کثرت آبادی کا دباؤ


دنیا کی آبادی 7 ارب سے زیادہ ہے اور اس میں ابھی بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ گزشتہ چالیس سالوں میں تقریباً دوگنی ہو گئی ہے۔ اب ہمیں کثرت آبادی کا مسئلہ درپیش ہے۔ اتنی زیادہ آبادی کے ساتھ وسائل کم ہوتے جا رہے ہیں۔ اگر ایسے حالات جاری رہے تو مستقبل میں ہمیں بڑے مسائل کا سامنا کرنا ہو گا۔ اسی لیے ملکوں کو اپنی پھیلتی ہوئی آبادی کو محدود کرنے کی ضرورت ہے۔ مستقبل کی حکمت عملی خوراک کی پیداوار کے لیے زمین، پانی، توانائی اور حیاتیاتی ذرائع کے بچاؤ اور محتاط دیکھ بھال پر قائم ہونی چاہیے۔

مگر آنے والی نسلوں کے لیے خوراک کی وافر مقدار کو یقینی بنانے کے لیے ان اقدامات میں سے کوئی بھی کافی نہیں ہو گا۔ سوائے اس کے کہ ساتھ ہی ساتھ انسانی آبادی کی افزائش کے عمل کو کم نہ کیا جائے۔ متعدد تحقیقات نے یہ تصدیق کی ہے کہ پوری دنیا میں رہن سہن کا نسبتاً بلند معیار قائم رکھنے کے لیے دنیا کی آبادی کی مناسب ترین حدود دو ارب سے کم ہونی چاہیے۔ اس لیے اب سے جب تک مناسب ترین آبادی حاصل نہ ہو جائے، زمین، پانی، توانائی اور حیاتیاتی ذرائع کے بچاؤ کے لیے مناسب حکمت عملی کو موثر طور پر لاگو کرنا ہے۔

دنیا میں ہر طرف ایک مستحکم اور بار آور ماحول قائم رکھنا بہرطور ضروری ہے۔ عالمی خوراک کی رسد کا ننانوے فی صد سے زیادہ حصہ زمین سے، جب کہ ایک فی صد سے کم حصہ سمندروں اور دوسرے آبی ذخیروں سے حاصل ہوتا ہے۔ وافر غذا کی مسلسل پیداوار براہ راست زرخیز زمین، تازہ پانی اور توانائی پر منحصر ہے۔ جب انسانی آبادی بڑھتی ہے تب ان ذریعوں کی طلب بھی بڑھ جاتی ہے۔ اگرچہ یہ ذرائع کبھی بھی ختم نہیں ہوتے مگر فی کس ہر شخص کی بنیادوں پر وہ کافی حد تک کم پڑ جاتے ہیں کیوں کہ وہ زیادہ لوگوں کے درمیان تقسیم ہو جاتے ہیں۔

موجودہ وقت میں زرخیز زرعی زمین ایک خوف ناک حد تک برباد ہو رہی ہے۔ بار آور پیداوار کا باعث بننے والی زرخیز زمین کی کمی اور زوال پذیر زمین کی پیداواری صلاحیتیں خوراک کی موجود قلت کی ایک بڑی وجہ ہیں۔ تمام تر فصلوں کے لیے پانی ایک اور اہم نازک چیز ہے۔ کاشت کاری کے موسم میں کھیتی باڑی کے لیے پانی کی بہت بھاری مقدار میں ضرورت ہوتی ہے۔ دراصل زرعی پیداوار میں پانی کسی بھی انسانی سرگرمی سے کہیں زیادہ صرف ہوتا ہے۔

بہت سے ملکوں میں لوگ پانی کی کمی کا سامنا کر رہے ہیں۔ دنیا کی حالیہ آبادی کے ساتھ ساتھ لوگوں، خطوں اور ملکوں کے درمیان پانی کے وسائل اور ان سے متعلقہ مقابلے پہلے ہی وقوع پذیر ہو رہے ہیں۔ زراعت کے لیے پانی کے ذریعوں کے نازک وسائل بہت دباؤ میں ہیں۔ کیوں کہ گنجان آباد شہر، ریاستوں اور ملکوں ان سب کو زیادہ پانی کی ضرورت ہے اور وہ دریاؤں، جھیلوں اور زمین کے اندر سے ہر سال ضرورت سے زیادہ پانی نکالتے ہیں۔

زیر زمین اور زمینی سطح پر موجود پانی کے ذریعوں کا مسلسل اور بے تحاشا استعمال پانی کی فراہمی کو بحال رکھنے کے لیے ایک بڑا خطرہ ہے۔ زمین میں دبے ہوئے ایندھن مثلاً کوئلہ اور تیل سے بننے والی توانائی خوراک کی پیداوار میں استعمال ہونے والا ایک اور بڑا ذریعہ ہے۔ دنیا میں تقریباً 80 فی صد ترقی یافتہ ملکوں میں زمینی ایندھن سے بننے والی توانائی کا استعمال ہو رہا ہے۔ ترقی یافتہ ملکوں میں پیدائش افزا طریقۂ زراعت کی ٹیکنالوجی میں زمینی ایندھن سے بننے والی کھاد کیڑے مار دوائیں، آب پاشی اور انسان کی محنت کی جگہ مشینوں کا استعمال ہو رہا ہے۔

ترقی پذیر ملکوں میں زیر زمین ایندھن سے بننے والی توانائی انسان کی محنت کی کھپت کو کسی حد تک کم کرنے کے لیے فصلوں کو بحال رکھنے بالخصوص کھادوں اور آب پاشی میں استعمال کی جاتی ہے۔ کیوں کہ زمینی ایندھن محدود ذریعہ ہے۔ جوں جوں آبادی یعنی لوگوں کی خوراک اور ملازمتوں کی ضروریات بڑھتی جاتی ہیں زمینی ایندھن کا خاتمہ تیز ہوتا جاتا ہے۔ کسی بھی ملک کے لوگ اس کا وہ عظیم ترین سرمایہ ہے جو اپنی قربانی اور محنت سے قوم کی تعمیر کرتا ہے۔

لیکن جب ملک میں آبادی کی کثرت ہو اور اسے کم وسائل سے بہت زیادہ لوگوں کو خوراک فراہم کرنا ہو تو ایسی حالت کثرت آبادی کہلاتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ دنیا کی آبادی 2 بلین سے کم ہونی چاہیے۔ لیکن دنیا میں آبادی کی زیادتی ہے۔ یہ ایک خطرناک صورت حال ہے کیونکہ دنیا کے وسائل اس کی آبادی کے مقابلے میں کم ہیں۔ آبادی میں اضافے کی موجودہ شرح متوقع قحط اور ضروریات زندگی کے فقدان کی پیش گوئی کرتی ہے۔ کثرت آبادی کا نتیجہ خوراک، پانی، زمین اور تمام ضروریات زندگی کی قلت کی صورت میں نکلتا ہے۔

دنیا میں توانائی کے ذرائع بہت محدود ہیں۔ زیادہ تر آبادی کو زیادہ خوراک، زیادہ پانی، زیادہ زمین اور نتیجتاً توانائی کے زیادہ ذرائع کی ضرورت ہوتی ہے جو پہلے ہی کمی کا شکار ہیں۔ آبادی کی زیادتی کسی ملک کی ترقی کے لیے ایک دھچکا ہے۔ یہ ملک کو پھلنے پھولنے اور خود مختار نہیں ہونے دیتی۔ ہمارا ملک پاکستان بھی کثرت آبادی کے دباؤ میں ہے۔ یہ ہمارے معاشرے کی سماجی معاشی ترقی میں رکاوٹ ہے۔ اس کے ساتھ جہالت، بے روزگاری، غربت، آلودگی اور صحت کی سہولیات، خوراک، زرعی زمین اور صاف پانی کی قلت جیسے مسائل ناگزیر ہیں۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ آبادی میں اضافے کی شرح پر قابو پایا جائے۔ اس مقصد کے لیے لوگوں کو اس مسئلے کے بارے میں تعلیم دی جانی چاہیے۔ زیادہ پیداواری زرعی نظام کے لیے مفید ٹیکنالوجی استعمال میں لائی جانی چاہیے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہر شخص کو محفوظ مستقبل کے لیے اس مسئلے پر سنجیدگی سے سوچنا چاہیے۔ کیونکہ انسانیت کی بقا کا انحصار انسانوں کے اعمال پر ہوتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments