امریکہ کیسے مانے گا؟


ابھی حال ہی میں طالبان وزیر خارجہ کا بیان سامنے آیا ہے کہ ان کی سمجھ میں نہیں آ رہا کہ وہ ایسا کیا کریں کہ امریکہ بہادر انہیں تسلیم کر لے۔

چونکہ افغان بھائیوں سے ہمارے تاریخی، مذہبی، نسلی، معاشی، دفاعی اور پتہ نہیں کون کون سے تعلقات سالوں صدیوں سے چلے آ رہے ہیں۔ ہماری قوم کو ماضی قریب میں مکئی کی سستی بھنی ہوئی چھلیاں، خالص چرس اور پانچ سو والے قالین ہمارے یہی افغان بھائی ہی مہیا کرتے رہے ہیں۔ اس طرح سننے میں آتا ہے کہ ہمارے دیس میں کبھی بہت سے خوفناک اور بغیر کسی پلاننگ کے بہت سے جنگلات ہوتے تھے جس میں اژدہے، بھیڑیے اور دوسرے خطرناک جانور پھرتے ہوتے تھے اور کئی قیمتی جانوں کی ہلاکت کا سبب بنتے تھے۔ ان کو ختم کرنے میں جہاں ہم نے بذات خود بھرپور کردار ادا کیا وہیں اس میں ایک مرتبہ پھر ہمارا ہاتھ بٹایا ہمارے سدا بہار افغانی بھائیوں نے۔ کچھ عرصہ بعد ہی آپ جس طرف نظر دوڑاتے آپ کو جنگل کے بے ترتیب درختوں کی بجائے لکڑی کے خوشنما ٹال نظر آتے جس میں ایک ہی سائز اور رنگ کے لکڑی کے گول ترشادہ ٹکڑے ایک ترتیب سے رکھے آپ کی بصارت کو فرحت بخشتے اور یوں ہمارے باہمی لازوال تعلقات پروان چڑھتے رہے۔

ان حالات میں جب ہمارے یہ دیرینہ بھائی اتنی بڑی فتح کے بعد اس نہ سمجھ آنے والی مشکل میں گرفتار ہیں۔ ہم ان کی یہ مشکل ختم کرنے کے لئے کچھ تجاویز ان کے سامنے رکھتے ہیں۔ تاکہ ماضی میں ہمارے ساتھ کیے جانے والے احسانات کا بھار کچھ کم ہو سکے۔ اس سلسلے میں تو ایک تجویز یہی ہو گی کہ آج کل موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے جنگلات جل کر خاکستر ہو جاتے ہیں اور امریکہ کو اس کا کوئی حل نظر نہیں آ رہا تو ہمارے افغان بھائی جو جنگلات کا صفایا بغیر کسی قدرتی آفت کے کرنے کا تجربہ رکھتے ہیں وہ اپنے فاتح لشکریوں کے ہاتھ سے بندوقیں لے کر ان کو کلہاڑے تھما کر امریکہ بھیج دیں اور امریکہ کے جنگلات کو آگ لگنے سے پہلے ہی خوشنما ٹالوں میں بدل دیں۔ اس سے امریکہ کو قیمتی زرمبادلہ حاصل ہو گا۔ اور وہ اپنے آپ کو طالبان سے دوستی کرنے پر مجبور پائے گا۔

اس طرح شنید ہے کہ امریکہ کی کئی ریاستوں میں Cannibus کی کچھ مقدار اب آپ قانونی طور پر رکھ سکتے ہیں اور اس کو نوش بھی کر سکتے ہیں اس حوالے سے افغانستان اپنی خالص چرس کے سینکڑوں ٹن امریکہ میں موجود اس چرسی برادری کو ڈونیٹ کر سکتا ہے اور رائے عامہ کے ایک فعال طبقے میں اپنے لئے ہمدردی پیدا کر سکتا ہے۔

طالبان نے تقریباً پچھتر فی صد بچیوں کو سکولوں میں واپس قبول کر لیا ہے مسئلہ صرف پچیس فی صد بچیوں کا ہے جو سیکنڈری سکولوں یا کالجوں میں پڑھتی تھیں یہ لڑکیاں خود بڑی ہو گئی ہیں اس میں طالبان کا قصور نہیں ہے اب اتنی بڑی عمر میں طالبان ان کو سکولوں میں نہیں بھیج سکتے بڑی عمر کے بچے آپس میں لڑائی کر سکتے ہیں یا ٹیچرز پر ہاتھ اٹھا سکتے ہیں اور طالبان اتنے پرامن ہیں کہ یہ گوارا نہیں کر سکتے۔ اس کا ایک حل ہے کہ ایک خاص عمر کے بعد بچیوں کے بڑا ہونے پر پابندی عائد کر دی جائے۔ یا امریکہ کو آفر دی جائے کہ آپ ان کو امریکہ لے جا کر پڑھائیں اس تجویز پر امریکی بہت جزبز ہوں گے اور قوی امکان ہے کہ اس مطالبے سے دستبردار ہو جائیں گے۔

اسی طرح خواتین کی حکومتی عہدوں پر تعیناتی کا مسئلہ اس طرح حل ہو سکتا ہے کہ ریلوے، شپنگ، اور مذہبی ہم آہنگی جیسی وزارتوں پر خواتین کا تقرر کر دیا جائے چونکہ ان امور کا پایا جانا افغانستان میں مشکوک ہے تو اس طرح امریکہ کو مطمئن بھی کر لیں گے اور کسی خاتون کی اتھارٹی بھی نہیں ماننا پڑے گی یعنی سانپ بھی مر جائے گا اور لاٹھی بھی نہیں ٹوٹے گی۔

ایک اور تجویز ہے کہ ہمارے قابل ترین ماہرین خزانہ سے مشاورت کے ذریعے آئی ایم ایف، ورلڈ بنک کو بھی خوش کر سکتے ہیں بس مہنگا قرضہ اٹھانا پڑے گا اور بجلی پیٹرول اور کھانے پینے کی چیزیں مہنگی کر نا ہوں گی اس طرح ان عالمی مالیاتی اداروں کے ساتھ شراکت کر کے امریکہ بہادر کو دوستی پر راضی کیا جا سکتا ہے۔ آخر میں تجویز ہے کہ مرشد اعلی سعودی عرب میں جا کر ریفریشر کورسز کر لیں کہ کس طرح اسلامی حکومت کے ہوتے ہوئے بھی امریکہ سے دوستی کے تقاضے پورے کیے جا سکتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments