پارلیمان کا مشترکہ اجلاس: کیا حکومت متنازع انتخابی اصلاحات کا بل پاس کروا پائے گی؟


پارلیمنٹ اجلاس
پاکستان کی پارلیمان کے آج ہونے والے مشترکہ اجلاس میں ملک میں انتخابی اصلاحات سمیت متعدد اہم بل پیش کیے جانے کی توقع کی جا رہی ہے۔

حکومت نے اس سے قبل اپنے اتحادیوں، بالخصوص مسلم لیگ (ق) اور ایم کیو ایم پاکستان کی جانب سے انتخابی اصلاحات کے بل پر تحفظات کے بعد گذشتہ ہفتے طلب کیا گیا پارلیمان کا مشترکہ اجلاس ملتوی کر دیا تھا۔ حکومتی اتحادی جماعتوں بشمول پاکستان مسلم لیگ ق اور ایم کیو ایم پاکستان سمیت دیگر چھوٹی سیاسی جماعتوں کے قائدین سے مشاورت کا عمل مکمل ہونے کے بعد اب حکومت ان بلوں کی منظوری کے لیے پراعتماد دکھائی دیتی ہے۔

تاہم دوسری جانب اپوزیشن کا دعویٰ ہے کہ وہ اس نوعیت کی قانون سازی، جس پر اپوزیشن سے کوئی مشاورت نہیں کی گئی، کو روکنے کے لیے ہر ممکن اقدامات کرے گی۔

آج زیرِ بحث آنے والے مجوزہ بلوں میں سب زیادہ متنازع انتخابی اصلاحات کا معاملہ ہے جس میں دو سوالات انتہائی اہم ہیں۔ پہلا کہ بیرونِ ممالک مقیم پاکستانیوں کو ووٹ کے حق کا معاملہ اور دوسرا آئندہ عام انتخابات میں الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کا استعمال ہے۔ ان دونوں سوالات پر حکومت اور حزب اختلاف کے درمیان ایک واضح خلیج نظر آ رہی ہے۔

اس کے علاوہ ایک رائے یہ بھی ہے کہ انتخابی اصلاحات کے لیے کیا حکومت کو آئینی ترمیم درکار ہے یا پھر سادہ اکثریت سے یہ بل پاس کیے جا سکتے ہیں۔ مشترکہ اجلاس کے تناظر میں بظاہر حکمران اتحاد کو قومی اسمبلی میں 17 ووٹوں کی اکثریت حاصل ہے جبکہ سینیٹ میں وہ اپوزیشن سے 15 ووٹوں سے پیچھے ہے۔ اس کے علاوہ دونوں جانب سے اراکین کی عدم موجودگی بھی ان اعداد و شمار پر اثر انداز ہو سکتی ہے۔

الیکٹرانک ووٹنگ مشین

انتخابی اصلاحات کے بل میں ایک شق آئندہ عام انتخابات میں الیکڑانک ووٹنگ مشینوں کے استعمال سے متعلق ہے۔

وزیر اعظم عمران خان ملک میں ہونے والے عام انتخابات میں الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے استعمال پر زور دیتے ہیں اور اس کے علاوہ الگ سے فنڈ بھی رکھے گئے ہیں جبکہ حزب مخالف کی جماعتیں الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے استعمال کو یکسر مسترد کر چکی ہیں جبکہ الیکشن کمیشن نے بھی اس پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔

اپوزیشن جماعتوں کا کہنا ہے کہ آئندہ انتخابات میں الیکٹرانک وونٹگ مشین کا استعمال ’الیکشن چرانے‘ کے مترادف ہو گا۔

حزب مخالف کی سب سے بڑی جماعت پاکستان مسلم لیگ نواز کے رکن قومی اسمبلی محسن شاہنواز رانجھا نے چند روز قبل بی بی سی کو بتایا تھا کہ پاکستان میں شرح خواندگی اتنی تسلی بخش نہیں ہے۔ ’جس ملک میں لوگوں کی اکثریت کو پیسے نکلوانے کے لیے اے ٹی ایم مشین استعمال نہ کرنا آتا ہو وہاں ووٹنگ مشین کا درست استعمال کیسے ممکن ہو پائے گا۔‘

یہ بھی پڑھیے

’لوگوں کو اے ٹی ایم مشین چلانے کا پتا نہیں وہ الیکٹرانک ووٹنگ مشین کیسے استعمال کریں گے؟‘

مشترکہ پارلیمانی اجلاس: منسوخی کی اصل وجہ انتخابی اصلاحات پر اتحادی جماعتوں کے تحفظات ہیں؟

’انتخابی اصلاحات حکومت اور اپوزیشن کی بات نہیں، جمہوریت کے مستقبل کی بات ہے‘

انڈیا: ’ووٹنگ مشین صرف بی جے پی کے ووٹ چھاپنے لگی‘

انڈیا کو برقی ووٹنگ مشینوں پر بھروسہ کیوں نہیں؟

ووٹنگ کی الیکٹرونک مشینیں دھاندلی سے کتنی محفوظ ہیں؟

الیکٹرانک ووٹنگ

ادھر پاکستان پیپلز پارٹی کی ممبر قومی اسمبلی شازیہ مری نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس طرح کی متنازع قانون سازی ’ملک کے بااثر اداروں‘ کو جمہوری اداروں میں مداخلت کے زیادہ مواقع فراہم کرتی ہے۔

انھوں نے کہا تھا کہ حکومت نے الیکشن ایکٹ سنہ 2017 میں جس جلد بازی میں ترامیم متعارف کروائی ہیں اس سے یہی لگ رہا ہے کہ دال میں کچھ کالا ہے۔

ادھر وزیر اطلاعات فواد چوہدری کہہ چکے ہیں کہ الیکٹرانک ووٹنگ مشین رائے شماری کی شفافیت کے معاملے میں سب سے زیادہ مؤثر ہے اور ان کے بقول لوگوں کو سب سے زیادہ اعتبار اس مشین پر ہے۔

الیکشن کمیشن کے تحفظات

انتخابی اصلاحات کے بل اور آئندہ عام انتحابات میں الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے استعمال کے بارے میں الیکشن کمیشن نے اپنے تحفظات کا اظہار کیا تھا اور یہ بھی کہا تھا کہ ایسا کرنے کے لیے آئین میں ترمیم کرنا ضروری ہے لیکن حکومت سادہ اکثریت سے اس بل کو پارلیمنٹ سے منظور کروا کر اس پر عمل درآمد کرنے پر بضد ہے۔

الیکشن کمیشن کے حکام نے ای وی ایم کے استعمال کے بارے میں اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے37 نکات تحریری شکل میں پارلیمانی امور کے بارے میں سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کو بتائے تھے۔

ان تحفظات میں سب سے بڑا نکتہ ہے کہ الیکٹرانک مشین قابل بھروسہ نہیں ہے اور اس کے استعمال سے دھاندلی کو نہیں رو کا جا سکتا اور اس مشین کو کسی وقت بھی ہیک کیا جاسکتا ہے۔

الیکشن کمیشن نے اپنے تحفظات میں اس بات کا بھی ذکر کیا ہے کہ اس مشین کے سافٹ ویئر میں کسی وقت بھی تبدیلی لائی جا سکتی ہے اس کے علاوہ الیکشن کمیشن کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس بات پر یقین کرنا مشکل ہے کہ ہر مشین ایک ہی دن میں صحیح طریقے سے کام کرے گی۔

ای وی ایم

الیکشن کمیشن کا کہنا ہے کہ ملک میں شرح خواندنگی کم ہونے اور ووٹروں میں اس مشین کے استعمال کے بارے میں میں آگہی نہ ہونے کی وجہ سے اس مشین کو انتخابات میں استعمال کرنا ٹھیک نہیں ہوگا۔

الیکشن کمیشن نے اپنے تحفظات میں اس بات کا بھی ذکر کیا ہے کہ الیکشن کمیشن کے سٹاف کو اس مشین کے استعمال کی تربیت دینے میں وقت بہت کم ہے اس کے علاوہ سب سے بڑھ کر بات یہ ہے کہ اس مشین کے استعمال کے سلسلے میں سٹیک ہولڈز یعنی سیاسی جماعتوں میں اتفاق رائے موجود نہیں ہے اور ایسی صورت حال میں انتخابات میں غیر جانبدارانہ ہونے پر سوال اٹھیں گے۔

اپنے تحفظات میں الیکشن کمیشن کا کہنا تھا کہ الیکٹرانک ووٹنگ مشین کا معاملہ جلد بازی اور عجلت میں کیا گیا ہے جو کہ بین الاقوامی معیار کی نفی ہے۔

الیکشن کمیشن نے الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے بارے میں اپنے تحفظات میں اس بات کا بھی ذکر کیا ہے کہ یہ مشین ووٹروں کے کم ٹرن آؤٹ، ریاستی مشینری کے ناجائز استعمال، الیکشن میں دھاندلی، بددیانت پولنگ سٹاف کی تعیناتی اور انتخابی لڑائی جھگڑوں کو بھی نہیں روک سکتی۔

الیکشن کمیشن نے اپنے تحفظات میں ان یورپی ملکوں کا بھی ذکر کیا ہے جہاں پر الیکٹرانک ووٹنگ کا استعمال اس مشین پر اٹھنے والے اعتراضات کی وجہ سے روک دیا گیا ہے۔ ان ملکوں میں جرمنی، ہالینڈ، اٹلی، فرانس اور آئرلینڈ شامل ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32291 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments