس کے فارغ التحصیل طلبہ اچھی خدمات انجام دے سکتے ہیں۔ مثلاً:

1۔ اسکرپٹنگ
2۔ روزمرہ کے مسائل اور ان کا اسلامی حل
3۔ فقہی مسائل کی افہام و تفہیم
4۔ تفسیر قرآن
5۔ تفہیم و تشریح حدیث
6۔ عام کمرشل چینل بھی ناظرین کے لیے سوال و جواب کے پروگرام منعقد کرتے رہتے ہیں۔
7۔ مکالمہ نویسی /ڈرامہ نگاری وغیرہ

میڈیا کی ایک نئی شکل ویب میڈیا بھی ہے، جس کی کئی شاخیں ہیں۔ اسے سائبر میڈیا یا نیو میڈیا کے نام سے بھی جانا جاتا ہے اور آج کی دنیا میں اسے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا سے بھی زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔ اسی طرح نیو میڈیا سے ہی وابستہ دو اہم تصورات اور بھی ہیں، پہلا سٹیزن جرنلزم اور دوسرا بلاگنگ۔ یہ انٹرنیٹ کا ایک ایسا معاشرتی و سماجی روپ ہے، جہاں سوشل نیٹ ورکنگ، انٹرنیٹ وڈیو، ویب سائٹس اور بلاگز، جیسے دیگر مواصلاتی ذرائع کے وسیلے سے انٹرنیٹ صارفین کے درمیان معلومات، خیالات، تجربات اور دیگر موضوعات پر تبادلہ اور معلوماتی اشتراک کو فروغ دیا جاتا ہے۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں

محمد علم اللہ جامعہ ملیہ، دہلی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4

محمد علم اللہ جامعہ ملیہ، دہلی

محمد علم اللہ نوجوان قلم کار اور صحافی ہیں۔ ان کا تعلق رانچی جھارکھنڈ بھارت سے ہے۔ انہوں نے جامعہ ملیہ اسلامیہ سے تاریخ اور ثقافت میں گریجویشن اور ماس کمیونیکیشن میں پوسٹ گریجویشن کیا ہے۔ فی الحال وہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے ’ڈاکٹر کے آر نارائنن سینٹر فار دلت اینڈ مائنارٹیز اسٹڈیز‘ میں پی ایچ ڈی اسکالر ہیں۔ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا دونوں کا تجربہ رکھتے ہیں۔ انھوں نے دلچسپ کالم لکھے اور عمدہ تراجم بھی کیے۔ الیکٹرانک میڈیا میں انھوں نے آل انڈیا ریڈیو کے علاوہ راموجی فلم سٹی (حیدرآباد ای ٹی وی اردو) میں سینئر کاپی ایڈیٹر کے طور پر کام کیا، وہ دستاویزی فلموں کا بھی تجربہ رکھتے ہیں۔ انھوں نے نظمیں، سفرنامے اور کہانیاں بھی لکھی ہیں۔ کئی سالوں تک جامعہ ملیہ اسلامیہ میں میڈیا کنسلٹنٹ کے طور پر بھی اپنی خدمات دے چکے ہیں۔ ان کی دو کتابیں ”مسلم مجلس مشاورت ایک مختصر تاریخ“ اور ”کچھ دن ایران میں“ منظر عام پر آ چکی ہیں۔

muhammad-alamullah has 170 posts and counting.See all posts by muhammad-alamullah

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments