نوبل پرائز کے حوالے سے کچھ اہم سکینڈلز


نوبل پرائز سب سے پہلے 1901 ء میں دیا گیا تھا اور اس کے بعد سے یہ دنیا کے ”سب سے اہم اور باوقار ایوارڈ“ کی حیثیت حاصل کر چکا ہے۔ تاہم، اس کی تمام تر شان و شوکت کے باوجود، کچھ مخصوص حالات و واقعات کے باعث، نوبل انعامات کی کچھ نامزدگیاں اور کچھ نوازشات، سکینڈلز اور بدنامی سے مبرا بھی نہیں رہیں۔ یہ اعزاز جیتنے والے سینکڑوں میں سے کچھ شخصیات، مفادات کے تصادم یا کچھ اور وجوہات کی بنا پر اعتراضات کی زد میں بھی رہی ہیں۔ یہاں نوبل انعام کے حوالے سے کچھ ایسے ہی سنسنی خیز تنازعوں کا ذکر کرتے ہیں :

کیا الفریڈ نوبل، خود ”موت کا سوداگر“ تھا؟ :

نوبل پرائز کے بانی، ’الفریڈ برن ہارڈ نوبل‘ ( 1833 ء۔ 1896 ء) کی ذات سے ہی ان تنازعات کا آغاز ہوتا ہے۔ ڈائنامائٹ اور دیگر دھماکہ خیز مواد کے سویڈش موجد کے طور پر، الفریڈ نوبل کا عوامی تاثر کچھ خاص اچھا نہیں بتایا جاتا۔ درحقیقت، جب اس کے بھائی کی موت ہوئی، تو ایک فرانسیسی اخبار نے اس قتل کو خود الفریڈ کے ساتھ منسوب کیا اور یہ سرخی چھاپی کہ ”موت کے سوداگر کا بھائی مارا گیا“ ۔ اس کے بعد یہ بھی کہا گیا کہ ”نوبل پہلے سے زیادہ تیزی سے لوگوں کو مارنے کے طریقے تلاش کر کے (ڈائنامائیٹ ایجاد کر کے ) امیر بن گئے۔“ اس کے بھائی کی (مبینہ اور ممکنہ طور پر) یہ قبل از وقت موت ہی بتائی جاتی ہے، جس نے نوبل کو اپنے نام کو ہمیشہ یاد رکھے جانے کی غرض سے نوبل انعامات کا اجراء کرنے کی ترغیب دی۔

ساٹھ لاکھ آدم زاد کا قاتل اور ’امن‘ کا نوبل پرائز؟ :

یہ شاید بیسویں صدی کا سب سے بڑا لطیفہ تھا، کہ 1939 ء میں جرمن ڈکٹیٹر، نازی پارٹی کے بانی اور ہولوکاسٹ کی آڑ میں تقریباً ساٹھ لاکھ یہودیوں کا قتل عام کرنے والے، ’ایڈولف ہٹلر‘ ( 1889 ء۔ 1945 ء) کا نام امن کے نوبل انعام کے لئے نامزد کیا گیا۔ کہا جاتا ہے کہ ایک نامور سویڈش قانون ساز (رکن پارلیمنٹ) نے اس وقت ازراہ مذاق ہٹلر کو نوبل پرائز کے لئے نامزد کیا تھا، جب دنیا، جدید تاریخ کے سب سے خونریز تنازعے کے دہانے پر تھی۔ لیکن کسی کو بھی یہ ”بھونڈا مذاق“ مضحکہ خیز نہیں لگا۔ بلکہ اس مذاق نے دنیا بھر میں ایک ہنگامہ کھڑا کر دیا، اور ”نوبل فاؤنڈیشن“ کی جانب سے یہ نامزدگی فوری طور پر واپس لے لی گئی۔

”نوبل پرائز“ کے مقابلے میں ایک اور ایوارڈ کا اجراء:

اپنی نامزدگی سے قبل، ہٹلر تب غصے میں آگ بگولہ ہو گیا (اور شاید اس غصے میں اس نے اپنے نہ جانے کتنے چشمے توڑے ہوں! ) جب اس کے شدید ترین ناقد، معروف جرمن صحافی ’کارل وان اوسیٹز‘ ( 1889 ء۔ 1938 ء) کو 1935 ء کا نوبل امن انعام دیا گیا۔ یہ غصہ اس قدر شدید تھا، کہ ہٹلر نے اس کے بعد تمام جرمنوں کو نوبل انعام قبول کرنے سے سختی سے منع کر دیا اور اس کے متبادل کے طور پر ’جرمن قومی انعام برائے آرٹ اور سائنس‘ (جرمن نیشنل پرائز فار آرٹ اینڈ سائنس) کا اجراء کیا۔ اگرچہ رچرڈ کوہن ( 1938 ء، کیمسٹری) ، ’ایڈولف بوٹیننڈٹ‘ ( 1939 ء، کیمسٹری) ، اور ’گیرہارڈ ڈوماگ‘ ( 1939 ء، فزیالوجی / میڈیسن) کو اپنے نوبل انعامات سے انکار کرنے پر مجبور کیا گیا تھا، لیکن بعد ازاں (ہٹلر کی وفات کے بعد ) ان جیتنے والوں کو اپنی اسناد اور تمغے دیے گئے۔

’الفتح‘ اور امن کا نوبل پرائز؟ :

شروع سے ”امن کے لئے دیا جانے والا نوبل انعام“ (نوبل پیس پرائز) ہی سب سے زیادہ متنازعہ رہا ہے۔ جس کے بہت سے وصول کنندگان، مبینہ طور پر امن دشمن رویوں کے حامل ہونے کی وجہ سے شدید تنقید کا نشانہ بنتے رہے ہیں۔ ان میں سے سب سے زیادہ قابل ذکر مثالوں میں ”فلسطین لبریشن آرگنائزیشن“ (پی ایل او) کے رہنما، یاسر عرفات ( 1929 ء۔ 2004 ء) بھی شامل ہیں، جنہیں 1994 ء میں ’یتزاک رابن‘ اور ’شمعون پیریز‘ نامی دو اسرائیلیوں کے ساتھ ’اوسلو معاہدے‘ پر کام کرنے کی ستائش کے طور پر، (تینوں کو مشترکہ) نوبل انعام دیا گیا، جو معاہدہ، فلسطین اور اسرائیل کے درمیان امن عمل کا ایک کلیدی اور لازمی حصہ سمجھا گیا۔ تاہم، بہت سے ناقدین کا یہ بھی خیال ہے کہ عرفات جب ’الفتح‘ کے سربراہ تھے، تب ’پی ایل او‘ گروپ، شدید ترین اور قابل مذمت دہشت گردی کی کارروائیوں میں بھی مصروف رہا تھا۔

نوبل انعام لینے سے معذرت کی جراءت:

اگرچہ زیادہ تر لوگ نوبل انعام کو ایک بہت بڑا اعزاز (شاید دنیا کا سب سے بڑا ایوارڈ) سمجھتے ہیں، اور اسے جیتنے کی شدید خواہش رکھتے ہیں، لیکن اس کے دو جیتنے والے اتنے قدآور بھی تھے، جنہوں نے رضاکارانہ طور پر اتنا بڑا ایوارڈ لینے سے صاف انکار کر دیا تھا۔ جن میں سے پہلا نام معروف فرانسیسی فلسفی، ناول نگار، ڈرامہ نویس اور نقاد، ’ژاں پال سارتر‘ ( 1905 ء۔ 1980 ء) کا آتا ہے (جن کی ادبی قامت کو یہ جراءت جچتی بھی ہے!

) ، جنہوں نے ہر قسم کے سرکاری ایوارڈز لینے سے پیشگی انکار کر رکھا تھا، انہوں نے 1964 ء کا نوبل ادبی انعام قبول نہیں کیا۔ جبکہ 1974 ء میں اس فہرست میں عالمی شہرت یافتہ ویتنامی انقلابی، جرنیل، سفارتکار، اور سیاست دان، ’لی ڈک تھو‘ ( 1911 ء۔ 1990 ء) بھی شامل ہو گئے، جن کو ہنری کسنجر کے ساتھ ویتنام جنگ کے خاتمے کے اعتراف میں نمایاں کردار ادا کرنے پر مشترکہ طور پر امن کا نوبل انعام دیے جانے کا اعلان کیا گیا تھا۔ تاہم، تھو نے اسے قبول کرنے سے انکار کر دیا، اور کہا کہ ”ابھی تک امن قائم نہیں ہوا۔“

صرف 6 فیصد خواتین لارییٹس:

اب تک مختلف نوبل انعامات 943 افراد اور 25 تنظیموں کو دیے جا چکے ہیں۔ ان جیتنے والوں میں سے صرف 58 خواتین شامل ہیں، جو کل جیتنے والوں کا صرف 6 فیصد ہیں۔ ان خواتین میں سے بھی کچھ نے دعویٰ کیا ہے کہ نوبل پرائز کمیٹی، ہر سال خواتین کو نظر انداز کرتی ہے۔ اس ضمن میں برطانوی ماہر فلکیات، ’جوسلین بیل برنیل‘ (پیدائش: 1943 ء) کی نظیر، بہترین مثال کے طور پر دی جاتی ہے، جنہوں نے 1967 ء میں ’پلسارز‘ دریافت کیے ، اور بعد ازاں اس موضوع پر اپنے مشیر، ’انٹونی ہیوش‘ کے ساتھ ایک مقالہ شائع کیا۔ تاہم، اس کارنامے پر جوسلین بیل برنیل کے بجائے، صرف ہیوش اور ہیوش کے ایک اور ساتھی، ’مارٹن رائل‘ کو 1974 ء میں پلسارز کی دریافت پر فزکس کا نوبل انعام دیا گیا۔ اس قدم کو دنیا بھر کے ناقدین نے صریحاً زیادتی قرار دیا۔

’ایسٹرازینیکا‘ اور مفادات کا ٹکراؤ:

2008 ء میں معروف جرمن ماہر وائرولوجسٹ، ’ہیرالڈ زور ہاسن‘ (پیدائش: 1936 ء) کو انسانی پیپیلوما وائرس (ایچ پی وی) اور اس کے سروائیکل کینسر سے تعلق کی دریافت کے اعتراف میں فزیالوجی / میڈیسن کا نوبل انعام دیا گیا۔ اس اعزاز میں مسئلہ، دنیا کی معروف دوا ساز کمپنی ’ایسٹرازینیکا‘ کے ساتھ فاتح اور ان کو فاتح بنانے والے کچھ افراد کا بالواسطہ یا بلا واسطہ تعلق بنا، کیونکہ ’ایسٹرازینیکا‘ ہی نے ’ایچ پی وی‘ کی یہ ویکسین تیار کی تھی، اور اسی کمپنی نے نوبل انعام کی ویب سائٹ کو بھی سپانسر کیا تھا۔

اس کے علاوہ، اس جیوری پینل کے 2 ارکان، جنہوں نے زور ہاؤسن کو نوبل پرائز کا حقدار منتخب کیا تھا، ان کے تعلقات بھی ’ایسٹرازینیکا‘ کے ساتھ ثابت ہو گئے تھے۔ اگرچہ اس ضمن میں واضح طور پر کبھی بھی کسی غلط کام کے حوالے سے کوئی ٹھوس ثبوت ابھی تک ظاہر نہیں ہوا، لیکن مفادات کے ٹکراؤ (کانفلٹ آف انٹریسٹ) کی وجہ سے یہ نامزدگی اور اعزاز کی عطا، شدید تنقید کا نشانہ رہی۔

جاتے جاتے یہ بھی سنتے جائیے کہ 1901 ء سے اب تک، نوبل انعامات 49 مرتبہ ( 49 برسوں کے دوران) نہیں دیے گئے، ان میں سے زیادہ تر پہلی اور دوسری جنگ عظیم کے دوران والے سال شامل ہیں۔ اور یہ بھی کہ جرمن امن پسند اور صحافی ’کارل وون اوسیٹزکی‘ ، میانمار کی سیاستدان ’آنگ سان سوچی‘ ، اور چینی انسانی حقوق کے کارکن ’لیو ژاؤبو‘ ، ایسے تین نوبل امن انعام یافتہ لارییٹس ہیں، جن کو جس وقت نوبل انعام سے نوازا گیا تھا، اس وقت وہ زیر حراست تھے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments