انڈیا کے لیے کوئلے کا استعمال ترک کرنا آسان نہ ہو گا

اکشے دیش مان - بی بی سی


انڈیا
انڈیا میں ستر فیصد توانائی کوئلے سے حاصل کی جاتی ہے
انڈیا کی توانائی کی ضروریات پوری کرنے میں کوئلے کا بڑا حصہ ہے، لیکن یہ صورت حال تبدیل ہونے والی ہے۔ ملک کی کوئلے کی صنعت کا زوال اس صنعت سے وابستہ مزدوروں کے لیے کیا معنی رکھتا ہے۔

انڈیا کی مشرقی ریاست جھارکھنڈ کے ایک چھوٹے سے گردآلو قصبے جھاریہ میں گزشتہ سو سال سے زمین میں آگ لگی ہوئی ہے۔ بیسویں صدی کے شروع میں حادثاتی طور پر لگنے والی یہ آگ اس علاقے میں زیر زمین کوئلے کے ذخائر میں سلگ رہی ہے جس سے مضر گیسیں ہوا میں پھیل رہی ہیں اور اس علاقے میں آبادی بھی متاثر ہو رہی ہے۔

اس آگ کو بجھانے کے لیے اب تک کی جانے والی تمام تر کوششیں ناکام ہو چکی ہیں۔

جھاریہ جہاں انڈیا کے کوئلے کے سب سے بڑے ذخائر موجود ہیں وہ جھارکھنڈ میں کوئلے سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والا علاقہ ہے۔

جھارکھنڈ وسیع کوئلے کے ذخائر کے باوجود انڈیا کی غریب ترین ریاستوں میں سے ایک ہے جہاں آدھی سے زیادہ آبادی خط غربت سے نیچے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہے۔

انڈیا کی یہ مشرقی ریاست ان تمام مسائل کی ایک جیتی جاگتی مثال ہے جو انڈیا کو منظم اور منصفانہ طور پر کوئلے کے استعمال کو ختم کرنے کے دوران پیش آ سکتے ہیں۔

انڈیا نے یہ عزم کیا ہے اور دنیا سے وعدہ کیا ہے کہ وہ سنہ 2030 تک اپنی توانائی کی ضروریات کا 50 فیصد حصہ توانائی حاصل کرنے کے غیر روایتی یا دوبارہ قابل استعمال ذرائع سے پوری کرے گا۔ انڈیا نے سنہ 2070 تک مضر گیسوں کے اخراج کو مکمل طور پر ختم کرنے یا دوسرے الفاظ میں ‘نیٹ زیرو’ کرنے کی بھی یقین دہانی کرائی ہے۔

جھارکھنڈ کی کوئلے کی صنعت آخر کار ختم ہونی ہے اور اس کے ساتھ ہی ملکی سطح پر پورے انڈیا سے بھی۔ اس کے ساتھ ہی کوئلے پر انحصار کرنے والی معیشت کو بھی بدلنا ہو گا اور جن ہزاروں لوگوں کا روزگار اس صنعت سے وابستہ ہے ان کے لیے متبادل ذرائع تلاش کرنے ہوں گے۔

توانائی کے صاف ذرائع کی طرف بڑھنے کے دوران کوئلے کی صنعت پر انحصار کرنے والی برادریوں کو جو مسائل پیش آ سکتے ہیں ان کا اندازہ لگانے کے لیے تجزیہ کاروں کی توجہ جھارکھنڈ کی طرف مبذول ہو رہی ہے جس کی معیشت ہی کوئلے پر چلتی ہے۔ ان ہی تجزیہ کاروں میں سے ایک سندیپ پائی ہیں جو واشنگٹن ڈی سی میں ‘سینٹر آف سٹریٹجک ریسرچ اور انٹرنیشنل سٹڈیز’ سے وابستہ ہیں۔

انڈیا

انڈیا نے سنہ 2070 تک نیٹ زیرو کا ہدف مقرر کیا ہے

خدشہ ہے کہ غیر منظم طریقے سے اس صنعت کو بند کیے جانے سے کئی اضلاع ویران ہو جائیں گے اور ان جگہوں پر رہنے والے لوگ اور برادریاں بری طرح متاثر ہوں گی۔

انڈیا اور جنوبی افریقہ میں کوئلے کی صنعت کےبارے میں ایک تحقیق کے مطابق جس کو مرتب کرنے میں پائی بھی شریک تھے جھارکھنڈ میں تین لاکھ افراد براہ راست اور دس لاکھ سے زیادہ افراد کوئلے کی صنعت اور اس سے متعلقہ دیگر شعبوں میں کام کرتے ہیں۔

اس کے علاوہ دسیوں ہزار مقامی افراد غیر قانونی کان کنوں کے طور پر کام کرتے ہیں جو کوئلے کی ایسی کانوں سے کوئلے نکالتے ہیں جو بند ہو چکی ہیں۔ مجموعی طور پر ریاست میں دس فیصد روزگار کوئلے کی صنعت فراہم کرتی ہے۔

جھارکھنڈ کی ریاست کے آٹھ فیصد محصولات کوئلے کی صنعت سے ہی آتے ہیں۔ زیادہ تر کوئلہ دوسری ریاستوں کو فروخت کر دیا جاتا ہے جن کے پاس اس کو استعمال کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔

پائی کی تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ اگر حکومتی نگرانی کے بغیر جھارکھنڈ کی کوئلے کی صنعت کو بند کیا جاتا ہے تو اس سے مقامی سطح پر روزگار ختم ہو جائے گا، سرکاری محصولات میں کمی آئے گی اور سماجی ترقی کے لیے رقم بھی موصول نہیں ہو گی۔

انڈیا میں کوئلے کی صنعت کی اہمیت کو جتنا بڑھا چڑھا کے بیان کیا جائے کم ہے۔ انڈیا سے زیادہ کوئلہ صرف چین میں استعمال کیا جاتا ہے۔گزشتہ چند سالوں میں کوئلے کا استعمال بڑھا ہے اور سنہ 1970 کے بعد پہلی مرتبہ نجی کمپنیوں کو تجارتی سطح پر کوئلہ نکالنے کے ٹھیکے دیئے گئے ہیں۔ انڈیا کی کئی ریاستوں میں کوئلے سے بجلی پیدا کرنے والے بجلی گھروں کو کوئلہ نہ ملنے کی وجہ سے وہاں بجلی کی فراہمی متاثر ہوئی جو کوئلے پر انحصار کی بڑی مثال ہے۔

انڈیا میں پیدا کی جانے والی بجلی کا ستر فیصد حصہ کوئلے سے چلنے والے بجلی گھروں سے حاصل کیا جاتا ہے۔ ہر سطح پر کوئلے سے ٹیکسوں اور دیگر محصولات کا بڑا حصہ جمع ہوتا ہے اور بے شمار لوگوں کا روزگار اور گزر بسر کوئلے سے ہی ہوتا ہے۔

مثال کے طور پر ‘کول انڈیا’ جو مرکزی حکومت کی کوئلہ نکالنے والی سب سے بڑی کمپنی ہے اور جس کا ملک کی کوئلے کی مجموعی پیداوار میں حصہ اسی فیصد بنتا ہے اُس نے سنہ 2019 میں ایک اندازے کے مطابق پانچ سو ارب روپے یا چھ اعشارہ سات ارب پاؤنڈ مرکزی، ریاستی اور مقامی حکومتوں کو ٹیکسوں اور دیگر محصولات کی مد میں ادا کیے تھے۔

وفاقی حکومت کو حاصل ہونے والے کل محصولات زر میں کوئلے کی صنعت کا حصہ تین فیصد بنتا ہے۔ ‘کول انڈیا’ میں ملازمین کی تعداد دو لاکھ ستر ہزار کے قریب ہے۔ کوئلے کی اس سرکاری کمپنی کے علاوہ سرکاری اور نجی شعبے میں کوئلہ نکالنے والی اور بھی کمپنیاں ہیں اور بہت سی دیگر صنعتیں مثال کے طور پر فولاد کی صنعت کا بھی براہ راست کوئلے پر انحصار ہے۔ اس سے انڈیا میں کوئلے کی صنعت کی اہمیت کا اندازہ لگانے میں مدد ملتی ہے۔

مسئلہ یہ ہے کہ جب کوئلے کو جلایا جاتا ہے تو اس سے بڑی مقدار میں ‘گرین ہاؤس’ یا مضر گیسوں کا اخراج ہوتا ہے۔ عالمی سطح پر گیسوں کے اخراج میں انڈیا کا ایک بڑا حصہ بنتا ہے اور سب سے زیادہ فضائی آلودگی پیدا کرنے والے ملکوں کی فہرست میں اس کا نمبر تیسرا ہے۔ تاہم فی کس آبادی کے حساب سے یہ اس فہرست میں بہت نیچے ہے۔

انڈیا

کوئلہ معیشت کا اہم ستون ہے

انڈیا میں کوئلے سے چلنے والے بجلی گھر بے اندازہ فضائی آلودگی کا باعث ہیں جس کی وجہ سے ہر سال ملک میں دس لاکھ سے زیادہ لوگ ہلاک ہو جاتے ہیں۔

کوئلے کے استعمال کو کم کرنے کے بارے میں عالمی دباؤ کے باوجود اکتوبر سنہ 2021 میں انڈیا کی حکومت نے سنہ 2024 تک ملک کی بجلی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے ایک ارب ٹن کوئلہ پیدا کرنے کا ہدف مقرر کیا ہے۔ انڈیا میں کوئلے کا استعمال مستقبل قریب میں ختم ہوتا نظر نہیں آتا۔

اس کے ساتھ ساتھ انڈیا متبادل ذرائع کی تلاش میں بھی ہے اور حال ہی میں گلاسگو میں ہونے والی کاپ 26 کانفرنس میں اس نے سنہ 2030 تک پانچ سو گیگا واٹ بجلی متبادل ذرائع سے حاصل کرنے کا وعدہ کیا ہے۔ انڈیا نے اگست سنہ 2021 میں متبادل ذرائع سے سو گیگا واٹ بجلی پیدا کرنا شروع کر دی تھی جو کہ برطانیہ کے مقابلے میں دگنی ہے۔ انڈیا نے یہ بھی کہا ہے کہ اس کا ارادہ ہے کہ سنہ 2030 تک وہ اپنی توانائی کی ضروریات کا پچاس فیصد متبادل ذرائع سے حاصل کرنا شروع کر دے گا۔

واضح طور پر انڈیا انتقال توانائی کے دور سے گزر رہا ہے۔ لیکن ایک ایسا ملک جس کی توانائی کی ضروریات میں کسی بھی دوسرے ملک کے مقابلے میں بے اندازہ اضافہ ہونے والا ہے وہاں منظم اور منصفانہ انداز میں توانائی کی پیداوار کو متبادل ذرائع پر منتقل کرنا ایک بہت بڑا چیلنج ہوگا۔ حکومت نے ‘منصفانہ انتقال’ کے اصول کی بنیاد پر ایک خاکہ ترتیب دیا ہے لیکن اس کی تفصیلات عام نہیں کی گئی ہیں۔ اب تک سرکار کی طرف سے کوئی اقدام نہیں لیا گیا ہے۔

پائی کا کہنا ہے کہ عالمی سطح پر ‘منصفانہ انتقال’ کے تجربے سے یہ علم ہوا ہے کہ اس انداز میں متبادل ذرائع پر منتقل ہونے میں کئی دہائیاں لگ سکتی ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ ‘انڈیا جیسے بڑے ملک جس کے وسائل بھی کم ہیں اور جس پیمانے پر منصفانہ اور منظم انتقال کی منصوبہ بندی درکار ہے اس کے لیے حکومت کو ابھی سے تیاریاں کرنی پڑیں گی۔’

اس بارے میں اشارے مل رہے ہیں کہ انڈیا کی طرف سے 2030 کا ہدف حاصل کرنے کے لیے منصوبہ بندی کو شروع کیا جا سکتا ہے۔

انڈیا

انڈیا میں کئی ریاستوں کی معیشت کا بڑا انحصار کوئلے پر ہے

انڈیا میں قائم ایک ‘تھنک ٹینک’ آئی فارسٹ کی سرستھا بینرجی کے مطابق ‘بات صرف کوئلے کی نہیں ہے۔’ ‘ہمارا ہدف اب نیٹ زیرو ہے جس کا مطلب ہے کہ ساری صنعتوں میں تبدیلیاں کرنی پڑیں گی۔’ ‘اتنے بڑے پیمانے پر تبدیلی کے لیے منصفانہ منصوبہ بندی کو بہت پہلے شروع کر دینا چاہیے۔’ انھوں نے کہا کہ اس کی اہمیت پہلے ہی سے تھی لیکن اب یہ اور زیادہ واضح ہو گئی ہے۔

انڈیا میں مقامی سطح پر منصفانہ انتقال کی سمت میں کچھ حرکت ہو رہی ہے۔ ملک میں کوئلے کے دارالحکومت صرف جھارکھنڈ ہی میں نہیں۔

پائی کا کہنا ہے کہ کوئلے سے دوسرے ذرائع کی طرف منتقلی کی سمت میں جھارکھنڈ میں محدود پیمانے پر کچھ کوششیں شروع کی گئی ہیں جو کہ دوسری جگہوں کے لیے مثال بن سکتی ہیں۔ پائی کی اس خطے میں تحقیق میں چند ایسی کامیاب مثالیں دی گئی ہیں جہاں کوئلے کی بند کانوں کی جگہوں کو ماحولیاتی بحالی کے لیے استعمال کیا گیا ہے۔

رام گڑھ میں ایک جگہ جہاں سے ‘اوپن پٹ’ یعنی کھدائی کے بجائے مٹی ہٹا کر کوئلہ نکالا جاتا تھا وہاں بن جانے والی کھائی یا گڑھے کو ایک سرکاری ادارے ‘سنٹرل کولفیڈ’ کی مدد سے ماہی پروری کے مقصد سے تالاب میں بدل دیا گیا۔ پائی کے مطابق اس جگہ کو صاف کر کے اس میں مچھلیاں چھوڑ دی گئیں جو بہت سے لوگوں کے لیے روزگار کا وسیلہ بن گیا ہے۔ جھارکھنڈ کے ایک علاقے خاص کسندا میں جہاں کوئلے کی کان کنی کے کچرے کو پھینکا جاتا تھا وہاں ماحولیات کی بحالی کے کام کے بعد نو مختلف اقسام کے پودے نظر آنے لگے ہیں۔ ماحولیات کی بحالی کا یہ کام صرف دو ایکڑ کے رقبے پر کیا گیا اور یہ اس قسم کے بہت سے دوسرے منصوبوں میں سے ایک تھا۔

یہ کام سنہ 2011 میں اس وقت شروع کیا گیا جب ڈیھرا ڈون میں قائم فارسٹ ریسرچ انسٹی ٹیوٹ نے ماحولیات کی بحالی کا بیڑا اٹھایا اور یہ کام کر کے دکھایا۔ انڈیا کی سرکاری کمپنی بھارت کوکنگ کول کے سابق افیسر راجو ای وی آر کا کہنا تھا کہ ہر سال ایسے دس نئے منصوبے شروع کیے گئے۔ راجو ای وی آر جو سنہ 2019 میں ریٹائر ہوئے تھے انھوں نے بتایا کہ ان کی کمپنی نے کوئلے میں کام کرنے والے مزدوروں کو ماحولیاتی بحالی کے منصوبے میں استعمال کیا۔ ان کی کمپنی نے ماحول کی بحال کے لیے سرمایہ فراہم کیا اور مختلف جگہوں کی مٹی کے لیے موزوں گھاس، جھاڑیاں اور پودے لگائے۔

انھوں نے کہا کہ جو لوگ ماضی میں روزگار کے لیے کوئلے کی کان پر انحصار کرتے تھے ان کو اس کا فائدہ ہوا۔ کمپنی نے انھیں ماحولیاتی بحالی کے بعد ان جگہوں پر سبزیاں کاشت کرنے کی اجازت دی۔ ان کے مطابق اس طرح ایک ہزار مقامی لوگوں نے سولہ مختلف جگہوں پر تین سو ایکڑ پر پھیلا ہوا رقبہ بحال کیا۔

پائی کا کہنا ہے کہ کوئلے کی بند کانوں کی جگہوں پر ماہی پروری کی حوصلہ افزائی، شجر کاری اور جنگل اگانا اور ساتھ ہی توانائی حاصل کرنے کے متبادل منصوبے شروع کرنا سب کچھ ‘منصفانہ انتقال’ میں شامل ہے۔

انھوں نے مزید کہا کہ ایسے منصوبوں سے مقامی لوگ سے بغیر کسی زیادتی کے مکمل انصاف کے ساتھ متبادل ذرائع کی طرف جایا جا سکتا ہے اور ان منصوبوں کو توسیع دینے کی ضرورت ہے تاکہ تمام موجودہ کانیں اور بند شدہ کانوں کا احاطہ کیا جا سکے۔

ان منصوبوں کو دوسری جگہوں پر شروع کیے جانے میں کئی رکاوٹیں بھی ہیں۔ پائی کا کہنا ہے کہ نگراں اداروں کو مالی وسائل اور اختیارات چاہیں تاکہ وہ کوئلے کی کانوں کی جگہوں کو بحال کر سکیں۔ اس کے علاوہ قانون سازی کی ضرورت بھی ہو گی اور کانیں بند کرنے کے طریفہ کار کو شفاف بنانا ہو گا۔

پائی کے مشورے کے مطابق ریاست کی سطح پر معیشت میں تنوع پیدا کرنا ہو گا تاکہ مقامی لوگوں سے مشاورت کے بعد چھ ممکنہ شعبوں میں ترقی کے عمل کو تیز کیا جا سکے جن میں زراعت، سیاحت، کوئلے کے علاوہ معادنی وسائل کی دریافت، مینوفیکچرنگ اور توانائی حاصل کرنے کے متبادل ذرائع کے علاوہ جنگلات سے لکڑی کے علاوہ دوسری چیزیں حاصل کرنا۔

مزید پڑھیے:

لکڑی سے حاصل ہونے والی توانائی ماحولیات کے لیے ’تباہی‘

’10 بلین ٹری سونامی‘ منصوبہ: پاکستان کے ماحول دوست اقدامات کا عالمی سطح پر اعتراف

ورلڈ ریسورس انسٹی ٹیوٹ کے انڈیا کے دفتر کی ڈائریکٹر الکا کیلکر کے مطابق دوسرے ملک جہاں منصفانہ انتقال کی کوشش کی گئی ہے وہ انڈیا کے لیے ایک مثال کے طور پر کام آ سکتے ہیں۔

کلیکر نے کہا کہ مثال کے طور پر ایتھوپیا جہاں بجلی فراہم کرنے والی سرکاری کمپنی نے کہا ہے کہ سنہ 2030 تک پچاس فیصد بجلی متبادل ذرائع سے استعمال کی جائے گی۔ ‘ان کا مزید کہنا تھا کہ جب ہم توانائی کے متبادل منصوبے لگائیں گے تو ان میں تیس فیصد ملازمتیں خواتین کے لیے مختص کی جائیں گی۔’

انھوں نے کہا کہ جب ان کمپنیوں نے خواتین کو ملازمتیں دینا شروع کئیں تو معلوم ہوا کہ خواتین انجینیئروں اور تریبت یافتہ ہنر مند خواتین مطلوبہ تعداد میں دستیاب نہیں ہیں۔ اس کے بعد ان کمپنیوں نے اعلی تعلیم کے حکام سے رابطہ کیا اور انھیں نوجوان لڑکیوں کو سائنس اور انجینئرنگ کے شعبوں میں تعلیم اور تربیت حاصل کرنے کے لیے سکالرشپ اور وضیفوں کی پیش کش کی۔

ایک اور بڑی اچھی مثال جنوبی افریقہ کی ہے جہاں سنہ 2017 میں مرکزی حکومت نے منصفانہ انتقال کو قومی پالیسی کا حصہ بنایا۔ کیلکر نے کہا کہ توانائی کے شفاف ذرائع کی سمت سفر کےدوران سماجی اثرات کے قومی پالیسی میں احساس اور ادراک کیے جانے کی یہ ایک عمدہ مثال ہے۔ دیگر ممالک بھی مثلاً سپین بھی اس کو ترجیح دے رہا ہے۔

ایک غیر منافع بخش ادارے نیشنل فاؤنڈیش فار انڈیا کے سواتی ڈی سوزا کے مطابق کسی اور ملک کے تجربے کو اپنے ملک میں استعمال کرنے سے پہلے انڈیا کو اپنی مخصوص ضروریات کو سمجھنا ہو گا تاکہ منصفانہ انتقال کی طرف جایا جا سکے۔

سواتی ڈی سوزا نے کہا کہ ایک اہم معاملہ کوئلے کی صنعت میں کام میں کرنے والے مزدوروں کا تعین کرنا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ دوسرے ملکوں کے مقابلے میں انڈیا میں کوئلے کی صنعت میں دیہاڑی دار مزدوروں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ ان کے مطابق اس کی بڑی وجہ انڈیا کی صنعت میں غیر رسمی شعبے کا حجم ہے۔

اگر انڈیا نے ترقی یافتہ ملکوں کی منصفانہ انتقال کی مثالوں پر چلنے کی کوشش کی تو غیر رسمی شعبے میں کام کرنے والے بے شمار لوگ نظر انداز ہو جائیں گے۔ کوئلے کی کانوں میں کام کرنے والے مزدور سال کے مختلف مہینوں میں مختلف جگہوں اور صنعتوں میں مزدوری کرتے ہیں جس بنا پر ان کی تعداد کا درست اندازہ لگانا اور بھی مشکل ہو جاتا ہے۔ سواتی ڈی سوزا نے کہا کہ کوئلہ مزدوروں کی درست تعداد معلوم کرنا اس لیے بھی ضروری ہے کہ ان سب کو پالیسی کا حصہ بنایا جائے تاکہ کوئی چھوٹ نہ جائے۔

ڈی سوزا کا مشورہ ہے کہ آئندہ کی جانے والی تحقیق میں متبادل توانائی کے ذرائع کی سمت پیش رفت میں انڈیا کے کوئلے کی صنعت پر پڑنے والے اثرات کا درست انداہ لگایا جائے اور اس سلسلے میں ضلعی سطح پر مزید تحقیق کی جائے اور خاص طور پر ایسے اشاریوں پر غور کیا جائے جن سے خواتین کی حالت کا اندازہ لگایا جا سکے۔

تحقیق کاروں کا خیال ہے کہ متبادل توانائی میں اضافے سے خواتین کی شرکت میں بھی اضافہ ہوگا اور وہ بھی ایک ایسے شعبے میں جس میں روایتی طور پر مردوں کا غلبہ رہا ہے۔

ڈی سوزا کا کہنا ہے کہ یہ معلوم کرنے سے کہ ایسی خواتین کون ہیں، ان کی سماجی اور معاشی حالت کیسی ہے اور کیا وہ دوسرے مواقعوں سے فائدہ اٹھانے کے لیے تیار ہیں افرادی قوت میں خواتین کی شمولیت میں خاطر خواہ حد تک اضافہ کرنے میں بڑی مدد ملے گی۔

اقوام متحدہ کے سکیورٹی جنرل کے ماحولیاتی تبدیلی سے متعلق یوتھ ایڈوائزری گروپ کے رکن اچاریہ سورنگ کا کہنا ہے کہ جنگلات میں بسنے والوں اور مقامی آبادیوں پر خصوصی توجہ دینا ہو گی۔ خاص طور پر زمینوں، جنگلات اور مختلف علاقوں پر مقامی لوگوں کے حقوق اور ان منصوبوں کو شروع کرنے میں ان کی رضا کو شامل کیے جانے کو ترجحیات میں رکھنا پڑے گا۔

لیکن پالیسی سازوں کی طرف سے کوئی ایسی منصوبہ بندی شروع کرنا ابھی دور کی بات لگی ہے۔ انڈیا کے پاس ابھی تک کوئی وسیع تر منصوبہ موجود نہیں ہے جس کے تحت کوئلے سے متبادل ذرائع کی طرف سفر ممکن بنایا جا سکے گو کہ ورلڈ بینک سے اس سلسلے میں فنڈ کے حصول کے لیے ابتدائی کام شروع کر دیا گیا ہے۔

اس سے ترقی یافتہ ملکوں کی طرف سے بروقت اور مناسب مالی مدد کی فراہمی کی اہمیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ آئی فارسٹ تھنک ٹیک کے بینرجی نے کہا کہ ‘منصفانہ انتقال کے لیے سرمایہ کاری بڑی ضروری ہے اور اس میں کوئی شک ہی نہیں۔’ ان کے مطابق یہ صرف توانائی کے زمینی ذرائع کی تبدیلی ہی نہیں بلکہ پوری معیشت کو نئے خطوط پر استوار کرنا ہے۔

انھوں نے کہا کہ توانائی کےمتبادل ذرائع میں سرمایہ کاری کے حالیہ طریقوں کی روشنی میں یہ اور بھی اہم ہو جاتا ہے۔

‘جہاں کوئلہ ہے وہاں توانائی کے متبادل ذرائع میں سرمایہ کاری نہیں ہے۔’ اس کے بجائے متبادل ذرائع میں سرمایہ کاری انڈیا کے مغربی اور جنوبی حصوں میں کی جا رہی ہے جبکہ کوئلہ مشرقی اور مرکزی علاقوں سے نکالا جاتا رہا ہے۔

انھوں نے کہا کہ ایسی صورت حال نہیں ہونی چاہیے کہ جہاں ایک خطے میں توانائی حاصل کرنے کے متبادل ذرائع پیدا کر دیئے جائیں اور دوسرے علاقے پسماندگی کا شکار اور غربت میں پھنسے رہیں۔ انھوں نے مزید کہا کہ یہاں منصفانہ انتقال کا سوال پیدا ہوتا اور جس کو حل کیا جانا بہت ضروری ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32538 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments