مہنگائی کے خاتمے اور معیشت کے استحکام کے لئے حکمت عملی


چند روز قبل جاپان انٹرنیشنل کوآپریشن ایجنسی (جائیکا) کے سکالرشپ پر جاپان میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لئے گئے ہوئے ایک دوست نے واپسی پر ملاقات کی خواہش کا اظہار کیا۔ مختلف امور پر بحث کے دوران جب پاکستان میں مہنگائی کی نئی لہر پر بات ہوئی تو محمد ہارون جو وفاقی حکومت میں ڈپٹی سیکرٹری ہیں انھوں نے دلچسپ انکشاف کیا کہ پاکستان میں جو نعمتیں مڈل اور لوئیر مڈل کلاس افورڈ کر سکتی ہے جاپان میں ان کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔

اگرچہ وہاں فی کس آمدنی زیادہ ہے لیکن پھر بھی جاپانی ہماری طرح پرتعیش زندگی کی بجائے سادہ زندگی گزارنے پر قانع ہیں۔ یہی حال کم وبیش باقی ترقی یافتہ ممالک کا ہے۔ اگر ہمارے ہاں کی قیمتوں کا موازنہ ان ممالک سے کیا جائے تو زمین و آسماں کا فرق ملے گا۔ پاکستان کو اللہ تعالیٰ نے جن نعمتوں سے نواز رکھا ہے اس پر ہم جتنا شکر کریں وہ کم ہے۔ مثال کے طور پر جو تربوز ہم یہاں سو روپے میں خریدتے ہیں جاپان میں وہ سات ہزار روپے کا پڑتا ہے، یہی حال دوسری روزمرہ اشیائے ضرورت کا ہے۔

ایک آدمی کی روزانہ کی صرف خوراک کی ضروریات پوری کرنی کے لئے وہاں کم ازکم پچیس سو روپے درکار ہوتے ہیں۔ ہم خوش قسمت ہیں کہ پاکستان ایک زرعی ملک ہے جس کی وجہ سے روزمرہ استعمال کی چیزیں یہاں وافر تعداد میں اور با آسانی دستیاب ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ زراعت کو صنعتی بنیادوں پر ترقی دی جائے تاکہ کسان اپنی زمینوں میں فصل اگائے اور لینڈ مافیا کو زرعی زمینیں بیچنے کے عمل کی حوصلہ شکنی ہو سکے۔ ساری دنیا میں لوگ فلیٹوں میں رہتے ہیں جبکہ ہم زرعی زمینوں پر فارم ہاؤس اور بڑے بڑے گھر بنانے کو ترجیح دیتے ہیں۔

یہ رجحان ایک طرف کرپشن کو فروغ دیتا ہے تو دوسری طرف محروم طبقات کی محرومی میں اور اضافہ کرتا ہے۔ پنجاب میں جس طرح ہر شہر میں دھڑا دھڑ زرعی رقبے پر ہاؤسنگ سکیمیں بن رہی ہیں اگلی چند دہائیوں میں یہاں زراعت کا مستقبل تاریک نظر آتا ہے۔ لہٰذا حکومت کو فوری طور پر قانون سازی کرتے ہوئے کنسٹرکشن کے شعبے میں چھوٹے گھروں اور تمام سہولتوں سے آراستہ فلیٹس کی تعمیر کے رجحان کو فروغ دینا چاہیے۔ پاکستان میں پراپرٹی کے شعبے میں توازن نہیں ہے۔

پراپرٹی میں سرمایہ کاری پاکستان میں سب سے منفعت بخش سمجھی جاتی ہے جس کا ملکی معیشت میں کوئی بہت زیادہ کردار نہیں، اس سے صرف چند لوگوں کو فوائد پہنچتے ہیں۔ کوئی خالی قطعہ اراضی یا پلاٹ معیشت سدھارنے میں کوئی کردار ادا نہیں کر سکتا۔ دوسری طرف کسی کے پاس رہنے کو چھت تک نہیں اور کسی کے پاس بیس بیس پلاٹ ہیں۔ اس لئے سفید پوش اپنا گھر بنانے کا خواب پورا نہیں کر سکتا۔ حکومت کو ایک فرد کے لئے دو سے زیادہ رہائشی اور کمرشل پلاٹ خریدنے پر پابندی لگانا ہو گی تاکہ سفید پوش بھی پراپرٹی خرید سکیں۔

زیادہ تر پاکستانی اپنی ماہانہ آمدن کا معقول حصہ کرایہ جات کی مد میں خرچ کرتے ہیں جس سے ان کی خریدنے کی سکت متاثر ہوتی ہے اور وہ مہنگائی میں معمولی اضافے کو بھی برداشت نہیں کر سکتے۔ سست روی کی شکار پاکستانی معیشت کو تیز رو کرنے کی اشد ضرورت ہے کیونکہ سرکاری اور پرائیویٹ سیکٹر میں روزگار کے واقع نہ ہونے کے برابر ہیں۔ مہنگائی میں اضافہ لیکن آمدن میں کوئی اضافہ نہیں ہو رہا۔ پاکستان میں فی کس آمدنی بڑھانے کے لئے اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے کیونکہ تاریخ میں مہنگائی کبھی کم ہوتی ہوئی نظر نہیں آئی۔

قابل عمل حل صرف یہی ہے کہ کسی طرح لوگوں کی آمدن میں اضافے اور روزگار کے نئے مواقع پیدا کرنے کی طرف توجہ دی جائے۔ ایسا تب ہی ممکن ہو گا جب مقامی صنعت کو اس کے پاؤں پر کھڑا کیا جائے اور بیرونی سرمایہ کاری کو فروغ دیا جائے۔ مہنگائی کو کنٹرول کرنے اور معیشت کو بہتر بنانے کے لئے ہمہ جہت پالیسیوں کو اپنے کی ضرورت ہے اور ایکسپورٹس و امپورٹس کے فرق کو کم کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ میگا پراجیکٹس جیسے موٹر ویز، ریل اور توانائی وغیرہ کے پراجیکٹس کا آغاز کیا جائے اور جاری منصوبوں پر کام کی رفتار کو تیز کیا جائے۔

خاص طور پرسی پیک کے منصوبوں کو ترجیحی بنیادوں پر مکمل کیا جائے۔ اس مقصد کے لئے بیرونی قرضے لینے میں کوئی حرج نہیں کیونکہ دنیا کے تمام ترقی یافتہ ممالک نے بیرونی قرضہ جات سے ہی اپنی معیشت کو پٹڑی پر ڈالا ہے اور اپنی عوام کا معیار زندگی بلند کیا ہے۔ امریکہ، برطانیہ، جاپان، فرانس، جرمنی، سپین، آسٹریلیا، کینیڈا اور سوئٹزرلینڈ جیسے ممالک اپنی کل جی ڈی پی سے زیادہ قرض کی ادائیگی پر خرچ کر رہے ہیں۔ امریکہ اپنے کل جی ڈی پی کی شرح کا ایک سو دو فیصد اور ساری دنیا کو لوٹنے والا برطانیہ اپنے کل جی ڈی پی کی شرح کا ساڑھے تین سو فیصد بیرونی و اندرونی قرضہ جات کی ادائیگی پر خرچ کرتا ہے۔

بڑھتی ہوئی آبادی، بے روزگاری اور مہنگائی کے طوفان کو روکنے کے لئے ہمیں معیشت میں نئے مواقع جات کو بھی فروغ دینا ہو گا۔ سیاحت خاص کر مذہبی سیاحت، میڈیا، شوبز، ماحولیات، غذائی اجناس کی برآمد اور آرٹیفیشل انٹیلی جنس ایسے سیکٹرز ہیں جہاں روزگار کے لاکھوں نئے مواقع پیدا ہو سکتے ہیں جبکہ پہلے سے موجود ٹیلی کام، آئی ٹی، بینکنگ اور رئیل اسٹیٹ سیکٹر کو مزید وسعت دینے کی ضرورت ہے تاکہ روزگار کے زیادہ مواقع پیدا ہو سکیں۔

بین الاقوامی ڈونر ایجنسیز کو پاکستان میں کام کی اجازت دینے سے بھی ہمارے نوجوانوں کو اچھی ملازمتوں کے مواقع میسر آ سکتے ہیں۔ اگر موجودہ افغان صورتحال کے تناظر میں بین الاقوامی ڈونر ایجنسیز کو پاکستان کی سرزمین پر اپنے دفاتر بنانے کی دعوت دی جائے تو ہمارے نوجوانوں کو نئے مواقع میسر آ سکتے ہیں۔ جبکہ دنیا میں اپنے خراب تصور کو بہتر کرنے کے لئے بھی ہمیں متعدد اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ خاص طور پر پڑوسی ممالک کے ساتھ تصادم کی بجائے پرامن بقائے باہمی کے اصول کے تحت نئے سرے سے تعلقات استوار کرنے کی ضرورت ہے اور دو طرفہ تجارت اس میں اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ روایتی تعلیم سے زیادہ غیر روایتی یا ہنرمندی اور فنی تربیت کے شعبوں پر زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ حکومت نے غریب طبقے کو مہنگائی سے نجات دلانے کے لئے جو ریلیف پیکج دیا ہے وہ قابل تحسین ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ غربت کے خاتمے کے لئے قائم اداروں کی کارکردگی مزید بہتر بنانے اور انھیں مزید وسائل دینے کی بھی بہت ضرورت ہے۔ ملکی معیشت اور نظام حکومتی اداروں کا مرہون منت ہوتا ہے۔ ضرورت اس امر کی بھی ہے کہ حکومت میں ادارہ جاتی اصلاحات کی جائیں اور حکومتی اداروں میں میرٹ اور اہلیت کے معیار کو بہتر کیا جائے۔

اس سب کے ساتھ ساتھ ہمیں اپنے ملک کا بینکنگ کا نظام ایسا بنا نا ہو گا کہ جس پر سرمایہ دار طبقہ اعتماد کر سکے اور اپنا پیسہ بیرون ممالک لے جانے کی بجائے ملکی بینکوں میں اس کو محفوظ سمجھے جبکہ کرپشن کی روک تھام کے لئے متعلقہ اداروں کو معیشت کا پہیہ جام نہ کرنے کے لئے خصوصی تربیت دینے کی بھی ضرورت ہے۔ معیشت کو بہتر کرنے اور مہنگائی کو کنٹرول کرنے کا کوئی شارٹ کٹ طریقہ نہیں ہے اور صرف ہمہ جہت، دیرپا اور مثبت و موثر پالیسیاں ہی صورتحال کو بہتری کی طرف لے جانے کے لئے معاون ثابت ہو سکتی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments