عظیم رفیق: یارکشائر کے سابق کرکٹر کے مطابق انگلش کرکٹ میں ’ادارے کی سطح پر‘ نسل پرستی موجود ہے


Azeem Rafiq
عظیم رفیق یارکشائر کلب کی طرف سے 2008 اور 2018 کے درمیان کھیلتے رہے ہیں اور انھوں نے 2012 میں کاؤنٹی کی کپتانی بھی کی تھی
یارکشائر کے سابق کھلاڑی عظیم رفیق کا کہنا ہے کہ انگلش کرکٹ میں ’ادارے کی سطح پر‘ نسل پرستی موجود ہے۔

30 سالہ رفیق نے برطانوی پارلیمان کی ڈیجیٹل، کلچر، میڈیا اور سپورٹ کی قائمہ کمیٹی کو بتایا کہ ان کے یارکشائر کلب کے دور میں نسل پرستانہ جملوں کا باقاعدہ استعمال ہوتا تھا۔

یاد رہے کہ عظیم رفیق یارکشائر کلب کے خلاف نسل پرستی کے الزامات کے بعد پارلیمانی کمیٹی کے سامنے مزید شواہد دینے کے لیے ہیش ہو رہے ہیں۔

انھوں نے گواہی دیتے ہوئے جذباتی بیان میں کہا کہ جب 2017 میں ان کے ہاں مردہ بچہ پیدا ہوا تو کلب نے ان کے ساتھ بہت ’غیر انسانی‘ سلوک کیا۔

انھوں نے کہا کہ جن مسائل کا انھیں یارکشائر میں سامنا ہوا وہ ’بغیر کسی شک کے‘ ڈومیسٹک کرکٹ میں وسیع پیمانے پر پھیلے ہوئے ہیں۔

رفیق نے کہا کہ وہ اپنا کیریئر نسل پرستی کے ہاتھوں کھو چکے ہیں، جو کہ ایک ’خوفناک احساس‘ ہے، لیکن اس کے متعلق کھل کر بولنے سے انھیں امید ہے کہ اگلے پانچ برسوں میں بڑے پیمانے پر تبدیلی آئے گی۔

انھوں نے مزید کہا: ’میں صرف قبولیت چاہتا تھا، ایک معذرت، ایک ادراک، اور چلو مل کر کوشش کرتے ہیں کہ ایسا دوبارہ نہ ہو۔‘

’میں اسے جانے نہیں دینا چاہتا تھا، چاہے مجھے جتنا بھی نقصان ہو جائے۔ میں بے آوازوں کی آواز بننے کے لیے پر عزم تھا۔‘

عظیم رفیق کے بیان کے اہم نکات:

  • وہ ہمیشہ صرف یہ چاہتے تھے کہ ان کا انگلینڈ کے لیے کھیلنے کا ’خواب‘ پورا ہو
  • نسل پرستانہ زبان، بشمول وہ اصطلاحات جو ان کے اور پاکستانی میراث رکھنے والے دوسرے افراد کو نشانہ بناتیں، ان کے یارکشائر کے دور میں ’مسلسل‘ استعمال کی جاتیں اور اس رویے کا ’کبھی خاتمہ نہیں کیا گیا۔‘
  • ان اصطلاحات کا استعمال نسل پرستانہ تھا اور وہ مذاق نہیں تھا جیسا کہ رپورٹ میں کہا گیا ہے
  • جب دوسروں نے ان کی ٹیم کے ساتھیوں اور کوچنگ سٹاف کے سامنے نسل پرستانہ جملے استعمال کیے اور انھیں روکا نہیں گیا تو انھوں نے اپنے آپ کو ’تنہا‘ اور ’رسوا‘ محسوس کیا۔
  • اس طرح کی زبان کا استعمال اتنا عام تھا کہ ’نارم‘ یا معیار بن گیا اور کلب میں لوگ اسے غلط نہیں سمجھتے تھے۔
  • انھیں ’احساس نہیں ہوا‘ اور 2014 تک یارکشائر میں اپنے پہلے دور کے دوران زیادہ تر اس مسئلے کے پیمانے کے بارے میں ’انکاری‘ رہے۔
  • جب وہ 2016 میں اپنے دوسرے دور کے لیے واپس آئے تو انھوں نے سوچا کہ ’چیزیں بدل گئی ہیں۔‘
  • لیکن اس سال کے آخر میں گیری بیلنس کی کپتانی سنبھالنے کے بعد ماحول ’زہریلا‘ ہو گیا، اس کے فوراً بعد جیسن گلیسپی کی جگہ سابق بلے باز اینڈریو گیل ہیڈ کوچ بن گئے۔
  • 15 سال کی عمر اور پکے عقائد کا مسلمان ہونے کے باوجود ان کے مقامی کرکٹ کلب میں ایک سینیئر کھلاڑی نے انھیں پکڑ لیا اور ان کے منہ میں ریڈ وائن ڈال دی گئی۔
  • انھوں نے کہا کہ اس کے بعد انھوں نے 2012’ تک‘ اس وقت تک دوبارہ شراب کو ہاتھ نہیں لگایا جب انھیں لگا کہ یارکشائر میں ’گھلنے ملنے کے لیے‘ انھیں ایسا کرنا پڑے گا۔
  • انھوں نے کہا کہ وہ ’کامل (انسان) نہیں تھے‘ اور جو کچھ چیزیں انھوں نے شراب پینے کے دوران کہیں اور کیں انھیں اس پر ’فخر نہیں‘ ہے، لیکن ان کا اس نسل پرستی سے ’کوئی تعلق نہیں‘ جس کا انھیں نشانہ بنایا گیا تھا۔
  • ان کے الزامات کے متعلق رپورٹ کافی حد تک ’ناقص‘ تھی اور پینل اہم گواہوں سے بات کرنے میں ناکام رہا تھا۔

ایک رپورٹ سامنے آنے کے بعد کہ رفیق ’نسلی تعصب اور بلیئنگ‘ کا نشانہ بنے وہ ممبران پارلیمان کے سامنے اپنا بیان ریکارڈ کرا رہے تھے، لیکن کلب نے کہا ہے کہ وہ کسی کے خلاف انضباتی کارروائی نہیں کریں گے۔

یہ بھی پڑھیے

عظیم رفیق نسلی امتیاز کیس: یارکشائر کرکٹ کلب کے چیئرمین مستعفی

ڈیکاک کی معافی: ‘میرے لیے میری پیدائش سے سیاہ فام زندگیوں کی اہمیت رہی ہے‘

کرکٹ کے جنونی مداح: شائقین کا عدم برداشت کا رویہ اور کرکٹ کی کمرشلائزیشن

یوراج سنگھ: ذات پات پر مبنی تبصرے پر گرفتاری، ’قانون سیلبریٹیز کے لیے اور طرح کام کرتا ہے‘

30 سالہ رفیق برطانوی پارلیمان کی ڈیجیٹل، کلچر، میڈیا اور سپورٹ کی قائمہ کمیٹی کو بیان ریکارڈ کرا رہے ہیں

PA Media

یارکشائر کے سابق چیئرمین راجر ہٹن بھی ممبر پارلیمان اور انگلینڈ اینڈ ویلز کرکٹ بورڈ (ای سی بی) کے نمائندوں سے بات کر رہے ہیں۔

ہٹن، جنھوں نے رفیق سے ’گہری معذرت‘ کی تھی، کہا کہ ڈائریکٹر آف کرکٹ مارٹن موکسن اور سابق چیف ایگزیکیٹو مارک آرتھر ’صورتحال کی سنگینی کو سمجھنے میں ناکام رہے تھے۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ ’وہ معافی مانگنا نہیں چاہتے اور نہ ہی پینل کی سفارشات کو آگے بڑھانا چاہتے تھے۔‘

جب ممبر پارلیمان ڈیمئن گرین نے رفیق سے پوچھا کہ کیا وہ سمجھتے ہیں کہ کرکٹ میں ادارے کی سطح پر نسل پرستی موجود ہے تو رفیق نے جواب دیا: ’ہاں، میں سمجھتا ہوں۔‘

ڈی سی ایم ایس کی قائمہ کمیٹی کے سربراہ ممبر پارلیمان جولین نائٹ کے اس سوال کے جواب میں کہ آیا انھیں درپیش مسائل دوسری کاؤنٹیوں میں بھی ’دہرائے‘ گئے ہیں، رفیق نے کہا: ’یہ مسئلہ ملک میں اوپر اور نیچے (ہر جگہ) ہے۔‘

رفیق نے کہا کہ ان کے بیٹے کی موت کے اگلے دن موکسن نے ان کے ساتھ ایسے پیش آئے جو رویہ انھوں نے کلب میں موکسن کو کبھی کسی دوسرے کے ساتھ اختیار کرتے نہیں دیکھا تھا۔

انھوں نے یہ بھی کہا کہ وہ ان ’چھ یا سات‘ کھلاڑیوں کے گروپ کا حصہ تھے جس نے 2017 میں انگلینڈ کے سابق کھلاڑی ٹم بریسنن کے خلاف شکایت کی تھی، جس کے بعد بقول ان کے، کلب نے انھیں ایک ’مسئلے پیدا کرنے والے‘ کے طور پر دیکھنا شروع کر دیا تھا۔

انھوں نے مزید کہا کہ وہ اس گروپ میں واحد دوسرے رنگ کے کھلاڑی تھے اور ’صرف وہی جنھیں اس کا نتیجہ بھگتنا پڑا۔‘

موکسن فی الحال ’تناؤ سے متعلق بیماری‘ کی وجہ سے کام پر نہیں آ رہے اور یارکشائر نے کہا ہے کہ انھیں ’ضروری مدد فراہم کی جائے گی۔‘

بی بی سی سپورٹ بریسنن سے بھی ان کے موقف کے حوالے سے بات کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32298 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments