یہ وہ لاہور تو نہیں ہے؟



لاہور کے بارے میں ٹی وی چینلوں پر چلتی اس خبر نے چونکا دیا کہ دنیا کے آلودہ ترین شہروں کی فہرست میں لاہور پہلے نمبر پر آ چکا ہے۔ حیرت یوں ہوئی کہ لاہور جس پر تھل جیسے پسماندگی کی دلدل میں گوڈے گوڈے دھنسے علاقہ کے فنڈز تک خرچ کرنے کے باوجود اگر لاہور آلودگی کی لپیٹ میں اس حد تک آ چکا ہے کہ پاکستان نہیں دنیا کے شہروں کو پیچھے چھوڑا کر پہلی صف میں آ کھڑا ہوا ہے تو یہاں سوال یہ اٹھتا ہے کہ پھر تھل کی کیا حالت ہوگی؟

جس تھل کے ساتھ قیام پاکستان سے لے کر آج تک سوتیلی ماں سے بھی بدتر سلوک ہو رہا ہے؟ یہ بات ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ ریاست اور حکومتوں نے مل کر تھل جیسے علاقہ کو میگا پراجیکٹس چھوڑیں ’بنیادوں منصوبوں میں بھی نظرانداز کیا اور کیے جا رہے ہیں؟ اور میں دوبارہ عرض کر رہا ہوں کہ جس لاہور کو پیرس بنانے کے دعوے کیے گئے تھے‘ اور اگر وہ بھی اب سانس لینے کے قابل بھی نہیں رہ گیا ہے تو اس ایشو پر بات کرنے ضرورت ہے؟

احتجاج کرنے کی ضرورت ہے؟ لاہور کو اس صورتحال سے دوچار کرنے والوں کو جوابدہ کرنے کی ضرورت ہے۔ افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ ابھی تک حکومت پنجاب کی طرف سے وضاحت نہیں آئی ہے کہ لاہور آلودگی کی اس نہج تک کن کن کی وارداتوں کی وجہ سے پہنچا ہے؟ حکومت کی طرد سے خاموشی ہے بلکہ مجرمانہ خاموشی ہے؟ شاید ان کے لئے لاہور کا یوں بند گلی میں داخل ہونا کوئی معنی نہیں رکھتا ہے؟ میرے ذہن میں لاہور کے حوالے سے سامنے آنے والے سوالوں میں سے ایک سوال یہ بھی تھا کہ کیا لاہور شروع سے اسی طرح کا تھا کہ لوگ سانس نہیں لے سکتے تھے یا پھر کچھ اور صورتحال تھی؟

’اس سوال کے جواب کے لئے راقم الحروف کے لئے ضروری تھا کہ تاریخ کے اوراق سے لاہور کو دیکھا جائے‘ اس کا نظارہ کیا جائے؟ اور پھر موازنہ کیا جائے۔ یوں اب وقت ضائع کیے بغیر پیچھے چلتے ہیں اور لاہور کا نظارہ کرتے ہیں۔ لاہور کا ضلع لاہور ڈویژن کے تین اضلاع کے وسط میں ہے جو شمال میں عرض البلد 30، 37، اور 31، 54 اور مشرق میں طول البلد 37، 40 اور 75، 1 پر واقع ہے۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ یہ علاقہ ایک بے قاعدہ مربع شکل کا ہے۔

اس کی جنوب مشرقی سرحد دریائے دریائے ستلج کے ساتھ اور شمال مغرب میں سید زاویہ ستلج اور پھر باری دوآب اور راوی سے ہوتا ہوا رچنا دوآب سے جا ملتا ہے۔ اس کی شمال مغربی سرحد راوی کے دائیں کنارے 23 میل تک محیط ہے۔ ضلع کی شمال سے جنوب تک زیادہ سے زیادہ لمبائی 65 میل اور مشرق سے مغرب زیادہ سے زیادہ چوڑائی 75 میل ہے۔ ضلع لاہور کے شمال مغرب میں ضلع گوجرانوالا ’شمال مشرق میں امرتسر اور جنوب مشرق میں دریائے ستلج واقع ہے جو اسے ضلع فیروز پور سے الگ کرتا ہے۔

اس کے جنوب مغرب میں منٹگمری واقع ہے۔ ضلع لاہور کی چار تحصیلیں ہیں جن میں تحصیل شرقپور میں راوی پار کا علاقہ اور تحصیل چونیاں میں جنوب مغربی علاقے کا نصف حصہ شامل ہے جبکہ نصف شمال مشرقی علاقہ تحصیل لاہور کا حصہ ہے جو دریائے راوی‘ قصور تحصیل اور ستلج کے ساتھ واقع ہے۔ ضلع کا انتظامی صدر مقام اس کی شمال مشرقی سرحد سے 23 میل دور دریائے راوی پر لاہور شہر میں واقع ہے۔ ضلع لاہور کی زمین کی سطح اور زرخیزی مختلف علاقوں میں ایک دوسرے سے خاصی مختلف ہے۔

اس کا انحصار بیاس ’راوی اور ڈیک دریاؤں کے رخ پر ہے۔ ستلج اور راوی کے درمیان چوڑی پٹی میں شمال کی جانب بہترین کاشتکاری ہوتی ہے البتہ جنوب کی سمت زمین بے آب و گیاہ اور بنجر ہے۔ جہاں چھوٹی چھوٹی جھاڑیاں اونٹوں کے چارے کا کام دیتی ہیں۔ یہاں آباد دیہات ایک دوسرے کے فاصلے پر ہیں لیکن اس علاقے میں جگہ جگہ تالاب اور کنووں‘ مسمار عمارتوں اور قدیم قلعوں کے آثار دکھائی دیتے ہیں۔ جن سے ماضی کی خوشحالی کی عکاسی ہوتی ہے۔

یہ علاقے ماجھے کے نام سے موسوم ہے۔ جو سکھ مذہب کے پیروکاروں کا گڑھ ہے۔ یہ علاقہ بیاس اور ستلج کے سنگم سے چند میل دور ہے۔ یہ ایک مثلث نما علاقہ ستلج تک پھیلا ہوا ہے۔ ماجھے کے نیچے مختصر فاصلے پر بیاس کے قدیم بہاؤ کے آثار واضح طور پر دکھائی دیتے ہیں۔ راوی کی وادی بہت تنگ ہے اس کی چوڑائی دو سے تین میل ہے۔ دریا کے اس پار زیادہ تر زمین بنجر یا وہاں جنگلات ہیں۔ دریا کے جنوب مشرق میں کھیتی باڑی ہوتی ہے۔ یہ علاقہ گیارہ میل تک راوی کے متوازی چلا جاتا ہے۔

راوی پنجاب کے پانچ دریاؤں میں سے سب سے چھوٹا دریا ہے۔ تنگ پاٹ اور پیچ و خم کے باعث یہ دریا کشتی رانی کے مقصد کے لئے موزوں نہیں۔ اس کا قدیم نام ہندوستانی دیو مالی قصوں کے ہاتھی کے نام ایرواتی ’اسٹرابوکے ہیاروتس‘ آریاؤں کے بدراوتس پنولمی کے ایدرلس اور عرب جغرافیہ دان مسعودی کے راعید سے مشتق ہے۔ (وائلڈ فورڈ نے اپنی کتاب Sacred Isles of west ایشاء ٹک ریسرچرز جلد ہشتم میں لکھا ہے کہ بظاہر دریا راوی دریا کا نام نہیں بلکہ کسی قبیلے کا نام معلوم ہوتا ہے۔

یہاں یہ ذکر نے جا نہ ہو گا کہ ضلع منٹگمری میں بعض ایسے قبیلے موجود ہیں جو خود کو عظیم راوی کہتے ہیں ) ۔ دریائے راوی امرتسر کے گاؤں ایچوگل سے ضلع لاہور میں داخل ہوتا ہے۔ اور الپاکلاں نامی گاؤں کے قریب منٹگمری کی سرحد پر اختتام پذیر ہوتا ہے۔ یہ دریا پورے ضلع لاہور سے گزرتا اور لاہور شہر سے ایک میل کے فاصلے پر بہتا ہے۔ آگے چل کر اس کی کئی شاخیں بنتی ہیں۔ جو آخرکار بڑے دھارے میں شامل ہوجاتی ہیں۔ لکھو ڈھیر اور اور لاہور شہر کے قریب واقع شاخیں خاص طور قابل ذکر ہیں۔

لاہور پشاور روڈ پر راوی کے اوپر کشتیوں کا ایک پل تعمیر کیا گیا ہے۔ کشتیوں کا پل سارا سال کھلا رہتا ہے۔ سردیوں کے موسم میں پانی کے بہاؤ کی اوسط رفتار تقریباً تین میل فی گھنٹہ ہوتی ہے۔ اس کا پاٹ ریت اور مٹی سے بھرا ہوا ہے۔ فی الحال لاہور اتنا ہی ’باقی احوال اگلے کالم میں کرتے ہیں!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments