تبت یا شی زینگ: کیا چین ترقیاتی منصوبوں، فوجی مشقوں اور ایک نئے نام کے ساتھ متنازع خطے میں دل جیت پائے گا؟

پادماجا وینکٹ رامن - تجزیہ، بی بی سی مانیٹرنگ


تبتی خواتین
حالیہ دنوں میں کمیونسٹ پارٹی حکام کی جانب سے تبتی ثقافت کو چینی روایات سے ہم آہنگ کرنے کی ضرورت پر زور دیا جا رہا ہے
جب سے چینی صدر شی جن پنگ نے جولائی میں ملک کے لیڈر کی حیثیت سے پہلی بار تبت کا دورہ کیا، بیجنگ نے اس متنازع خطے میں اپنی عسکری کارروائیاں اور انفراسٹرکچر میں سرمایہ کاری بڑھا دی ہیں۔

ایک جانب چینی فوج بڑے پیمانے پر تبت میں مشقیں کر رہی ہے تو دوسری جانب ملک کا سرکاری میڈیا خاموشی سے اس علاقے کے انگریزی نام (تبت) کو لوگوں کے ذہنوں سے مٹانے کی کوشش میں لگا ہوا ہے۔

ایسا لگتا ہے کہ صدر شی کے دورے کے بعد حکومت نے اس خودمختار خطے پر اپنا کنٹرول مزید سخت کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

اب تک کیا ہوا ہے؟

صدر شی کا دورہ تبت کسی بھی چینی سربراہ کی جانب سے 30 سال میں اس علاقے کا پہلا دورہ تھا۔ ان کے وہاں جانے کے چند ہی ماہ بعد، ستمبر میں چین کی سرکاری ملکیت والی کمپنیوں نے اس علاقے میں 2021 سے 2025 تک کے لیے خطے کی معیشت میں 260 ارب یوآن یعنی 40 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی۔

اگلے ہی ماہ چینی پارلیمان کی ایک قائمہ کمیٹی نے زمینی سرحدیں مضبوط کرنے کے حوالے سے قانون کی منظوری دی، جسے ہمسایہ ملک انڈیا کے ساتھ جاری سرحدی کشیدگی کے تناظر میں ایک اہم قدم کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔

قانون کی منظوری سے چند روز قبل سرکاری اخبار گلوبل ٹائمز نے خبر دی تھی کہ بیجنگ علاقے کے قدرے مستحکم علاقوں اور دیہاتوں کی مدد کر رہا ہے تاکہ وہ سرحد کی نگرانی اور حفاظت میں مدد کر سکیں۔

لاسا

ستمبر میں جاری ہونے والے ایک بیان میں چینی فوج نے کہا کہ اس نے تبت کے مغربی خطے میں ایک ہفتے تک متعدد مشقیں کیں

گلوبل ٹائمز کی رپورٹ میں ایسے قصبوں میں ترقیاتی کام کی تفصیلات موجود تھیں جو انڈیا اور بھوٹان کی سرحد پر واقع تھے۔ یاد رہے کہ چین کا ان ہی دو ممالک کے ساتھ زمینی سرحد کی حدود پر تنازع ہے۔

پھر ستمبر میں پیپلز لبریشن آرمی کے کئی یونٹس نے تبت میں مشترکہ مشقوں میں حصہ لیا جن کا مقصد بلندی پر عسکری کارروائیوں کی تیاری کرنا تھا۔ آٹھ نومبر کو جاری ہونے والے ایک بیان میں چینی فوج نے کہا کہ اس نے تبت کے مغربی خطے میں ایک ہفتے تک متعدد مشقیں کیں جو انڈیا کی جانب سے مشرقی لداخ میں فضائی مشقوں کے جواب کے طور پر منعقد کی گئی تھیں۔

اس سے اگلے روز گلوبل ٹائمز نے خبر دی کہ موسم سرما کی ابتدا سے قبل پہاڑی سرحد پر تعینات افواج تک سازو سامان پہنچانے کے نظام میں بہتری لائی گئی ہے۔

سفارتی سطح پر خطے کی ترقی پر روشنی ڈالنے کے لیے ملک کی وزارتِ خارجہ نے اکتوبر میں ایک عشائیہ منعقد کیا، جس کا عنوان تھا: ’چین نئے سفر پر: ایک خوشحال، نئے تبت کے لیے ترقی کا نیا باب۔‘

اس عشائیے میں، جس میں کئی غیر ملکی سفارت کار بھی شریک ہوئے، وزیر خارجہ وینگ یی نے دعویٰ کیا کہ چین کی کمیونسٹ پارٹی کی قیادت میں تبت چین کی ترقی کی مثال کے طور پر سامنے آیا ہے۔

شی جن پنگ

بیجنگ کی تبت پر اپنی ثقافت مسلط کرنے کی کوششوں کی ایک اور کڑی اس وقت سامنے آئی جب چینی میڈیا نے بظاہر لفظ ‘تبت’ کے استعمال کو ترک کر کے اس کی جگہ چینی زبان والا نام ‘شی زینگ’ استعمال کرنا شروع کر دیا

ایسا کیوں ہو رہا ہے؟

اتنی تیزی سے ہونے والی ترقی کی ایک وجہ یہ ہے کہ اس برس کمیونسٹ پارٹی کی جانب سے تبت پر قبضے کے 70 سال مکمل ہو رہے ہیں جس کو چین میں تبت کی ’پرامن آزادی‘ کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔

شی کے دورے کے کچھ ہی عرصے بعد چین کے سینیئر سیاسی مشیر وانگ ینگ کی قیادت میں ایک وفد یہی سالگرہ منانے بیجنگ سے لاسا پہنچا۔

انھوں نے اپنے ایک بیان میں خبردار کیا کہ چین کے باہر تبت کے انتظامی امور پر ’انگلیاں اٹھانے کا حق‘ کسی کو بھی نہیں۔ اپنے دورے میں مشیر نے ’چینی زبان کی تعلیم کے فروغ‘ کے لیے اقدامات پر بھی زور دیا تھا۔

یہ بھی پڑھیے

چین اور انڈیا کے سرحدی تنازع میں تبت کا کیا کردار ہے؟

چینی صدر کا ’نئے جدید سوشلسٹ تبت‘ کی تعمیر کا اعلان

چین کا مارشل آرٹ ٹرینرز کو تبت بھیجنے کا فیصلہ، انڈیا بھی ’جواب دینے کے لیے تیار‘

تبت پر بیجنگ کا کنٹرول مزید بڑھانے کا عمل ایک ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب بیجنگ پر نہ صرف انڈیا کی جانب سے سرحد پر دباؤ ہے بلکہ مغربی ممالک کی نظریں بھی چین پر ٹکی ہوئی ہیں۔

اس سال مئی میں امریکہ نے پہلی بار انڈیا کے شمالی شہر دھرم شالہ میں ہونے والے مرکزی تبتی انتظامیہ یا تبت کی جلاوطن حکومت کے انتخابات کو تسلیم کیا۔ پھر جون میں یورپی یونین اور امریکہ دونوں نے ایک مشترکہ اجلاس کے بعد بیجنگ کی جانب سے انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزیوں پر تشویش کا اظہار کیا۔

جولائی میں انڈیا کے ایک دورے کے دوران امریکی سیکرٹری خارجہ اینتھونی بلنکن کی تبت کے روہانی رہنما دلائی لامہ کے ایک ترجمان سے ملاقات پر بھی چین نے برہمی کا مظاہرہ کیا۔

سنہ 1959 میں انڈیا فرار ہونے والے دلائی لامہ کو چین میں ’علیحدگی پسند‘ سمجھا جاتا ہے۔

دھرم شالا

دھرم شالہ میں مقیم تبتی کمیونٹی نے جلاوطنی میں اپنی حکومت قائم کر رکھی ہے جسے امریکہ نے حال ہی میں پہلی بار تسلیم کیا

نام تبدیل کرنے کی کوششیں

بیجنگ کی تبت پر اپنی ثقافت مسلط کرنے کی کوششوں کی ایک اور کڑی اس وقت سامنے آئی جب چینی میڈیا نے بظاہر لفظ ’تبت‘ کے استعمال کو ترک کر کے اس کی جگہ چینی زبان والا نام ’شی زینگ‘ استعمال کرنا شروع کر دیا۔

اس سال اگست سے یہ نام چین کے انگریزی زبان میں شائع ہونے والے میڈیا میں زیادہ سے زیادہ نظر آنے لگا۔ علاقے میں ’سیاحتی انقلاب‘، فوجی مشقوں یا کمیونسٹ پارٹی کے نئے علاقائی سربراہ کے بارے میں شائع ہونے والی خبروں میں تبت کا اسی نام سے ذکر ہوا ہے۔

اس کے بعد 26 اکتوبر کو انڈیا میں موجود تبت کی جلاوطن قیادت کی ویب سائٹ پر جریدے ’بِٹر ونٹر‘ کی ایک رپورٹ شائع کی جس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ چین تبت سے ’اس کا نام تک چھیننے کی کوشش‘ کر رہا ہے۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ جوں ہی وانگ جنزہینگ نے تبت میں کمیونسٹ پارٹی کے سربراہ کا عہدہ سنبھالا، انھوں نے گذشتہ اگست کو جاری ہونے والے ایک حکم نامے کے اطلاق کے لیے سر توڑ کوششیں شروع کر دیں۔ یہ حکم نامہ کمیونسٹ پارٹی کے شعبہ تعلقات عامہ کی جانب سے منظور شدہ تھا اور اس کے مطابق لفظ ’تبت‘ کی جگہ تمام سرکاری کاغذات میں ’شی زینگ‘ استعمال ہونا چاہیے۔

تبتی سکول

تبت کے رہنے والوں کی زندگیوں میں کمیونسٹ پارٹی کا کردار بڑھتا نظر آ رہا ہے

اب کیا ہو گا؟

جیسا کہ سنکیاگ اور ہانگ کانگ میں پہلے دیکھا گیا ہے، جوں جوں مغربی دنیا کی جانب سے چین پر تنقید بڑھتی جائے گی، وہ تبت پر اپنی گرفت اور مضبوط کرنے کی کوششیں جاری رکھے گا۔

اس کا ایک واضح ثبوت اکتوبر میں ملا جب چین نے اکتوبر میں وانگ جنزہینگ کو تبت میں تعینات کر دیا۔ وہ اس سے قبل سنکیانگ میں کمیونسٹ پارٹی کے ڈپٹی سیکرٹری تھے اور ان پر امریکہ، برطانیہ اور یورپی یونین کی جانب سے انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزیوں کا الزام ہے۔

چینی اکادمی برائے سائنس کی محقق شئی ماؤ سونگ نے مئی میں ساؤتھ چائنہ مارننگ پوسٹ کو بتایا تھا کہ تبت میں تعینات کمیونسٹ پارٹی کے سابق سیکرٹری نے تبتی بودھ ثقافت کو چینی روایات سے ہم آہنگ کرنے کی ضرورت پر زور دیا تھا۔

ان کے مطابق بیجنگ اب تبت اور ملک کے دیگر علاقوں کی تاریخ کو چین کی وسیع تر تاریخ میں ضم کرنے کی کوششیں کر رہا ہے تاکہ متحدہ چین کے بیانیے کو تقویت ملے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32295 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments