موجودہ ملکی بحران کا سبب: انتخابی دھاندلی


اکتوبر 2021 کے واقعات نے ان تمام سیاسی پیش گوئیوں کو حقیقت بننے کے لئے سنہری مواقع مہیا کر دیے ہیں جن کا اظہار اوائل 17 سے ذرا دھیمے پن سے ہوتا تھا۔ پھر واقعات کے بہاؤ اور تبدیلی کے مسلسل گھاؤ ان کی توانائی، مقدار اور کیفیت کی شدت بڑھاتے گئے جولائی 2018 ءکے انتخابات کو مداخلت زدہ، عوامی رائے کے منافی سمجھنے والے تو شروع دن سے ہی عمران حکومت کے خاتمے کی خواہش رکھتے تھے۔ مگر سوال یہ تھا کہ نئے انتخابات پر امن منصفانہ اور مداخلت سے پاک شفاف کیونکر بنائے جائیں؟ محض نئے انتخابی عمل وقت اور ملک وسائل کا ضیاع ہو گا۔ کیونکہ جب آئین و قوانین کی عائد کردہ پابندیاں غیر موثر ثابت ہو چکی تھیں۔ حلف کے الفاظ محض جوتے کا تسمہ بن گئے ہیں۔ ان حالات نئے انتخابات کا نتیجہ بھی اگر ہائی برڈ نظام کی خواہش / ضرورت کے مطابق مرتب ہونا ہے تو اس دلدل نما مشقت کا کیا فائدہ؟

دلچسپ پہلو انتخابی نتائج پر حرف گیری میں پی ٹی آئی کی آواز کا شامل ہونا تھا، نجانے اسے اپنی کامیابی پر اعتراض تھا یا مطلق اکثریت نہ ملنے کی متعلق قلق۔ بہر طور جے یو آئی و دیگر جماعتیں نتائج تسلیم کرنے سے یکسر انکاری تھیں۔ جناب آصف زرداری نے انہیں نرم رویہ اپنانے پر رضا مند کیا۔ نون لیگ عمران خان کو حکمرانی کا موقع دینے کی حامی تھی اسے یقین تھا کہ خان صاحب اپنے کھوکھلے نعروں کے بوجھ تلے دب جائیں گے تو نا اہلی و ناکامی کی دلدل میں تاریخ کے اوراق کا متروک صفحہ بن جائیں گے۔

گزشتہ عام ”انتخابات“ سے قبل بلوچستان اسمبلی اور پھر جو کچھ ہوا تھا وہ جولائی انتخابات کے مقاصد اور نتائج کے خد و خال واضح کر نے کے لئے بہت سا مواد مہیا کرنے والا تھا۔ سو مجھے قبل از انتخابات ہی اس کے ممکنہ یقینی نتائج کا اندازہ تھا۔ جبکہ بعض جماعتوں بالخصوص نیشنل پارٹی کی انتخابات میں مکمل شکست کا دھماکہ اس پہ مستزاد تھی، حتمی طور انتخابات کے نتائج نے اس کی جمہوری ساکھ کا ستیاناس کر کے رکھ دیا علاوہ ازیں عمران حکومت کیسی تبدیلی لائے گی اس بارے بھی مجھے یقین تھا کہ محض ناکامیوں کا ایک بوجھ ملک کے کا ندھون پر لادا جائے گا۔

22 ستمبر 2017 ءکو میں نے پی ٹی آئی کی جانب سے حکومت کے دوران اپنائی جانے والی حکمت عملیوں اور تیاریوں کی مسلسل دھرائی جانے خود فریبانہ داستان بارے بھی لکھا تھا اور دو سو ماہرین کی ٹیم کے مفروضے کو پارلیمانی جمہوری نظم حکومت کے ساتھ داخلی طور پر متصادم متضاد قراردیا تھا۔ دو سو افراد پر مشتمل بیرون ملک سے آنے والے ماہرین نہ تو آنے، نہ ہی ان کا کوئی وجود تھا۔ سب کچھ ذرائع ابلاغ کے ذریعے ہائی برڈ نظام کے نقشہ نویس حلقے کی بھرپور مالی مادی مدد و تعاون کے ساتھ پروان چڑھانے کی کوشش تھک الحمد دو سو میں سے جو درجن دو درجن بھر افراد پاکستان تشریف لائے انہوں نے اپنی قابلیت اور ہنر مندی کے وہ وہ جو ہر دکھائے کہ جن پر پی ٹی آئی کے منتخب اراکین اسمبلی بھی دہائی دینے پر مجبور ہو گئے۔

دوسری جانب نون لیگ یا میاں نواز شریف کی پالیسی کو وقت نے درست ثابت کیا ہے لیکن اس نتیجے کے حصول کی جو قیمت عوام اور ملک نے ادا کی ہے وہ جتنی بھیانک اور ناقابل برداشت ہے اتنی ہی اس کی ذمہ داری ان تمام عناصر پر عائد ہوتی ہے جو عمران خان کو حتمی طور پر نا اہل ثابت کرنے پر مصر تھے تاکہ اس کی آزمائش ہو جا یہ تبدیلی اور نئے پاکستان کے خوش کن نعروں کا جو عوامی بخار چڑھایا ہے اپنی موت مر جائے، اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ جنہوں نے عمران حکومت کو تجرباتی طور پر مسلط کرنے کا فیصلہ و اقدام کیا تھا۔

وہ بھی عمران حکومت سے زیادہ اس کے منفی نتائج کے برابر ذمہ دار ہیں جو ملکی معیشت، سیاست، ثقافت پارلیمنٹ اور جمہوری نظم کو لاحق ہوئے ہیں۔ بے روز گاری کی شرح ناقابل برداشت، مہنگائی سفارتی تنہائی۔ معیشت کا زوال مختلف حوالوں عالمی دباؤ، اور خطے کے تمام ہمسائیوں ماسوا بحیرہ عرب و ہند کے ساتھ ناراضی، ملکی اور بین الاقوامی قرضوں کے حجم میں بھیانک اضافہ مگر واجب الادا قرضوں کے حجم میں کمی کا نظر نہ آنا، مغرب اور چین کے بیچ پنڈولم کی طرح گردش کرتی قومی دفاعی و سلامتی اور معاشی تعاون کی مجہول کیفیت۔

ایسے مسائل ہیں جن کے مکمل ادراک سے ہر انسان مایوسی کی اتھاہ گہرائی میں اثر جاتا ہے۔ ادویات اور خوراک کی آسمان کو چھوتی قیمتیں اور عدم فراہمی نے نچلے اور متوسط طبقے کی زندگی اجیرن کردی ہے۔ حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں جہاں سے کوئی ملاح اس جہاز کی کمان سنبھالنے کے لئے آمادہ نہیں چنانچہ مسلط کرنے والے بھی اب پس پردہ سہی، پچھتا تو رہے ہیں۔ شنید ہے کہ مسلسل رابطوں کے پیچھے جو لندن اور پنڈی کے درمیان ہوتے رہے ہیں شاید اس بات پر تعاون آمیز رضا مندی کا امکان روشن ہو گیا ہے کہ قبل از وقت انتخابات فوراً ہو سکتے ہیں ان رابطوں میں مداخلت سے گریز کی زبانی یقین دہانی بھی کرائی جا رہی ہے۔

سوال یہ ہے کہ آئین و قانون کی واضح ہدایات کے باوجود اگر مداخلت کا ارتکاب سیاسی امور میں رکاوٹیں اور منتخب حکومتوں کو بنیادی امور طے نہ کردینے کی روش پر فخریہ انحراف کا سلسلہ دھڑلے سے جاری ہے، تو پھر آئندہ ان سے احتساب کی ”ٹھوس موثر اور قابل عمل ضمانت“ کیسے حاصل کی جا سکتی ہے؟ قوانین تو طاقت کے روبرو موم کی ناک ثابت ہو جاتے ہیں؟

میری رائے میں اس کی دو ممکنہ صورتیں ہیں۔

اول۔ ماضی بعید و قریب میں روا رکھی گئی سیاسی انتخابی انجینئرنگ میں ملوث افراد عوامی سطح پر معافی مانگیں اپنی غلطیوں کا اعتراف کریں اور مستقبل میں ان کے اعادے سے توبہ کا عہد کریں تو مفاہمت کے سنہرے اصول پر تادیبی کارروائی نہ کرنے کی یقین دھانی کردی جائے یوں ان کے حالیہ زبانی وعدوں پر بھروسے کی ایک امکانی صورت ابھر سکتی ہے،

دوم۔ ممکنہ ذریعہ جو قابل قبول گارنٹی بن سکتا ہے وہ ملکی وقار کے برعکس تو ہے لیکن آخری علاج کے طور پر مجبوراً اپنایا جانا غلط نہیں ہو گا، یعنی چند اہم دوست ممالک کی جانب سے بطور ثالث گارنٹی یا ضمانت کا اہتمام کیا جائے اس تجویز پر ناراضی کا اظہار کرنے والوں کو ملکی تاریخ اور اپنے اقدامات کا خود تنقیدی جائزہ لینا ہو گا کیا انہوں نے حالات کی سنگینی کو اس نہج تک پہنچانے میں کوئی کسر چھوڑی ہے۔ اعتماد کی ناقابل بھروسا حالت میں اگر موجودہ بحران میں بھی کچے زبانی وعدوں پر اعتبار کیا گیا شاید تو نتیجہ ماضی جیسا ہی نکلے گا،

ایک محترم ٹی وی تجزیہ کار صاحب نے حالیہ صورتحال کی یوں توضیح پیش کی ہے کہ ”ایک صفحہ برقرار رہے گا“ کیونکہ صفحے کے پھٹ جانے سے جو سیاسی عدم استحکام آئے گا ملک اس کا متحمل نہیں ہو سکتا اس اعجاز بیان کے صدقے جاؤں۔ موصوف بلی کو دیکھ کر کبوتر کی طرح آنکھ بند کر کے استحکام اور حفاظت کا خواب دیکھ رہے ہیں کیا وہ ثابت کر سکتے ہیں کہ ملک اس وقت سیاسی طور پر مستحکم اور معاشی طور پر خوشحال ہے؟ اگر عدم استحکام کی صورت چار سو پھیلی ہوئی مسلمہ حقیقت ہے تو جناب محترم کو جان لینا چاہیے کہ موجودہ بحرانی حالات اسی ایک صفحے پر حکومت اور محکمے کی یکجائی کا شاخسانہ ہے کیونکہ ریاست کا کوئی بھی محکمہ اگر خود کو پارلیمنٹ کے مساوی درجے کا حامل سمجھنے لگے تو نتائج بھیانک عدم استحکام کی شکل سامنے آتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments