مسئلہ کشمیر کی ذمہ داری اقوام متحدہ پر


کشمیر کا مسئلہ ہے گزشتہ 74 برسوں سے چلا آ رہا ہے اور آج تک حل ہونے کا نام نہیں لے رہا۔ تقسیم ہند کے وقت برطانیہ اور بھارت نے سازش کے تحت پاکستان کو اس کے استحقاق سے کم حصہ دیا پھر بہت سے ایسے علاقے جنہیں پاکستان کا حصہ بننا تھا، بھارت کے حوالہ کر دیے گئے۔ لارڈ ماؤنٹ بیٹن اور گاندھی نے مل کر پاکستان کو اس کے حق سے محروم رکھا اور بالخصوص برطانیہ نے کشمیر کے مسئلے کو سازش کے تحت حل نہیں کیا اور فتنہ کے طور پر چھوڑ دیا۔

بھارت نے کشمیر کے تقریباً 63 فیصد حصے پر نا جائز قبضہ کر رکھا ہے اور اس مسئلہ کے حل میں اپنے جارحانہ روئیے کے باعث رکاوٹ بنا ہوا ہے۔ اس دوران کئی بار مذاکرات ہوئے، تین جنگیں بھی ہوئیں، مسئلہ کو اقوام متحدہ میں بھی اٹھا یا گیا مگر عالمی طاقتیں بھی اس مسئلے کا حل ابھی تک نہیں نکال سکیں۔ بھارت ہر بار اپنی من مانی پر اتر آتا ہے اور ظلم و تشدد کرتا آ رہا ہے۔ ہر دہائی میں بھارت کے خلاف تحریک چلتی آ رہی ہے۔ 5 اگست 2019 ء کو مقبوضہ کشمیر میں کرفیو لگے ہوئے 2 سال سے زائد عرصہ ہو گیا مگر بھارت ابھی تک کرفیو اٹھانے کا نام ہی نہیں لے رہا۔

اس میں کوئی دوسری رائے نہیں ہو سکتی کہ اکثریت کشمیری عوام کی وابستگی پاکستان کے ساتھ ہے۔ بھارت کے ساتھ الحاق یا اس کے ساتھ رہنا انہیں کسی صورت قبول نہیں اور اس کا مظاہرہ لاکھوں جانوں کی

قربانیاں ہیں جو کشمیری عوام اب تک دے چکے ہیں۔ اکثر کشمیری عوام پاکستان کے ساتھ الحاق کو ہی کشمیر کی آزادی سمجھتے ہیں۔ جب سے پاکستان بنا ہے اس کے بعد سے ابھی تک بہت سے تحریکیں چلتی آ رہی ہیں کہ کشمیر کو پاکستان کا حصہ بننا چاہیے، جبکہ کچھ ایسی بھی چلی کے کشمیر کو آزاد ہونا چاہیے، جو بھارت یا پاکستان کے کنٹرول میں نہ ہو، اپنے فیصلے خود کرے۔ اب تک ایک بھی تحریک ایسی نہیں چلی کہ جس میں کشمیر کو بھارت کا حصہ بنانے کا مطالبہ کیا گیا ہو۔ کشمیریوں نے ہمیشہ پاکستان زندہ باد اور بھارت مردہ باد کے نعرے لگائے ہیں۔ ہر جگہ بھارت کی خواہش کو مسترد کیا ہے اور پاکستان کا حصہ بننے کو ترجیح دی ہے، جو کہ ان کا حق ہے۔

بھارت اربوں ڈالر لگا کر لاکھوں کی تعداد میں فوج کشمیر بھیج کر تشدد کرتا رہا ہے اور قتل و غارت کا بازار گرم کر کے کشمیر کو اپنے ساتھ ملانا چاہتا ہے۔ مختلف شہروں میں کرفیو نافذ کر دیا جاتا ہے، خواتین کی بے حرمتی کی جاتی ہے، کھانے پینے کی چیزوں کی فراہمی میں رکاوٹ ڈالی جاتی ہے، علاج کی سہولیات میسر نہیں، اس کے باوجود کشمیری عوام سیسہ پلائی دیوار کی طرح ان کا مقابلہ کر رہی ہیں۔ اسی دوران لاکھوں کی تعداد میں ہندوؤں کو مقبوضہ کشمیر میں آباد کیا گیا تاکہ ہندوؤں کی اکثریت ہو جائے اور مسلمان اقلیت میں ہو جائیں۔ لیکن پھر بھی بھارت کے خلاف اتنے بڑے پیمانے پر مظاہرے ہوئے کہ جن کی کوئی مثال نہیں ملتی، کئی کئی دن مظاہرے ہوتے رہے اس دوران لاکھوں کی تعداد میں مسلمانوں کو شہید کیا گیا، ہزاروں اپاہج ہو گئے۔

کشمیر کا واحد حل ڈائیلاگ سے ہی ممکن ہے کیوں کہ دونوں ممالک ایٹمی طاقت ہیں۔ اس لیے دونوں ممالک جنگ کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ اگر خدانخواستہ کوئی جنگ ہوئی بھی تو دونوں ممالک تباہی کے دہانے پر پہنچ جائیں گے۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ اقوام متحدہ اس مسئلے کا حل کے لیے اپنا موثر کردار ادا کرے۔ تمام قوتوں کو چاہیے کہ اس کے لیے ٹھوس اقدامات کریں اور کشمیریوں کو ان کی امنگوں کے مطابق فیصلہ کرنے دیں۔ 1949 ء کی قرارداد کے مطابق اس کا حل نکالے تاکہ خطے میں امن ہو سکے۔ خطے میں امن پاکستان اور بھارت کے درمیان دوستانہ تعلقات کا بنیادی عنصر ہے۔ اگر ایسا نہیں کیا گیا تو پاکستان اور بھارت ترقی کی راہ پر گامزن نہیں ہو سکتے جو کہ دونوں ملکوں کے لیے کافی نقصان دہ ہو گا۔

پاکستان میں قائم کشمیر کمیٹی کا سب سے پہلا کام یہ ہونا چاہیے کہ وہ آزاد کشمیر میں بننے والے حکومت کے ساتھ مل کر ایک قرار دار اقوام متحدہ میں لے کر جائے اور اس کا حل نکالنے کے لیے موثر پلان پیش کرے جو انڈیا نے مقبوضہ کشمیر میں کرفیو لگایا ہوا ہے۔ تاکہ کشمیر عوام آزادی کی زندگی گزار سکیں۔ اس کے ساتھ حکومت کا بھی فرض بنتا ہے سیاسی بیان بازی کرنے کے بجائے اس کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کرے کیونکہ اس کا واحد حال مذاکرات ہی ہیں نہیں تو دونوں ممالک مزید مشکلات میں ہوں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments