فیصلہ نواز شریف کے ہاتھ میں ہے


ملکی سیاست کی کایا اچانک پلٹ گئی ہے وہی جو کل کے فرعون تھے، جن لہجے میں تحکم اور تحقیر جھلکتی تھی، وہی اب معافی کے خواستگار ہیں، وہی جو کل کے ظالم تھے، اب مظلوم بنے دکھائی دیتے ہیں، وہی جو نفرت کا منبع تھے، اب محبتوں کے پھول برسانے کو تیار ہیں۔

یوں لگتا ہے سیاست کی تاش کی بازی اچانک نواز شریف کے ہاتھ میں آ گئی ہے، چاروں ”یکے“ ان کے ہاتھ میں ہیں، اب ان کی مرضی جو چاہے چال لیں، جو چاہے برج الٹ دیں، جسے چاہے مات دے دیں، ہر بات نواز شریف کی مانی جا رہی ہے، ہر بات پر قبول ہے، قبول ہے کے نعرے بلند ہو رہے ہیں۔ بہت سے لوگ جو اس نئے پاکستان کے بانی تھے، وہ اب پرانے پاکستان کی طرف لوٹنا چاہتے ہیں، اب میاں صاحب کی مرضی ہے چاہے وہ بلوچستان میں نئی حکومت کی تبدیلی کا پھر سے عندیہ دے دیں، سینٹ چیئر مین کی کرسی الٹ دیں، وفاق میں تحریک عدم اعتماد لے آئیں، پنجاب میں حمزہ شہباز کو وزیر اعلیٰ بنا دیں۔

اگر حکم کریں تو پی ٹی آئی کے اندر سے بھی تبدیلی لائی جا سکتی ہے، پرویز خٹک، شاہ محمود قریشی یا جہانگیر ترین گروپ کو ملک کی جز وقتی سربراہی سونپی جا سکتی ہے، نئے الیکشن پر بھی بات ہو سکتی ہے، تحریک لبیک کا معاملہ بھی حل ہو سکتا ہے، فوج کی مداخلت بھی روکی جا سکتی ہے، بندے توڑنے والی سیاست سے بھی توبہ کی جا سکتی ہے، الیکشن والے دن دھاندلی سے بھی اجتناب کیا جا سکتا ہے، ”باپ“ اور ”جی ڈی اے“ جیسے اتحادوں سے توبہ کی جا سکتی ہے، سیاست پر پابندی بھی ختم ہو سکتی ہے۔ عدالتیں بھی جلدی جلدی معاملات نمٹا سکتی ہیں، کل کے گناہ گار، غدار اور کافر پل بھر میں نیک نام، محب وطن اور دین دار ہو سکتے ہیں۔

آپ سوچتے ہوں گے کہ اس اسٹیبلش منٹ کے دل میں اچانک میاں صاحب کا درد کہاں سے آ گیا؟ اس اسٹیبلش منٹ نے اچانک جمہوریت کا علم کیسے اٹھا لیا؟ اس اسٹیبلش منٹ نے اچانک ووٹ کو عزت دینے کی کیوں ٹھان لی، اس اسٹیبلش منٹ کو اچانک پارلیمان کی سپرمیسی کیسے یاد آ گئی، اس اسٹیبلش منٹ کو اچانک عوام کی کیوں فکر پڑ گئی؟

تین سال پہلے یہی لوگ تھے، یہی ملک تھا کہ یہاں وقت کا پہیہ الٹا چل رہا تھا، عزتیں اچھالی جا رہی تھیں، نفرت پھیلائی جا رہی تھی، آئین کی دھجیاں اڑائی جا رہی تھیں، قانون کو کھلونے کی طرح استعمال کیا جا رہا تھا، میڈیا کو وٹس ایپ کے احکامات کی باندی بنا دیا گیا تھا ؛ ایسے میں اچانک یہ کایا کیسے پلٹ گئی؟

یہ سب کچھ اب بھی نہ ہوتا اگر معیشت کے حالات ایسے نہ ہوتے، اگر ڈالر کی پرواز ایک سو اسی تک نہ پہنچ چکی ہوتی، اگر پٹرول کی قیمت ایک سو پچاس لیٹر تک پہنچنے کا امکان نہ ہوتا، اگر چینی دو سو روپے تک ملنے کا امکان نہ ہوتا، اگر بے روزگاری کی شرح عروج پر نہ جا پہنچتی، اگر غربت لوگوں کو خود کشی پر مجبور نہ کرتی، اگر معیشت اچھی ہوتی تو کسی کو جمہوریت، نواز شریف یا ووٹ کی عزت یاد نہ آتی۔ مسئلہ یہ ہے کہ ابھی تو صرف معاشی تباہی کی ابتدا ہے، آنے والے دن اس سے بھی خوفناک ہیں۔ اگر آئی ایم ایف کا پیکج نہیں ملتا تو اس ملک میں گاؤں کے گاؤں غربت سے اجتماعی خودکشی کریں گے، پٹرول ”ساشے“ میں ملا کرے گا اور چینی دانہ بہ دانہ فی درجن دستیاب ہو گی۔ جن کے پاس نوکریاں ہیں وہ بھی بے روزگار ہو جائیں گے، حکومت پاکستان کے پاس تنخواہیں دینے کے پیسے نہ ہوں گے، دفاعی اخراجات کے لیے ملنے والے قرضے بھی ختم ہو جائیں گے، یہ سب کچھ اگلے تین ماہ میں ہو سکتا ہے۔

اس موقع پر تبدیلی لانے والے جمہوریت کے حق میں نہیں ہو گئے بلکہ اپنی جان بچانے کی فکر میں ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کسی طرح بھی کوئی اور حکومت آ جائے اور ان کی گردن کا پھندا کسی اور کے گلے میں فٹ آ جائے، لوگ انھیں برا بھلا کہنے کے بجائے کسی اور کو گالیاں دیں گویا اس طویلے کی بلا جس بندر کے سر ہے وہ قربانی کے لیے کسی اور بکرے کی تلاش میں ہے۔ بس اتنی سی بات ہے، اس کے علاوہ کوئی مسئلہ نہیں ہے انھیں اس نظام سے، نئے پاکستان سے۔

معیشت کے حالات اب ایسے ہو گئے ہیں کہ اب اس کو درست سمت پر لانے کے لیے کئی برس درکار ہیں، بدترین گورنس کی وجہ سے اب بھوک مہنگائی اور غربت کو ختم کرنے کے لیے چند سال تو لگیں گے، لوگ فوری ریلیف کی توقع کر رہے ہیں جو اب کسی کے اختیار میں نہیں رہا، اب حالات بہت خراب ہو گئے ہیں، اب دیکھنا ہے نواز شریف اس موقع پر اسٹیبلش منٹ کو ریسکیو کرتے ہیں کہ نہیں، ان کے گناہوں کو بوجھ اپنے سر لیتے ہیں کہ نہیں، اس معاملے پر دو مثالیں دینا کافی ہے :

1971 ء کے سانحے کے بعد لوگوں میں جنگ میں شکست کی وجہ سے بہت غم و غصہ تھا، لوگ ہتھیار ڈالنے والوں کو قومی مجرم سمجھتے تھے، لوگ پاکستان کو دولخت کرنے کا ذمہ دار اس وقت کے جرنیلوں کو قرار دیتے تھے، ایسے میں بھٹو نے اسٹیبلش منٹ کی عزت بحال کرنے کا فیصلہ کیا، ہتھیار ڈال دینے والے قیدیوں کا پھولوں سے استقبال کیا، ان کا امیج بہتر کیا، ترانے بنوائے لیکن کیا ہوا؟ اسی اسٹیبلش منٹ نے چھے سال کی قلیل مدت میں اسی محسن کو ایک غلط مقدمے میں پھانسی پر چڑھا دیا۔

کارگل کے ایشو پر بھی یہی ہوا، میاں صاحب نے قومی مفاد میں فوج کی عزت بچائی، ان کا اقبال بلند کیا، ان کے امیج کا خیال رکھا، ان کا مورال ڈاؤن نہیں ہونے دیا لیکن کیا ہوا؟ اسی نواز شریف کو چند ماہ بعد اقتدار سے الگ کر دیا گیا، قید میں ڈال دیا گیا، جلاوطن کر دیا گیا، اکیس سال تک سیاست میں شمولیت پر پابندی لگ گئی۔

اب بھی صورت حال وہی ہے معافی کے خواستگار بس اس بحران سے نکلنا چاہتے ہیں، ایک بار یہ نکل گئے تو پھر وہی ہو گا جو ہماری تاریخ کا تاریک حصہ ہے۔

اس بار عام معافی کے اعلان سے پہلے اسٹیبلش منٹ کی جانب سے گناہوں کا اعتراف ضروری ہے، نفرت کے شعار سے توبہ لازم ہے، الیکشن جیتنے کی قبیح رسم کے اجتناب کا اقرار لازم ہے، آئین توڑنے والوں کو نشان عبرت بنانا ضروری ہے۔ اگر ایسا نہ ہوا تو چند سال کے بعد وہی ہو گا جو ہوتا رہا ہے۔

عمار مسعود

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عمار مسعود

عمار مسعود ۔ میڈیا کنسلٹنٹ ۔الیکٹرانک میڈیا اور پرنٹ میڈیا کے ہر شعبے سےتعلق ۔ پہلے افسانہ لکھا اور پھر کالم کی طرف ا گئے۔ مزاح ایسا سرشت میں ہے کہ اپنی تحریر کو خود ہی سنجیدگی سے نہیں لیتے۔ مختلف ٹی وی چینلز پر میزبانی بھی کر چکے ہیں۔ کبھی کبھار ملنے پر دلچسپ آدمی ہیں۔

ammar has 265 posts and counting.See all posts by ammar

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments