ولی وارثوں کے معاہدے اور ایک نافرمان کے کچھ سوالات


خوشیوں بھری خبریں تو شاید پاکستانیوں کے نصیب میں لکھی ہی نہیں گئیں۔ تحریک طالبان پاکستان، تحریک لبیک پاکستان اور تحریک انصاف پاکستان ایک صفحے پر۔ ان تینوں جماعتوں میں ایک قدر تو مشترک تھی ہی کہ تینوں جماعتوں نے اپنی اپنی بساط کے مطابق عام پاکستانیوں کا جینا دوبھر کر رکھا تھا۔ اور ریاست پاکستان کو ناقابل تلافی نقصان پہنچانے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی تھی۔ مگر یہ تینوں یوں شیر و شکر ہو جائیں گے یہ کبھی تصور بھی نہیں کیا تھا۔ بہرحال اب ان کا ایک صفحے پر آنا ’عام پاکستانی کی مشکلات میں مزید اضافہ کرے گا۔ سیاست میں بھی مار دھار، قتل و غارت، گھیراؤ جلاؤ والا عنصر پھر سے آ جائے گا۔ بالخصوص تحریک طالبان پاکستان سے کیا گیا ممکنہ امن معاہدہ، وطن عزیز کے امن کے لیے خطرے کی گھنٹی ثابت ہو گا۔

ہمارے آبا و اجداد نے ایک آزاد مملکت کی خاطر بے لوث قربانیاں دیں۔ اور ان کی یہ بدنصیبی کے ان کی چوتھی نسل بھی خوف اور غلامی کے سائے میں پل رہی ہے۔ خوف کا یہ عالم کہ اپنے گھر میں بھی کوئی محفوظ نہیں۔ اور غلامی اس قدر کہ کوئی گروہ بھی طاقت کے بل بوتے پر سجدہ بجا لانے پہ مجبور کر دے۔ کیا اس ریاست کے مالک و مختار، ایوانوں میں بیٹھے ہوئے کارندے بتا سکتے ہیں۔ تحریک طالبان پاکستان سے لڑتے ہوئے شہید ہونے والے ایک فوجی جوان کی ماں کو ایسے کسی بھی طے پانے والے امن معاہدے کے مندرجات کیسے سمجھ میں آئیں گے؟

تحریک لبیک کے دھرنے کو روکتے ہوئے شہید ہونے والے پولیس اہلکار کے بیٹے کو کیسے کوئی سمجھا پائے کہ تحریک لبیک کو قومی سیاست کے دھارے میں لانا ناگزیر تھا؟ کیا ریاست اس قدر کمزور ہے کہ کوئی بھی کالعدم تنظیم یا طاقتور گروہ اسلام آباد کی طرف بڑھنے لگے گا تو خفیہ معاہدے مجبوری بن جائیں گے؟ کیا تحریک لبیک کے سابقہ دھرنوں اور موجودہ دھرنے کے نتیجے میں ہونے والے جانی و مالی نقصان کا ازالہ ممکن ہے؟ کیا ہم نے اپنے بچوں کو قتل کروا کر ہی ’دشمن کے بچوں کو پڑھانا ہے؟

کیا تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ مل بیٹھنا اے پی ایس سکول کے بچوں کی ماؤں یا ان جیسے ہزاروں پھولوں کی ماؤں سے نا انصافی نہیں ہو گی؟ کیا تحریک طالبان پاکستان سے سابقہ چھے امن معاہدوں کی ناکامی کسی ساتویں معاہدے کی کامیابی کی ضمانت ہے؟ کیا امن مذاکرات شروع کرنے سے پہلے آپ نے ہزاروں شہید شہریوں یا سینکڑوں شہید فوجی افسران و جوانوں کے غمزدہ لواحقین کو اعتماد میں لینا مناسب نہیں سمجھا؟ کیا قوم ان مفادات کے بارے جان سکتی ہے۔ جن کی خاطر آپ شکست زدہ تحریک طالبان پاکستان سے امن مذاکرات کے لیے اتنے بے چین ہیں؟

کیا اس ملک کا ہر باشندہ اپنی زندگی کی بھیک ان انسانیت کے قاتلوں سے مانگے گا؟ کیا ریاست ماں جیسی نہیں ہوتی؟ کیا ہماری نسلیں ہم سے سوال نہیں کریں گی کہ آپ لوگ ملک و قوم کے محافظ نہ بن سکے؟ کیا ان ممکنہ معاہدوں پر عمل پیرا ہونے سے پہلے ہر قابل احترام جج اور عزت مآب جنرل کو اپنے حلف نامے کو پھاڑ ڈالنا نہیں چاہیے؟ کیا میں اپنے آبا و اجداد کی قبروں پر جا کر چیخ سکتا ہوں کہ آپ کی قربانیاں رائگاں گئیں؟ کیا محب وطن یا درد دل رکھنے والے لوگوں کو جینے کا حق ملے گا کبھی؟ یا چور اچکوں، قاتلوں، درندوں، لٹیروں کو معصوم پاکستانیوں کے لہو کو چوسنے کا اختیار دیا جاتا رہے گا۔

یقیناً اس ماں جیسی ریاست کے ولی وارثوں کے پاس نا تو کوئی جواب ہے اور نا ہی احساس۔ ان کی آنکھوں پر ہوس و لالچ کی پٹی بندھی ہے۔ ان لوگوں کو اپنے مفادات عزیز ہیں۔ ان کے لبوں کو وطن عزیز کے غریب بچوں کے لہو کی لت پڑ گئی ہے۔ ہمیں سمجھنا ہو گا ہمارے بچوں کے قاتل دہشت گرد نہیں بلکہ ایوان زیریں و بالا میں بیٹھا ہر معزز رکن ہے۔ یہ وطن جھوٹی دیویوں کے نرغے میں ہے۔ جن کے پجاری ان دیویوں اور دیوتاؤں کی خوشنودگی کے لیے ہم غریبوں کو ایسے معاہدوں کی صورت ان کی بھینٹ چڑھا رہے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments