فارغین مدارس کے لیے میڈیا میں امکانات


میں کافی عرصے سے میڈیا سے وابستہ ہوں۔ اس دوران میں نے میڈیا کے بہت سے اداروں کی کارکردگی کا گہرائی سے مطالعہ اور مشاہدہ کیا ہے اور اپنے کیریئر کے دوران میں نے، جو تجربات حاصل کیے اور جو نتائج اخذ کیے ہیں ان کی روشنی میں نیک نیتی کے جذبے سے یہ معروضات آپ کے سامنے پیش کر رہا ہوں۔ اس مضمون میں بقدر ضرورت میں نے اپنی طالب علمانہ رائے کا اظہار بھی کیا ہے، جس سے اختلاف کی گنجائش موجود ہے۔ تاہم اس عنوان کی طرف آپ کی توجہ ایک مثبت پیش رفت ہو سکتی ہے، جو آئندہ کی پیڑھی کے لیے مشعل راہ ہوگی۔

اس سلسلے میں میرے ذہن میں کچھ سوالات ہیں، جنہیں میں نے تین درجوں میں تقسیم کیا ہے : اول یہ کہ مدارس سے فارغ طلبہ کے بارے میں عام لوگوں کا نظریہ کیا ہے؟ دوم، وقت کی تبدیلی کے ساتھ فارغین مدارس نے معاشرہ کی تشکیل میں کس قدر حصہ لیا ہے؟ سوم، انہیں کس نہج پر لائحہ عمل تیار کرنا چاہیے اور ان کا موجودہ طریق کار کیا ہے؟

اس سلسلے میں مختلف مواقع پر مدارس اور عصری دانش گاہوں سے فارغ التحصیل افراد سے اکثر میری گفتگو ہوتی رہتی ہے۔ مدارس چوں کہ بلاواسطہ ملت سے وابستہ ہوتے ہیں، اس لیے ملت کو ان سے بہت سی بجا اور بے جا امیدیں بھی وابستہ رہتی ہیں اور جب وہ ان امیدوں پر کھرے نہیں اترتے تو لوگوں کو ناگواری ہوتی ہے یا پھر مایوسی جنم لیتی ہے۔ یہ بات بالکل درست ہے کہ مدارس کے فارغین نے مختلف میدانوں میں اپنی کوششوں اور ہمت سے بیش بہا کارنامے انجام دیے ہیں اور دے رہے ہیں، بلکہ اگر برصغیر ہند و پاک کے تناظر میں دیکھا جائے تو بلا مبالغہ یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ ان مقامات پر اسلام کی جو رمق باقی ہے وہ مدارس اور اہل مدارس کی کاوشوں کا ثمرہ ہے۔ مدارس سے فارغ طلبہ نے ہر جائز میدان کو اپنی توجہ کا مرکز بنایا ہے اور بنا رہے ہیں، جو ایک مثبت اور خوش آئند بات ہے۔ میڈیا بھی ان ہی میدانوں میں سے ایک ہے، جو موجودہ دور میں ایک مکمل پیشہ اور صنعت کی صورت اختیار کرچکا ہے۔

اسلام گوشہ نشینوں اور تارک الدنیا افراد کا دین نہیں ہے۔ اس کے ماننے والے معاشرے کے فعال رکن بن کر جیتے ہیں، تو پھر کیوں کر دینی طبقہ کی جانب سے میڈیا کے میدان کو کسی حد تک محروم رکھا گیا ہے ؟ سوال یہ ہے کہ کیا ابلاغ کا شعبہ معاشرے کی تشکیل کے ضمن میں نہیں آتا؟ دین کی دعوت کا کام سرانجام دینے والے لوگ اور تنظیمیں کیوں اس کے بارے میں غور نہیں کرتیں؟ کیا یہ فرض کر لیا گیا ہے کہ یونیورسٹیوں میں ماس کمیونی کیشن پڑھنے والے طلبہ، جو کہ ملکی نظام تعلیم کی خرابیوں کے باعث دین کا کچھ زیادہ نظریاتی علم نہیں رکھتے و ہی میڈیا کے میدان میں سب کی رہنمائی کریں گے؟

کیا دینی طبقہ ان طلبہ سے اشاعت دین کے ضمن میں معجزوں کی امید لگائے بیٹھا ہے؟ کیا یہ انتظار ہے کہ یہ لوگ میڈیا کو دین کی دعوت کے لیے ہموار بنا دیں گے اور پھر اس کے ذریعے صالح معاشرہ کی تشکیل ہو سکے گی؟ اگر ایسا سوچا جا رہا ہے تو حقیقتاً یہ انتہائی تشویش ناک امر ہے۔ یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ نظریاتی علم اور ٹھوس علمی بنیادوں کے بغیر پیشہ ورانہ علم حصول مقصد کے لیے کافی نہیں ہوتا، اس لیے دینی علم رکھنے والوں کو میڈیا کی درست سمت کے تعین اور خیر کی اشاعت کے فریضہ کی انجام دہی کے لیے خود اس میدان میں پیش رفت کرنی پڑے گی۔

میڈیا کے روایتی کردار اور تفریحی مواد کی زیادتی کے باعث اسے اسلام اور سماج مخالف سمجھ لیا گیا ہے اور بہت سے حلقے تو تمام تر برائیوں کی جڑ اسے ہی قرار دینے پر مصر ہیں۔ شاید دینی حلقوں میں یہ بات تسلیم کی جا چکی ہے کہ میڈیا ہمارے معاشرے میں الحاد، فحاشی، غیر اسلامی روایات اور ایسی ہی دیگر منفی سرگرمیوں کو فروغ دینے کے لیے تیار کردہ ایک سازش کا حصہ ہے اور اس سے صرف اور صرف وہی کام لیا جاسکتا ہے، جو کہ آج کل ملکی و غیر ملکی میڈیا میں نظر آ رہا ہے۔

شاید یہی وجہ ہے کہ دینی حلقے اپنی مختصر ضرورتوں کے بقدر میڈیا کو استعمال میں لاتے تو ہیں، لیکن اس کے بامقصد استعمال کی طرف ان کی توجہ اب تک مبذول نہیں ہو سکی ہے۔ میڈیا کے خلاف تقریروں اور تحریروں کی بھرمار ہے یہاں تک کہ اس سلسلے میں فتوے بھی سامنے آئے ہیں لیکن اس کے اثرات کم ہونے کی بجائے مزید بڑھتے ہی جا رہے ہیں۔

میڈیا نے ٹکنالوجی کے سہارے اس وسیع و عریض کرہ ارض کو گلوبل ولیج میں تبدیل کر دیا ہے۔ آج معلومات کی قلت کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ معلومات کی فراوانی نے انسانوں کو فکری پریشانیوں میں مبتلا کر رکھا ہے۔ آج میڈیا کا سب سے بڑا استعمال ذہن سازی اور مخصوص مقاصد کی تکمیل کے لیے کیا جانے والا پروپیگنڈا ہے۔ میڈیا کے شوروغل نے سچ اور جھوٹ کی پہچان مشکل بنا دی ہے یا مٹا ہی دی ہے۔ مباحثوں، خبروں اور دلکش پروگراموں کے ذریعے فکر اور ذہن کو مسخر کیا جا رہا ہے یا پھر نئی فکر اور نیا خیال تھوپنے کی سعی ہو رہی ہے۔

ملکی اور غیر ملکی میڈیا کی بھرپور یلغار کی بدولت آج فحاشی و عریانی، رقص و بے حیائی اور سب سے بڑھ کر مذہب بیزاری، جیسی لعنتیں بڑھ رہی ہیں، مذہبی رجحان کے خلاف پروپیگنڈا کر کے مذہب اور مذہبی جماعتوں کی شبیہ بگاڑنے کی ہر ممکن کوشش جاری ہے۔ انسانی قدریں پامال ہو رہی ہیں اور اپنے اپنے فکر اور فلسفہ کی نشر و اشاعت کے لیے اس کا سہارا لیا جا رہا ہے۔ تاہم کچھ مخلص حلقوں نے میڈیا کے میدان میں دینی حوالے سے سرگرمی دکھائی ہے اور شاید اسی لیے اب میڈیا کو سمجھنے اور اس کے درست استعمال کے لیے تھوڑی بہت پیش رفت بھی دیکھی جا رہی ہے۔ حالات کی ٹھوکروں نے میڈیا کی اہمیت تو باور کرا دی ہے لیکن دینی طبقہ ابھی تک میڈیا کے بنائے ہوئے ماحول کو سمجھنے اور اس کی موجودہ پریکٹس میں اپنے لیے راہیں تلاش کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکا۔

ایسی صورت میں وہ، جن کے کاندھوں پر انسانیت کی فلاح اور ان کی خیرخواہی کی ذمے داریاں ہیں اور جن کے وجود کا بنیادی مقصد ہی عالم انسانیت سے جور و ظلم کو دور کرنا، عدل و انصاف کی فضا قائم کرنا، انسانی معاشرہ کو امن و توازن کا مظہر بنانا، خیر کی ترویج و اشاعت اور برائی کے خاتمہ اور انسداد کو ممکن بنانا ہے، جسے شریعت کی اصطلاح میں ’امر بالمعروف‘ اور ’نہی عن المنکر‘ کہا جاتا ہے، یہ فریضہ یوں تو اپنے عموم میں امت کے ہر فرد پر عائد ہوتا ہے لیکن چوں کہ اس امت کا اہل علم طبقہ (یہاں صرف مدارس کے فارغین کو علما کہنے میں مجھے تامل ہے ) از روئے حدیث، انبیائے کرام علیہم السلام کی علمی میراث کا امین ہے، اس لیے اس کے فرائض منصبی میں زندگی کے ہر شعبہ میں انبیائے کرام علیہم السلام کے کردار کی تبلیغ اور ان کے اسوہ حسنہ کی اشاعت مقدم ہے۔ دین اسلام نے خود بھی میڈیا اور صحافت کے بہت سے اصول بتائے ہیں، جن سے ہم بہرہ مند ہو سکتے ہیں، مثلاً صحافت میں صرف سچ بولنے اور لکھنے کے حوالے سے یہ حدیث رہنما اصول ہے : حفص بن عاصم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا:

کفیٰ بالمرء کذباً ان یحدث بکل ماسمع

(اسے امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب الصحیح لمسلم کے مقدمہ اور صحیح میں بھی نقل کیا ہے ) ترجمہ: ”کسی شخص کے جھوٹا ہونے کے لیے بس یہی کافی ہے کہ وہ جو کچھ سنے اسے بیان کرتا پھرے۔“

چوں کہ میرا موضوع سخن بھی یہی ہے اس لئے بات اسی تناظر میں کی جائے گی۔

آج کے دور میں دینی تعلیم کی طرف راغب ہونا کوئی آسان بات نہیں ہے۔ مرکزی اور ریاستی حکومتوں کے سفاک رویے اور مخالفانہ پروپیگنڈے کی بھرمار کے باوجود آج بھی ایسے افراد کی کمی نہیں ہے، جو دنیاوی عیش و عشرت کو ٹھکرا کر اپنے فرائض منصبی کی ادائیگی کو اپنے لیے وجہ سعادت سمجھتے ہیں، اس لئے ضروری ہے کہ یہ مخلص اور بے لوث طبقہ جدید نظام ابلاغ کے اصول اور ضابطوں سے آگاہ ہو، جس کی روشنی میں دعوت کے کام کو مزید موثر بنایا جا سکے۔

میڈیا کا علم دعوت کے علاوہ انسانیت کی خاطر حق و صداقت کے فروغ کے لیے انتہائی مفید ثابت ہو سکتا ہے اور دینی مدارس سے فارغ التحصیل طلبہ میڈیا کے بارے میں معلومات رکھنے کی وجہ سے معاشرے کی اصلاح اور اس کی نمائندگی کے سلسلے میں بہتر کردار ادا کر سکتے ہیں۔ مدارس سے فارغ التحصیل طلبہ اگر میڈیا کے میدان میں آتے ہیں تو یقینا ان کے لیے یہاں بالخصوص دینی موضوعات کے حوالے سے بہت زیادہ مواقع ہیں۔

یہ بات پورے وثوق کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ اگر میڈیا ٹیکنالوجی کو دین کا علم رکھنے والے افراد پیشہ ورانہ اصول کے ساتھ استعمال کریں تو یہ پیشہ ہونے کے ساتھ تبلیغ دین کا بھی موثر اور آسان وسیلہ ہو سکتا ہے۔ اس مضمون کے ذریعے دینی طبقوں کو مخاطب کرنے کی وجہ یہ ہے کہ یہ وہ جماعت ہے، جو خیر کی اشاعت کا بھرپور جذبہ رکھنے کے ساتھ ہی دینی علم بھی رکھتی ہے اور اس مقصد کے لیے اپنا وقت اور توانائی دونوں صرف کرتی ہے۔

یہی وہ طبقہ ہے، جو معاشرے میں مذہبی رجحان کے بقا کی کوششوں میں مسلسل مصروف ہے۔ اس تحریر کا مقصد صرف ان کو اس پہلو پر متوجہ کرنا ہے کہ میڈیا کو تنقید کا نشانہ بنانے کی بجائے اس کو آگے بڑھ کر خود حق کے پیغام کو عام کرنے کا وسیلہ بنا لینے کی ضرورت ہے۔ دین کی دعوت، نشر و اشاعت کے ان ہی وسائل اور آلات کے استعمال سے ان تک بہ آسانی پہنچائی جا سکتی ہے، جن کے کان ابھی تک کلمہ حق کی حلاوت سے آشنا نہیں ہو سکے۔ یقیناً میڈیا سے دوستی اور اس سے قربت آپ کے لیے انتہائی مفید ثابت ہو گی اور یہ حق کے پیغام کو چہار جانب پھیلانے کا اہم ترین وسیلہ بن سکتا ہے۔ میڈیا کے درست استعمال کے لیے اس میں درپیش مسائل کو سمجھنے اور اس کو حل کرنے کے لیے منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں

محمد علم اللہ جامعہ ملیہ، دہلی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4

محمد علم اللہ جامعہ ملیہ، دہلی

محمد علم اللہ نوجوان قلم کار اور صحافی ہیں۔ ان کا تعلق رانچی جھارکھنڈ بھارت سے ہے۔ انہوں نے جامعہ ملیہ اسلامیہ سے تاریخ اور ثقافت میں گریجویشن اور ماس کمیونیکیشن میں پوسٹ گریجویشن کیا ہے۔ فی الحال وہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے ’ڈاکٹر کے آر نارائنن سینٹر فار دلت اینڈ مائنارٹیز اسٹڈیز‘ میں پی ایچ ڈی اسکالر ہیں۔ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا دونوں کا تجربہ رکھتے ہیں۔ انھوں نے دلچسپ کالم لکھے اور عمدہ تراجم بھی کیے۔ الیکٹرانک میڈیا میں انھوں نے آل انڈیا ریڈیو کے علاوہ راموجی فلم سٹی (حیدرآباد ای ٹی وی اردو) میں سینئر کاپی ایڈیٹر کے طور پر کام کیا، وہ دستاویزی فلموں کا بھی تجربہ رکھتے ہیں۔ انھوں نے نظمیں، سفرنامے اور کہانیاں بھی لکھی ہیں۔ کئی سالوں تک جامعہ ملیہ اسلامیہ میں میڈیا کنسلٹنٹ کے طور پر بھی اپنی خدمات دے چکے ہیں۔ ان کی دو کتابیں ”مسلم مجلس مشاورت ایک مختصر تاریخ“ اور ”کچھ دن ایران میں“ منظر عام پر آ چکی ہیں۔

muhammad-alamullah has 170 posts and counting.See all posts by muhammad-alamullah

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments