کہروڑ پکا کی نیلماں (2)


(افسروں کے معاشقوں پر مبنی ایک نیم حقیقی نیم افسانوی واردات قلبی کا احوال)

نیلم ایک طویل عرصے برطانیہ میں رہنے کے باوجود بہر طور ایک پاکستانی عورت تھی۔ پاکستانی عورت میں، بائبل کے دس بڑے ضوابط (Commandments) اور پاکستانی قانون میں ایک قدر بڑی مشترک ہے۔ ان کی اکثر دفعات کا آغاز نفی سے ہوتا (عبادت مت کرو بجز میری، مت کرو قتل۔ مت کرو بدکاری وغیرہ وغیرہ) بائبل کی طرح پاکستان کے قوانین بھی Notwithstanding (ہرچند، باوجود اس کے کہ) سے کھدبدا رہے ہیں۔ اس نے پہلے تو کبایا کے نام پر اعتراض کیا کہ یہ کسی بوتیک کا نام ہوگا۔ کبایا انڈونیشین خواتین کے لباس کا نام ہے۔ ارسلان نے کہا ایسا نہیں یہ ایشین ریستوراں ہی ہے۔

فطرت کے مطالعے اور مشاہدے سے بدو اور کسان آنے والے مظاہر کی خبر پکڑ لیتے ہیں دشت سے زندگی کی رو، یوں کوئی نہ کوئی مثال اچک لیتی ہے۔ ہندوستان میں کسان ٹیسو کے پھول دیکھ کر آنے والی برسات کا اندازہ لگاتے ہیں۔ عرب بدو اونٹ کی حرکات و سکنات اور ریت کے ٹیلے کی بنتی بگڑتی چوٹی کی اشکال سے ہوا کے تیور جان لیتے ہیں۔ ارسلان کو بھی لگا کہ یہ نیلم آسانی سے اپنی جگہ سے ریشمی دوپٹوں اور پرانی بریزیر کے اسٹریپ کی مانند تلکنے (پنجابی میں کھسکنے) والی نہیں۔ اس ردعمل کو اس نے Save Your Password کے طور پر براؤزر میں دوبارہ استعمال کے لیے جکڑ لیا۔

نیلم کا دوسرا اعتراض یہ تھا کہ انہیں لاؤنج سے باہر جانے کی اجازت نہیں۔ یہ سن کر ارسلان کہنے لگا یہ ہالینڈ والے بھی گوروں کی طرح پکے بیوپاری ہیں۔ انہوں نے ایک تو اپنے لاؤنجز کی راہداریوں کے نام رکھ لیے ہیں اور پھر چائے کی پیالی جتنے ملک میں رکابی (ساسر) جتنا بڑا اس کی پول ہوائی اڈہ بنا دیا ہے۔ ہمیں لاؤنج نمبر دو کے اندر ہی رہ کر یہ کھانا مل جائے گا۔ اب دنیا کا معاملہ ایسا ہے کہ گورا تو بجٹ ٹریولر ہے۔ ان کے طالب علم، عشق کی دکھیاریاں مطلقہ اور بیوائیں سیاحت کو نکلتے ہیں۔ ٹوٹل کنگلا پارٹی ان کے برعکس چینیوں جاپانیوں اور دیگر ایشائیوں کے پاس اچانک بہت پیسہ آ گیا ہے۔ ہندوستانیوں کی طرح یہ بھی اپنے کھانے کا کوئی ڈھابہ دیکھ لیں تو کھانے پر ایسے ندیدوں کی طرح ٹوٹتے ہیں جیسے پاکستانی مسلمان اللہ اکبر کہہ کر افطاری پر حملہ کرتے ہیں۔ اسی لیے کبایا بنایا گیا ہے۔

نیلم کو ارسلان کا یہ انداز بیاں پر مزاح اور دل چسپ لگا۔ اس کا اپنا میاں سعید گیلانی ایک پیتھالوجیکل لیبارٹری میں میڈیکل ٹیکنالوجسٹ تھا۔ والدین کا وطن میر پور۔ آزاد کشمیر سے تھا۔ اگر مرد ہونا صرف مردانہ خط و خال کا نام ہے تو وہ بہت بے سک (بنیادی) سا مرد تھا۔ مونو۔ ریل کی طرح اس کی زندگی کی کمیوٹر ٹرین بھی آتے جاتے ایک ہی پٹی پر زمینی حقائق سے بلند ہو کر چلا کرتی تھی۔ سارا دن لیبارٹری میں خون، تھوک، پیشاب اور دیگر جسمانی مائع جات میں بگاڑ ڈھونڈ نے کے باعث اس کا مشاہدہ بڑا تیز ہو چلا تھا۔ بیک اینڈ لیب میں اسکرین کو تکتے رہنے کی وجہ سے وہ فن گفتگو سے ناآشنا رہ گیا تھا۔ اسی لیے بات چیت کے دوران محفوظ اور محدود دائروں میں رہتا تھا۔ کثیر العیال گھرانے کا فرد ہونے کا یہ نقصان ہوا کہ مسلسل نظر انداز کی وجہ سے اس کی شخصیت بہت چر مر سی گئی تھی۔ بنیادی رشتوں کے دباؤ میں بہہ جاتا تھا جس کا ازالہ وہ یوں کرتا تھا کہ جلد ہی انفرادی ضد پر اتر آتا تھا۔

شادی والدین کے اصرار اس نے سر نیہوڑائے یہ سوچ کے کرلی کہ یہ شاید زندگی کی لازمی ضرورت تھی۔ یوں یہ اس کے لیے ایک روٹین کا معاملہ تھا۔ جس طرح گھر میں دیگر افراد تھے ویسے ہی نیلم بھی تھی۔ بیوی ہونے کا کوئی اسے خصوصی مقام امتیاز عطا کرنے کا سعید نے کبھی سوچا بھی نہ تھا۔ تین بڑے بھائی بہنوں اور دو عدد چھوٹی بہنوں میں پلنے بڑھنے کی وجہ سے زندگی کے بیشتر رویوں میں وہ اختصار ذات کا شکار تھا۔ باپ فخرالزماں کی شخصیت کی چھاپ گھرانے کے پورے ماحول پر بہت گہری تھی۔ باپ کا تعلق بھمبر۔ آزاد کشمیر کا تھا۔ وہ جواں عمری میں پاکستان کے پاسپورٹ پر بغیر ویزہ برطانیہ آ گیا تھا۔ ان دنوں کشمیریوں کی ایک بڑی تعداد یہاں پہنچی ہوئی تھی۔ معاملات کچھ ایسے تھے کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد سر اٹھاتی معیشت کی خاطر گورے کو سستے مزدور درکار تھے۔ جلد ہی قومیت کے کاغذات بن گئے تو پہلے اس نے لندن پھر برمنگھم میں ٹیکسی چلائی اور رفتہ رفتہ ہوٹل کے کاروبار میں چلا گیا۔ سیلف میڈ آدمی تھا اس لیے شخصیت میں ڈینٹ بھی بہت لگے۔ شادی بھی ہو گئی۔ بیوی اس کے رشتہ دار گھرانے کی ہی تھی۔

نیلم کی ماں کا این سی اے میں دوران تعلیم ہی کہروڑ پکا میں انتقال ہوا تو اس کے والد کرنل ظہیر نے طویل رنڈاپا کاٹنے کی بجائے اپنی پرانی محبوبہ طاہرہ سے شادی کرلی جو محبوبہ ہوتے ہوئے بھی کچھ خاص پرانی نہ تھی۔ کرنل ظہیر جب میجر ہوتے تھے تو انہیں اپنی بھمبر پوسٹنگ کے زمانے میں وہاں کشمیری روایتی دیہاتی حسن کی شاہکار سرکاری اسکول کی استانی طاہرہ سے عشق ہو گیا تھا۔ ضیا الحق کا مارشل لاء لگا تو ان کے بریگیڈیئر صاحب کی کراچی پوسٹنگ ہو گئی اور وہ انہیں ساتھ ہی گھسیٹ کر لے گئے۔ وہ اگلی پوسٹنگ پر کراچی چلے گئے تو طاہرہ نے سوچا کہ مرداں دے وعدے جھوٹے۔ جھوٹا ہوندا پیار وے۔ کر کے محبتاں قول جاندے ہار وے۔ صبر کر کے بیٹھ گئی۔

ادھر ان باوردی درست افسران کو تو جانو بلی کے بھاگوں چھیکا ٹوٹا (چھیکا۔ وہ ٹوکری جس میں گھروں میں فرج کی آمد سے پہلے کھانا محفوظ رکھنے کے لیے ہوا میں لٹکا دیا جاتا تھا) ۔ ان دونوں نے کراچی میں رج کر دولت سمیٹی۔ پیپلز پارٹی کے بڑوں نے کراچی کی زمینوں کو کوڑیوں کے بھاؤ انتقاماً اور کرپشن میں آلودہ ہو کر ٹھکانے لگایا تھا۔ زمینوں سے متعلق ایک سیل صوبائی مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کے دفتر میں کھل گیا تھا وہاں کراچی ڈیولپمنٹ اتھارٹی کی فائلیں منگا لی جاتیں۔ افسر اور سیاست دان اپنی جان بخشی کے عوض خزانے کا منھ کھول دیتے۔ کرنل ظہیر نے بھی کپڑے اتار کر دولت سمیٹی۔ اور اپنے آبائی علاقے میں زمین خرید لی۔ کرنل ظہیر سر پر پیر رکھ کر بھمبر سے غائب ہوئے تو طاہرہ کے ماں باپ نے ایک لل بشیرے قسم کے رشتہ دار جو پیشے کے لحاظ سے درزی تھا اس کی شادی کر دی۔ بچہ تو ہو گیا مگر وہ میاں کے حوالے سے ناآسودہ رہی۔

طاہرہ سعید کے والد فخر الزماں گیلانی کی خالہ زاد بہن تھی۔ بھائی فخر الزماں چھٹیوں پر وطن لوٹے تو اس کا دکھ دیکھ کر جان گئے کہ دیکھا تو اقبال نے جو اک خواب سہانا، اس بے چاری کو اس خواب کو جنت کی حقیقت بنانے کا موقع نہیں مل پایا۔ برطانیہ میں وہ اپنی اولاد کو کہتے تھے کہ مسئلے پر بحث کرنے کی بجائے وہی وقت مسئلے کے حل ڈھونڈنے میں صرف کرو۔ برطانیہ اس لیے پیچھے رہ گیا ہے کہ اس کی پارلیمنٹ میں بحث بہت ہوتی ہے۔ امریکہ نے جاپان پر دودفعہ ایٹم بم گرائے مگر کانگریس میں بحث ایک دفعہ بھی نہیں کی۔ سو انہوں نے Quick Fix کے طور پر کرنل ظہیر سے رابطہ کیا۔ وہ مان گئے اور طاہرہ نے بھی ٹوٹے ہوئے تاروں کا ماتم کرنے سے ازدواجی پٹری بدلنے میں بہتری سمجھی۔ موجودہ درزی میاں کی سوئی سے قبائے درد کو ساری عمر سینے سے بہتر یہ جانا کہ ڈبے سے باہر (out of box) حل تلاش کریں۔ اپنے ساتھ طاہرہ کو لے کر کہروڑ پکا پہنچ گئے۔ اسے گیم پلان سمجھا دیا۔ فخر الزماں گیلانی فخر برمنگھم و کشمیریان برطانیہ نے اس کی طلاق سے لے کر دوبارہ شادی کا ہر مرحلہ اک او ر معاشی پس ماندہ گھرانے کی رشتہ دار نوخیز دیہاتی کلی سے اپنی سر پرستی میں طے کرایا۔ خیاط بھمبر یعنی شوہر سابقہ کے نکاح کا خرچہ بھی خود اٹھایا۔ انگریزی میں ایسے معاملہ کو A win۔ win deal۔ کہتے ہیں۔ یہ اس خوش اسلوبی سے طے ہوا گویا گائے کے تازہ مکھن میں چھری اتر گئی۔

کرنل صاحب جو آسودہ تھے، رنڈوے تھے۔ فخر میاں کے معتبر دوست تھے۔ ان سے اچھا دامن عاطفت اسے اور کہاں مل پاتا۔ طاہرہ کے حسن جہاں تاب کے پرانے گھائل۔ میجر بن کر دل پر جو چوٹ لگی تھی وہ کراچی کی دولت سے سمیٹی ہوئی دیہاتی آسودگی اور کرنل کے عہدے سے ریٹائرمنٹ کا اعتماد بھی بھر نہ پایا تھا۔ دوسری جانب طاہرہ کی حشر سامانیوں پر ایک بچے کی پیدائش نے کوئی خاص منفی اثرات نہ چھوڑے تھے۔ پندرہ دن میں فخر میاں کی مساعی سے، کرنل صاحب، طاہرہ، نیلماں سب کی زندگی میں اہم فیصلے ہو گئے۔

دلہن بن کر طاہرہ نیلماں کے ساتھ کھڑی تھی تو کرنل صاحب کو لگا کہ پانچ سات کے ادھر ادھر کے سالوں کے فاصلے سے مدھوبالا اور نرگس کسی فلم کے سیٹ پر دو بہنیں بن کر ساتھ کھڑی ہیں۔ دن گزرے کہ طاہرہ نے ایسی پر فریب منصوبہ بندی کی کہ اس کی دھیمی دھیمی ضد پر نیلم کی شادی کرنل ظہیر نے سعید سے شادی کرتے ہوئے لمحہ بھر کو بھی نہ سوچا۔ طاہرہ کے اب تک اپنے دو بیٹے ہو چلے تھے ایک اپنے سابقہ درزی میاں سے تو دوسرا کرنل صاحب سے۔ طاہرہ کی منصوبہ بندی کی روشنی میں نیلم کو ایک ایسا پل بنا دیا گیا جس کے ذریعے طاہرہ نے اپنی تمام تر اولاد کو بھی ملکہ برطانیہ کی رعایا بنا کر یورپی یونین میں شامل کرنا تھا۔

نیلم، سعید سے اپنی شادی کی بات پر چپ ہو گئی اس سے قبل وہ کرنل ظہیر کو اپنے کالج کے میں سرامکس کے استاد وجدان احمد سے عشق کا اعتراف اور شادی کا تذکرہ کر کے جھاڑ اور گولی مار دینے کی دھمکی سن کر بے مزہ ہو چکی تھی۔ وجدان کا قادیانی مذہب اور اس کا بوہیمین لائف اسٹائل کرنل ظہیر جیسے کمانڈ اینڈ اوبی ڈیئنس کے سرکے میں بھیگے اچاری مرد کے لیے ماں کی گالی کے برابر تھا۔ وجدان سے شادی نہ ہونے کا اسے کوئی خاص غم نہ تھا۔ دوسری جانب وجدان نے بھی اس انکار پر ایسا خاص اودھم نہ مچایا کہ نیلم کو لگتا کہ حضرت کی رگوں میں کیسا نوا کا خون دوڑ رہا تھا۔ اس کی ایک دوست نے تو نیلماں کو کہا کہ وجدان کو ایک ٹرافی گرل فرینڈ مطلوب تھی۔ سیکس آن ڈیمانڈ قسم کی۔ شادی ایسے مردوں کے نزدیک بس کچھ دن کا ایک ٹورسٹ ویزہ ہوتی ہے۔ ایسے لوگ جم کے نہیں رہتے۔ تین سال پہلے بھی اس کا کسی لڑکی ربیعہ کے ساتھ ایک یارانہ تھا مگر وہ این سی اے کی نہیں بلکہ کسی میڈیکل کالج کی طالبہ ہوتی تھی۔ حسین تو نہ تھی مگر بڑی فری تھنکر تھی۔ وہ وجدان کی رہائشی گرل فرینڈ تھی۔ کالج میں بعد میں کسی جونئیر استاد کو اچھی لگ گئی تو اس چھوڑ کر اس سے بیاہ کر لیا، اس گلو خلاصی پر وجدان نے مسیح معود کا دل سے شکریہ ادا کیا ہر چند کہ اس کی شہرت ایک وہ لبرل دہریے کی تھی مگر مسلکی وہ بہر حال ایک مسلکی لبرل دہریہ تھا۔ اللہ ہو نہ ہو مگر امام برحق ہے۔

برمنگھم۔ برطانیہ

نیلم کے شوہر سعید گیلانی نے اب تک کی زندگی میں صرف ایک دفعہ ہی بغاوت کی تھی۔ وہ گھرانے کے کاروبار میں شریک ہونے کی بجائے کاؤنٹی اسکالر شپ پر میڈیکل لیبارٹری سائنس پڑھنے کنگسٹن کالج آ گیا تھا۔ باقی سب بھائی بہن اور والد صاحب نے برمنگھم کے ایسٹن نامی علاقے میں بستی بسائی تھی۔ برمنگھم میں ان کے دو اسٹور اور ایک نیوز اسٹینڈ تھا۔ ان دیسی لوگوں کو وہاں Brummie کہا جاتا تھا ”سارا گھرانا اسی کاروبار میں جتا رہتا تھا بجز سعید گیلانی کی جڑواں بہن فیروزہ کے۔ وہ اپنے کزن سے بیاہ کر اوسلو۔ ناروے چلی گئی تھی۔ سعید نے اس بغاوت کا جذباتی ہرجانہ یوں ادا کیا کہ وہ ایک کمرے میں نیلماں کے ساتھ والدین کے گھر ہی میں ہی ٹکا رہا تھا۔ سعادت مند بچے کی طرح اپنی تنخواہ آج بھی پہلی تنخواہ کی مانند، والدہ کے ہاتھ پر رکھ دیتا تھا گو یہ شادی اب چھٹا سال پورا کر کے ساتویں برس میں داخل ہو چلی تھی۔

نیلم کو یاد نہیں پڑتا کہ اسے سعید نے اپنی تنخواہ کبھی بتائی ہو، اسے سیر و تفریح کے لیے کسی ا ور ملک لے گیا ہو۔ اسے بہت ارماں تھا کہ وہ وہ صحرا صحارا میں تواریغ مردوں کو دیکھے۔ وہی نیلی جلد، نیلی پگڑیوں والے چوڑی چھاتی، چبھتی نگاہوں والے مغرور، دور افتادہ بربر، گھڑسوار، پیکر مردانگی زور آور خان جی مرد جن کی بستر میں جنسی ٹھوکر میں وہ صحرا و دریا بن کر دو نیم ہو جائے۔ مراکش میں املیشیل کے مقام پر وہ کوہ اطلس میں بسے بربروں کی شادی کے اس تہوار میں شرکت کرے جہاں باپ اپنی سجیلی نوخیز دختران نیک اختر کو لے کر جھیل کے کنارے آتے ہیں۔ بہت سے لڑکے بھی وہاں بطور دولہا منتخب ہونے کے لیے آئے ہوتے ہیں۔ پورا دن یہ مسلمان لڑکے لڑکیاں ناچتے گاتے اور ساتھ گھومتے پھرتے ہیں۔ ایک دوسرے کو منتخب کرنے کے بعد یہ اپنے والدین کو بتا دیتے ہیں کہ انہیں کون اچھا لگا پھر شادی کا دن بھی آ جاتا ہے۔ شادی کی رات دلہن کو وہ خواتین جو اپنی زمانے میں خود بڑے حسین تنکے رہی ہوتی ہیں مگر اب اس پاپن کی طرح ہوتی ہیں جو بھگت کبیر کے مطابق کوئلہ بھئی نہ راکھ بن کر جیتی ہیں۔ وہ اسے سمجھاتی ہیں۔ نی شادو، بے خبرے، ماں صدقے، جم کے رہنا، منھ میں رومال رکھنا۔ وہ آج تمہیں تنکے کی طرح توڑے گا، صبح دلہن اور دولہا کے زیر استعمال وہ سفید چھوٹی سے چادر لہراتے ہیں جس پر خون کے دھبے پڑے ہوتے ہیں پھر ولیمہ برپا ہوتا ہے۔ نیلم اکثر دل مسوس کر رہ جاتی کہ اس کے ہاں تو چادر ہی لال نہ ہو پائی تھی کبھی کبھی اسے خیال آتا کہ سعید کم بخت نے اسے تنکا نہیں بلکہ برازیل کا مضبوط شیشم کا شہتیر سمجھ کر مردوں کی طرح چھوا تک نہیں۔ نیلم کا یہ کنوارا پن ایک راز تھا جس کا علم صرف اسے تھا۔

نیلم کو یہ بھی بہت آرزو تھی کہ وہ سرنگاٹی ندی میں تنزانیہ کے علاقے مسائی مارا میں سینکڑوں کی تعداد میں Wilder Beasts کو دریا پھلانگتا دیکھے۔ انڈونیشیا کے کسی دور دراز جزیرے میں کوکونٹ آئل کی دیر تک مالش کرا کر بکنی پہن کر خاموشی سے ہیمک میں لیٹی کوئی بیسٹ سیلر پڑھے اور Besserat de Bellefon Brut کی روز شمپیئن وائن پیے مگر اے بسا آرزو کہ خاک شد (ہائے وہ آرزو کہ دھول چاٹتی ہے) ۔

یہ سب تو نہ ہوا مگر اب یہ عالم ہے کہ حضرت سعید گیلانی۔ اس کے مجازی خدا اس سے ملنے اور وقت گزارنے کے لیے برلن آئے تھے۔ دونوں کے درمیان ایک خاموش سا یہ سمجھوتہ ہوا تھا کہ اس شادی کو ایک موقع اور دے کر دیکھنا چاہیے۔ نیلم نے سوچ لیا تھا کہ وہ اسے ٹھوک کر جتا دے گی کہ وہ اپنی ماں کو بتادے کہ مردانگی کا مسئلہ اس کا اپنا ہے۔ نیلم اب بھی کنواری کلی ہے۔ سو پوتے پوتی کا شوق ہے تو اس کی ٹانگوں میں جھانکنے کی بجائے بیٹے کی پتلوں میں انگارے انڈیل دے۔ نیلم کی یہ بھی مرضی تھی کہ سعید گیلانی اپنی ماں کو سمجھا دے کہ نیلم کو اپنا Fashion Merchandising کا کام بہت عزیز ہے۔ وہ کسی خاندانی کاروبار کا حصہ نہیں بنے گی۔

نیلم نے طلاق لینے کے بارے میں پہلے برس ہی سوچ لیا تھا اس کے ارادوں کا سن کر فخرالزماں نے کرنل ظہیر سے بات کی اور کرنل صاحب نے طاہرہ کو دوڑا دیا۔ طاہرہ کو والدہ کے طور پر جب نیلم نے سعید کے حوالے سے اپنی جسمانی ناآسودگی کا بتایا تو ا سی نے نیلم کو سمجھایا کہ کچھ مرد گلیشئر ہوتے ہیں معمولی درجہ حرارت اور ابتدائی موسم گرما کی تمازت سے جلد نہیں پگھلتے مگر جب پگھلتے ہیں تو بڑا بہاؤ ہریالی اور کٹاؤ لاتے ہیں۔ وہ اسے سمجھانے خاص طور پر برطانیہ آئیں۔ طاہرہ کا بڑا دل چاہا کہ اسے کوئی جھوٹی سچی داستان اپنے اور ظہیر صاحب کے حوالے سے بطور تسلی سنا دے مگر پھر اسے خیال آیا کہ وہ تو دوسری شادی کے پہلے ہی مہینے حاملہ ہو گئی تھی اور نیلم تب پاکستان میں ہی تھی اور ان حالات کی عینی گواہ بھی تھی۔

برلن آنے سے پہلے نیلم کا اپنی ساس سے بڑا جھگڑا ہوا۔ ساس کی خواہش تھی کہ نیلم اپنا فیشن اور مارکیٹنگ کا تجربہ کام میں لائے اور خاندان کے بزنس راجواڑے میں ایک دیسی بوتیک کا اضافہ کرے۔ اس دھندے میں وہ اپنی ایک عدد عدد بیٹی اور بیٹے کو بھی نیوز اسٹینڈ سے شفٹ کرنا چاہتی تھی تاکہ وہ نیلم کا ہاتھ بٹائیں۔ ان کی کاروباری منصوبہ بندی کی روشنی میں نیلم کا کام یہ ہوگا کہ پاکستان سے شادی بیاہ کے اور تقریبات کے جوڑے فروخت کرنے کے لیے لے کر آئے۔ ٹھیٹ پینڈو آف دا بوٹ (ولایت اور امریکہ میں نووارد مہاجرین کو کہا جاتا ہے) ساس نے نیلم کے پیشہ ورانہ مہارت اور تجربے کو سامنے رکھ کر دھندے کی بالکل ٹھیک لائن پکڑی تھی۔ یہ سارا بزنس پلان اس نے نیلم کے پاکستان جانے کا پروگرام سن کر بنایا تھا۔ اسی لیے سعید کو بھی ساتھ کر دیا تھا کہ وہ اس کا پیچھا کرتا رہے۔ اپنے اس بوتیک کا نام بھی وہ میرپور میں اپنے میکے کے علاقے ڈڈیال کے حوالے سے سوچے بیٹھی تھی مگر اپنے تئیں کول بننے کی خاطر اس نے کہا ”وے نیلمے اسی اینوں انگلش وچ Daddy ’s All لکھاں گے۔ دیسی کڑیاں امپریس ہو جان گیاں۔ اسی ساریاں نوں پرائس وچ بیٹ ساں“ ۔ نیلم کو لگا کہ یہ اس کہ علم و فن اور ذوق جمالیات کی نہ صرف صریحاً توہین ہے بلکہ اس کی آزادی پر ایک طرح کی قدغن ثابت ہو سکتی ہے۔ اس نے یہ سب سن کر جب مختصر سا بل شٹ کہا تو ساس بھڑک گئی۔

بیٹا شام کو آیا تو اسے خوب لگی لپٹی سنائیں۔ ایسی Toxic باتیں سن کر وہ بھی ہتھے سے اکھڑ گیا۔ اس نے اپنے ذہن کے کسی تاریک کونے میں طلاق دینے کا منصوبہ بنا لیا۔ نیلم سے چھٹکارے میں اس کے بے بے کی دیرینہ شہ بھی شامل تھی جسے اولاد کا بڑا ارمان تھا مگر جو اس بات سے ناواقف تھی کہ Fluoxetine یعنی (Prozac) مسلسل استعمال سے سعید نامرد ہو گیا تھا۔ سعید کو اپنے کنگسٹن کالج کے زمانے سے ایک Junky بنگالن اندرانی بینرجی بہت پسند تھی۔ وہ وہاں فیزوتھراپی کا کورس کرنے آئی تھی۔ شکستہ خاندانی پس منظر تھا، ماں مالدار تھی، کمیونسٹ بھی۔ ماں بیٹی دونوں کو نشے کی عادت تھی۔ سعید میاں کے ساتھ جانے ایسا کیا ہوا کہ نشہ، اندرانی، مردانگی سب بہت خاموشی سے ساتھ چھوڑ گئے۔

سعید کمرے میں آیا تو نیلم کو بہت بددلی اور بے اعتنائی سے دیکھا۔ دونوں نے پورے کپڑے پہن کر بستر میں ادھوری گفتگو کی اور سو گئے۔ طے ہوا کہ باقی باتیں وہ پاکستان براستہ برلن اور استنبول کریں گے۔ طلاق اگر آخری حل ہے تو وہ بھی پاکستان میں ہی ہوگی کیوں کہ شادی بھی وہیں ہوئی تھی۔ صابرہ و شاکرہ نیلم کو اس پر بھی کوئی اعتراض نہ تھا۔ برلن وہ ایک پیشہ ورانہ مصروفیت کی وجہ سے آئی تھی۔ ایک تجارتی ادارے جس میں Fashion Merchandiser کے طور پر نیلم ملازم تھی اس کا مالک ایک لبنانی عیسائی تھا اس پورے ادارے میں آٹھ دس ملازم تھے۔ برلن میں ترکی اور اور مشرقی یورپ کے فیشن ڈیزائینر کا شو تھا۔ مالک کا خیال تھا کہ وہ کچھ ملبوسات کو دیکھ لے ان کے بارے میں رپورٹ مرتب کر کے گڈی کو بھیج دے۔ باقی کام وہ سنبھال لے گی۔

سعید اور وہ ساتھ ہی برلن آئے تھے۔ وہ صبح اپنے کام سے نکلی تو خیال یہ تھا کہ شام کو واپس آن کر شہر دیکھیں گے۔ شام جب وہ واپس ہوٹل کے کمرے میں شاور لے رہی تھی تو سیل فون پر سعید کا میسج آ گیا کہ وہ فیروزہ سے ملنے بس میں بیٹھ کر اوسلو پہنچ گیا ہے۔ یوں بھی ان کا اصل پروگرام تو استنبول دیکھنے اور پاکستان جانے کا ہے۔ وہاں مل لیں گے۔ برلن تو باقی شہروں جیسا ہے۔ ان کی زیادہ تر گفتگو بے لطف ٹیکسٹ میسیجز پر ہی ہوتی تھی۔

اب جب وہ کبایا میں بیٹھے مینو دیکھ رہے تھے نیلم کے فون پر یکے بعد دیگرے کئی پیغامات موصول ہوئے۔ ارسلان کو لگا کر انہیں پڑھ کر وہ یک دم کچھ بے لطف سی ہو گئی۔ رکھ رکھاؤ کے مارے ارسلان نے پوچھا کہ سب خیریت ہے۔ وہ کہنے لگی کہ ’وہ اس کی مدد کرے کیوں کہ وہ بہت دنیا دار مرد لگتا ہے۔ اس کی سمجھ میں ایک بات نہیں آتی‘ ۔ اس پر ارسلان نے اسے کہا کہ ’اگر وہ اجازت دے تو وہ اسے ایک منٹ یہاں اس مقام پر روک لے‘ ۔ اجازت ملی تو وہ کہنے لگا کہ ’صرف ایک بات کا سمجھ میں نہ آنا تو خاص فکر کی کوئی بات نہیں‘ ۔ وہ مسکرا کر کھڑی ہو گئی اور کہنے لگی یہ آپ کی جیکٹ شاید آؤٹ ڈور کے لیے بہتر ہے۔ فی الحال مجھے اس میں گرمی لگ رہی ہے۔ اپنی نشست سے بلند ہونے کے عمل میں اس کی ٹی شرٹ ذرا اوپر اٹھ گئی اور ارسلان نے اس کی ناف کو غور سے دیکھتے ہوئے کہا یہ آپ کی نیول رنگ بہت خوب صورت ہے۔ نیلم کو یہ تعریف ناگوار تو محسوس نہ ہوئی مگر اسے سن کر اسے بہت خفیف سی حیرت بھی ہوئی مگر اس نے جواب دیا کہ میری سکھ دوست گڈی دہلی سے لائی تھی۔

ارسلان نے سلسلہ کلام جاری رکھنے کی خاطر پوچھ لیا کہ ’شاید کچھ ناپسندیدہ پیغامات اسے فون پر ملے ہیں؟‘ ۔ ’آپ کو کیسے اندازہ ہوا؟ نیلم نے پوچھا۔ ’آپ کے چہرے کے تاثرات سے۔ آپ کا چہرہ بہت Reflective ہے‘ ۔ ’یہ ارسلان کا جواب تھا جس کو سن کر نیلم نے کہا‘ اصل میں میں بہت بنیادی جذبات کی عورت ہوں ’۔ نیلم کو یہ بات کہنے کے بعد احساس ہوا کہ یہ تو بہت ہی اعترافی بیان ہے۔ اسے پر بند باندھنے کے لیے اس نے کہا۔‘ مجھے نہیں معلوم کہ مجھے یہ سب کچھ آپ سے شیئر کرنا چاہیے کہ نہیں۔ اس طرح کی صورتحال کا سامنا کبھی بھی مجھے نہیں کرنا پڑا کہ میں کسی غیر مرد کے ساتھ کھانے پر گئی ہوں یا اپنے بارے میں بات کی ہو۔ ’یہ سن کر ارسلان ہنس کر کہنے لگا‘ میں نے بھی اپنے بے ڈھنگے خوابوں تک میں یہ نہیں سوچا تھا کہ کسی فلائیٹ کا مس ہونا اتنا خوشگوار تجربہ بھی ثابت ہو سکتا ہے۔ آپ

کے ساتھ تو انسان مہران کریمی کے اٹھارہ سال سے بھی زائد کا عرصہ کسی ائر پورٹ ٹرمینل پر گزار سکتا ہے۔ نیلم کو یہ بات اچھی تو لگی مگر بہت بنیادی جذبات کی مالک ہونے کے باوجود وہ ایک عورت تھی اور ہر عورت کی مانند اسے اظہار و اخفا جسے عرب لف و نشر کہتے ہیں مکمل کنٹرول تھا۔ اس نے یہ بات سن کر اسے کہا پلیز۔ Not so soon and not so fast

(جاری ہے۔)

اقبال دیوان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

اقبال دیوان

محمد اقبال دیوان نے جوناگڑھ سے آنے والے ایک میمن گھرانے میں آنکھ کھولی۔ نام کی سخن سازی اور کار سرکار سے وابستگی کا دوگونہ بھرم رکھنے کے لیے محمد اقبال نے شہر کے سنگ و خشت سے تعلق جوڑا۔ کچھ طبیعتیں سرکاری منصب کے بوجھ سے گراں بار ہو جاتی ہیں۔ اقبال دیوان نےاس تہمت کا جشن منایا کہ ساری ملازمت رقص بسمل میں گزاری۔ اس سیاحی میں جو کنکر موتی ہاتھ آئے، انہیں چار کتابوں میں سمو دیا۔ افسانوں کا ایک مجموعہ زیر طبع ہے۔ زندگی کو گلے لگا کر جئیے اور رنگ و بو پہ ایک نگہ، جو بظاہر نگاہ سے کم ہے، رکھی۔ تحریر انگریزی اور اردو ادب کا ایک سموچا ہوا لطف دیتی ہے۔ نثر میں رچی ہوئی شوخی کی لٹک ایسی کارگر ہے کہ پڑھنے والا کشاں کشاں محمد اقبال دیوان کی دنیا میں کھنچا چلا جاتا ہے۔

iqbal-diwan has 96 posts and counting.See all posts by iqbal-diwan

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments
%d bloggers like this: