مالا علی محمود کردی: ’روحانی علاج‘ کرنے کے دعویدار اور پاکستان کے دورے پر آئے ’معالج‘ کون ہیں؟

عمر دراز ننگیانہ - بی بی سی اردو ڈاٹ کام، لاہور


پاکستان میں ان دنوں عراقی کردستان کے علاقے سے تعلق رکھنے والے ’مالا علی محمود کردی‘ نامی ایک شخص کا سوشل میڈیا پر کافی چرچہ ہے اور بظاہر کئی افراد ان سے ملنے اور ’علاج‘ کروانے کی خواہش رکھتے ہیں۔

یہاں تک کہ چند روز قبل اسلام آباد کے ڈپٹی کمشنر حمزہ شفقات نے بھی ایک ٹویٹ میں کہا تھا کہ انھوں نے یہ سُنا ہے کہ اسلام آباد میں کوئی ’روحانی معالج‘ موجود ہیں جس سے رابطے کے لیے لوگ ان کے محکمے (ڈپٹی کمشنر آفس) سے رجوع کر رہے ہیں۔ ڈپٹی کمشنر نے اپنی ٹویٹ میں کسی کا نام تو نہیں لیا لیکن ان دنوں اسلام آباد میں مالا علی کردستانی ہی موجود تھے۔

مالا علی محمود کردی یا مالا علی کردستانی خود کو طبیب کہتے ہیں اور ان کا دعوٰی ہے کہ وہ قرآن اور سنتِ نبوی کی مدد سے جسمانی طور پر معذور افراد کا علاج کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر ان کے نام سے اکاؤنٹ موجود ہیں جہاں چند ویڈیوز میں دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ وہ ’لوگوں پر آئے جن نکال رہے ہیں‘ یا قوت بینائی اور قوت سماعت سے محروم افراد کو ٹھیک کر رہے ہیں۔

چند روز قبل مالا علی نے پاکستان آنے کا اعلان کیا تھا۔ اپنے دورہ پاکستان کے دوران وہ پہلے صوبائی دارالحکومت لاہور پہنچے اور اس کے بعد گذشتہ چند روز سے اسلام آباد میں موجود تھے۔ اسلام آباد میں انھوں نے پاکستان کی کئی سیاسی اور مذہبی شخصیات سے ملاقاتیں بھی کیں۔

چند روز قبل سابق وزیرِاعظم یوسف رضا گیلانی نے اپنی رہائش گاہ پر اُن کا استقبال کیا تھا جس کی ویڈیو بھی جاری کی گئی تھی۔ سابق وزیر فردوس عاشق اعوان، سینیٹر طلحہ محمود اور دیگر کئی سیاستدانوں کے ساتھ ملاقات کی تصاویر بھی مالا علی کردستانی کے فیس بک پیچ پر موجود ہیں۔

پاکستان میں وہ جہاں بھی سفر کر رہے ہیں ان کی رہائش پوش علاقوں میں رہی ہے۔ ان کے یوٹیوب چینل اور فیس بک پیج پر موجود ویڈیوز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ اسلام آباد میں وہ سینیٹر طلحہ محمود کے ہمراہ ان کے فارم ہاؤس میں موجود ہیں۔

وہاں لوگوں کی ایک بڑی تعداد ان سے ملاقات کرنے کے لیے موجود ہے۔ یہ لوگ بظاہر ان سے ‘علاج’ کروانے کے خواہاں تھے۔ ان کے یوٹیوب چینل پر موجود ایک ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ وہ علاج کی خواہاں لوگوں سے اکثر ملاقات کرتے ہیں۔

وہ ایک ویڈیو میں ویل چیئر پر بیٹھی ایک معمر خاتون کے قریب کھڑے ہیں اور عربی میں خاتون سے مخاطب ہو کر کہتے ہیں کہ ’ڈرنا نہیں۔‘

بظاہر اس کے بعد وہ ان کی ٹانگ پکڑ کر جھٹکا دیتے ہیں جس سے خاتون کی سسکی نکلتی ہے۔ پھر یہی عمل وہ بظاہر دوسری ٹانگ پر کرتے ہیں اور اس کے بعد دکھایا گیا کہ وہ ان کی گردن کو بھی ایک خاص انداز سے بازوؤں میں دبا کر جھٹکتے ہیں جس پر ایک مرتبہ پھر معمر خاتوں کی سسکی سنائی دیتی ہے۔

ساتھ ہی وہ خاتون کو دونوں ہاتھوں سے پکڑ کر کھڑا کر دیتے ہیں اور تھوڑا چلاتے ہیں۔ خاتوں بمشکل چند قدم لیتی ہیں۔ اس کے بعد مالا علی کردستانی ان سے عربی میں کہتے ہیں کہ اب انھیں ’ڈرنے کی ضرورت نہیں، اب وہ ٹھیک ہو چکی ہیں۔‘

اس طرز کی کئی ویڈیو ان کے سوشل میڈیا پر موجود ہیں۔

پاکستان میں سوشل میڈیا پر صارف یہ سوال کرتے نظر آ رہے ہیں کہ یہ مالا علی کردستانی ہیں کون اور کیا ان کے پاس واقعی علاج کرنے کی بظاہر ’جادوئی‘ قابلیت موجود ہے۔

کئی صارفین نے چند ایسی خبروں کا حوالہ بھی دیا جن کے مطابق چند ماہ پہلے اگست میں مالا علی کردستانی کے دفتر کو ترکی میں پولیس نے بند کر کے سیل کر دیا تھا۔ خبروں کے مطابق گذشتہ برس انھیں ’دھوکہ دہی‘ کے الزام میں سعودی عرب کے شہر مدینہ میں گرفتار کیا گیا تھا۔

بی بی سی اردو نے اس حوالے سے معلومات حاصل کرنے کی کوشش کی اور مالا علی کردستانی کے حوالے سے معلومات جمع کیں۔

مالا علی کردستانی کون ہیں؟

ترکی میں وہ اپنا نام ملا علی کلکی استعمال کرتے تھے۔ اِن دنوں ان کے فیس بک پیج کے مطابق ان کا نام ’طبیب مالا علی محمود کردی‘ ہے جبکہ ساتھ ہی اپنے تعارف میں انھوں نے اپنا نام علی محمود حسن بھی بتا رکھا ہے۔

ترکی میں مقیم بی بی سی فارسی کے نمائندے مہرداد فراہمند کے مطابق مالا علی کردستانی کا تعلق عراقی کردستان کے ایک علاقے کلک سے ہے جو اربیل شہر سے باہر واقع ہے۔

یہ بھی پڑھیے

یوٹیوب مبلغ جنھیں ہر کوئی دوسرے کا ’ایجنٹ‘ قرار دیتا ہے

’ارطغرل‘ لاہور میں: ’بھائی یہ تو شروع ہوتے ہی ختم ہوگیا‘

ابتدا میں انھوں نے کلک میں اپنا ایک کلینک قائم کیا تھا جہاں لوگ بڑی تعداد میں معذور افراد کو ان سے ’علاج‘ کروانے کی غرض سے لے کر آتے تھے۔ تاہم بعد میں کردستانی حکام نے انھیں کردستان سے بیدخل کر دیا جس کے بعد وہ سعودی عرب چلے گئے۔

مہرداد فراہمند کے مطابق ابتدا میں مالا علی کردستانی انگریزی زبان کے استاد تھے۔ ’تاہم کچھ عرصہ قبل اچانک انھوں نے عالم یا مذہبی شخص کا روپ دھار لیا اور مذہبی شخصیات کی طرح کا لباس پہننا بھی شروع کر دیا۔‘

کیا ان کے پاس مذہب کی تعلیم ہے؟

بی بی سی فارسی کے ترکی میں مقیم نمائندے کے مطابق مالا علی کردستانی نے کبھی کسی دینی مدرسے وغیرہ سے شریعت کی تعلیم حاصل نہیں کی۔ مہرداد فراہمند کے مطابق یہی وجہ تھی کہ عراق اور خاص طور پر عراقی کردستان میں علما اور مذہبی شخصیات ان کی شدید مخالف ہیں۔

یاد رہے کہ مالا علی کردستانی یہ دعوٰی کرتے ہیں کہ وہ ’اسلامی طریقے سے لوگوں کا روحانی علاج‘ کرنے کی قابلیت رکھتے ہیں۔

مالا علی کردستانی کے دعوے؟

مالا علی کردستانی کے یوٹیوب چینل پر موجود ویڈیوز میں دکھایا گیا ہے کہ وہ ان کے پاس ’علاج‘ کی غرض سے آنے والوں پر بظاہر کچھ پڑھ کر پھونکتے ہیں۔

ان کی کئی ویڈیوز پر یہ بھی لکھا دیکھا گیا ہے کہ یہ ’خوفناک ویڈیو ہے، اس میں جن نے مالا علی پر حملہ کر دیا۔‘ اس ویڈیو میں دکھایا جاتا ہے کہ مذکورہ شخص جذباتی انداز میں پیش آ رہا ہے اور وہ اسے قابو کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

ان ویڈیو میں وہ یہ بھی دعوٰی کرتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ گونگے اور بہرے افراد سننے اور بولنے لگتے ہیں یا نابینا افراد دیکھنے لگتے ہیں۔

ایسی ہی ایک ویڈیو میں گذشتہ برس سعودی عرب کے شہر مدینہ میں وہ ایک بظاہر نابینا شخص کی آنکھوں پر لعاب لگا کر کچھ پڑھتے ہیں جس کے بعد وہ شخص کہتا ہے کہ اسے نظر آنا شروع ہو گیا ہے۔

لیکن کیا وہ شخص واقعی نابینا تھا؟

سعودی ذرائع ابلاغ میں شائع ہونے والی چند خبروں کے مطابق اس واقع کے بعد مالا علی کردستانی کو سعودی عرب میں ’لوگوں کو دھوکہ دینے اور شعبدہ بازی‘ کے الزام میں گرفتار کر لیا گیا تھا۔

تاہم سعودی عرب کے شہر ریاض میں مقیم ایک مقامی صحافی نے بی بی سی کو بتایا کہ سعودی حکام سے حاصل کردہ معلومات کے مطابق مالا علی کردستانی کو گرفتار تو نہیں کیا گیا تھا تاہم انھیں وارننگ دی گئی تھی کہ وہ ایسی حرکتوں سے باز رہیں۔

صحافی کے مطابق ’انھیں وارننگ دی گئی تھی کہ وہ مقدس شہر مدینہ میں شعبدہ بازی کے مرتکب ہو رہے ہیں اس لیے وہ عمرہ اور روضہ رسول پر حاضری دینے کی جس غرض سے حاضر ہوئے ہیں، باقی زائرین کی طرح وہی کریں اور اپنی شعبدہ بازی کے طریقے کسی اور جگہ استعمال کریں۔‘

مقامی صحافی کے مطابق سعودی حکام نے انھیں بتایا کہ مالا علی کردستانی نے سعودی عرب میں جس شخص کی بینائی واپس لانے کا دعوٰی کیا تھا وہ کوئی سعودی شہری نہیں تھا بلکہ مالا علی کردستانی کے اپنے علاقے کا رہنے والا تھا اور یہ کہ وہ نابینا بھی نہیں تھا، اس کی صرف بینائی کمزور تھی۔

مالا علی کردستانی کے نظریات کس نوعیت کے ہیں؟

بی بی سی فارسی کے نمائندے مہرداد فراہمند کے مطابق مالا علی کردستانی نے اپنے چند نظریات پیش کیے تھے جو انتہائی غیر معمولی نوعیت کے تھے۔

’ایک موقع پر ان کا یہ کہنا تھا کہ اگر کوئی گنجے پن کا شکار ہو اور بال اگانا چاہتا ہو تو وہ گائے وغیرہ کے گوبر کو ایک خاص قسم کے تیل کے ساتھ ملا کر سر پر لگائے تو 71 دنوں کے بعد اس کے سر پر بال اگنا شروع ہو جائیں گے۔‘

تاہم بعد ازاں معلوم ہوا تھا کہ مالا علی کردستانی جو کہ خود گنجے پن کا شکار تھے، وہ ترکی سے مصنوعی طریقے یعنی سرجری کے ذریعے بال لگوا کر آئے تھے۔

وہ لائیو ٹی وی پر اپنا دعوٰی ثابت نہیں کر پائے

نمائندہ بی بی سی فارسی مہرداد فراہمند کے مطابق ایک موقع پر عراق کے شہر اربیل میں انھیں ایک لائیو ٹی وی شو میں مدعو کیا گیا اور انھیں پہلے سے بتائے بغیر وہاں ایک ایسے شخص کو بھی بلایا گیا تھا جو کہ جسمانی طور پر مفلوج تھے یعنی فالج کا شکار تھے۔

لائیو ٹی وی پروگرام میں ان سے کہا گیا تھا کہ وہ فالج کا شکار اس شخص کو ٹھیک کریں لیکن مالا علی کردستانی ایسا نہیں کر پائے تھے۔

’اس کے بعد انھوں نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ اس کے لیے چند شرائط ہونا ضروری ہوتی ہیں جیسا کہ انھیں روزے کی حالت میں ہونا چاہیے اور کچھ خاص انتظامات کرنے ہوتے ہیں۔ لیکن اس ٹی وی پروگرام کے بعد عراقی کردستان میں ان کی مقبولیت کو بہت دھچکا پہنچا تھا۔‘

ترکی میں ان کے دفتر پر پولیس نے کیوں چھاپہ مارا؟

ترکی کے ایک مقبول جریدے ’یینیشفک‘ نے رواں برس سات اگست کو ایک خبر شائع کی جس میں بتایا گیا کہ مالا علی کردستانی نے استنبول کے ایک علاقے بشک شہر میں دفتر قائم کیا تھا۔ تاہم پولیس نے ’لوگوں کو چھڑی سے مارنے کی شکایات پر ان کا دفتر سیل کر دیا تھا۔‘

استنبول میں مقیم ایک مقامی صحافی نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کی اطلاعات کے مطابق ’مالا علی کردستانی کے پاس ایک تو کوئی لائسنس وغیرہ نہیں تھا اور علاج کرنے کی کوئی ڈاکٹری قابلیت نہیں تھی۔‘

’ساتھ ہی ان کے خلاف ایک خاندان نے پولیس کو شکایت بھی کی تھی کہ ان کے آٹزم کے شکار بچے کو بظاہر علاج کے دوران تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا۔‘

اس کے بعد ان کے دفتر پر پولیس نے چھاپہ مار کر اسے بند کر دیا تھا جبکہ جریدے یینیشفک کے مطابق پولیس ان کی گرفتاری کے لیے کوششیں کر رہی تھی۔ جریدے کے مطابق اس پولیس کارروائی کے بعد مالا علی کردستانی نے ہوٹلوں اور گاڑیوں کے اندر لوگوں سے ملنا جاری رکھا ہوا تھا۔

مالا علی کردستانی ترکی سے پاکستان کیسے پہنچے؟

یہ واضح نہیں کہ ترکی میں پولیس نے انھیں گرفتار کیا یا نہیں اور ان کے خلاف پولیس کی کارروائی کا انجام کیا ہوا۔ بی بی سی نے اس حوالے سے ترکی میں حکام سے جاننے کی کوشش کی تاہم معلومات میسر نہیں ہو پائیں۔

تاہم حال ہی میں لگ بھگ دو سے تین ہفتے قبل مالا علی کردستانی پاکستان پہنچے تھے۔ یہاں انھوں نے سوشل میڈیا پر اپنا نام طبیب مالا علی محمود کردی بتایا۔

پاکستان کے صوبے خیبرپختونخوا کے شہر پشاور میں مجلسِ علما حیات آباد کے سیکریٹری جنرل مولانا ظہیر الرحمان نے بی بی سی کو بتایا کہ اسلام آباد میں سینیٹر طلحہ محمود کے فارم ہاؤس پر ان کی مالا علی کردستانی سے ملاقات ہوئی تھی۔

انھوں نے بتایا کہ کردستانی پشاور جانے کا ارادہ رکھتے تھے جہاں کئی افراد ان کے منتظر تھے تاہم چند وجوہات کی بنا پر انھوں نے پشاور جانے کا ارادہ ترک کر دیا تھا۔

مولانا ظہیر الرحمان کا کہنا تھا کہ ان کی مالا علی کردستانی سے محدود وقت کے لیے ملاقات ہوئی اور وہ اپنے چند دوستوں کے ساتھ اس لیے اسلام آباد گئے تھے تاکہ مالا علی کردستانی کو پشاور لا سکیں جہاں چند شخصیات ان کی مہمان نوازی کرنے کے لیے تیار تھیں اور کئی بیمار افراد ان سے علاج کروانا چاہتے تھے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32296 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments