خدا حافظ تبدیلی سرکار


پاکستان کا سیاسی موسم تیزی سے تبدیل ہو رہا ہے۔ اور موسمی اثرات کے سبب عمران اینڈ کمپنی شدید بوکھلاہٹ کا شکار ہے۔ اپوزیشن کے غبارے میں ایک بار پھر ہوا بھر گئی ہے۔ جس کی سب سے بڑی وجہ عمران خان اور کنٹرول ٹاور کے درمیان اس پیج کا پھٹنا ہے جس پر کچھ عرصے پہلے تک عمران اینڈ کمپنی مضبوطی سے کھڑی نظر آتی تھی۔ کل تک تبدیلی سرکار کی کشتی جب بھی کسی سیاسی منجدھار میں پھنستی تو صرف ایک اشارے پر اس ڈوبتی کشتی کو کنارے لگا دیا جاتا۔

کپتان کے خلاف چلنے والی زبانوں کو لگام دینے کے لئے ان کی زباں بندی کرا دی جاتی۔ میڈیا کو پابند سلاسل کر دیا جاتا۔ حزب اختلاف کی جماعتوں کی چلائی جانے والی حکومت مخالف تحریکوں کو دبانے کے لئے ان کے درمیان تفریق پیدا کرا دی جاتی۔ جس سے حکومت مضبوط اور حزب اختلاف بکھری نظر آتی۔ مگر اب طاقت ور حلقوں اور تبدیلی سرکار کے درمیان تعلقات میں ایسا تناؤ پیدا ہو چکا ہے جو کم ہوتا نظر نہیں آتا۔ یہ بات بھی ذہن نشین کرلی جائے کہ پاکستان میں سیاسی تبدیلی کا عمل طاقت کے مراکز کے درمیان ٹکراؤ کا ہی نتیجہ ہوتا ہے۔ اور اس ہی تناظر میں تبدیلی سرکار ہچکولے کھاتی نظر آ رہی ہے۔

اس بات میں قطعی کوئی دو رائے نہیں کہ عمران خان حکومت کنٹرول ٹاور کی طرف سے دی گئی سیاسی امداد کے ذریعے ہی وجود میں آئی۔ اگر اس کی سیاسی امداد نا کی جاتی تو نیازی حکومت وجود میں ہی نہیں آتی۔ یہ کنٹرول ٹاور ہی تھا جس نے انتخابات سے پہلے کنٹرول میڈیا کے ذریعے عمران خان نیازی کی رات دن تشہیر کرائی۔ عوامی ذہنوں سے کھیلتے ہوئے ان کی برین واشنگ کی اور عمران خان کو مسیحا ثابت کیا گیا۔ اور برسوں سے پسی،کچلی مظلوم عوام ان کے شکنجے میں آ گئی۔ الیکشن 2018 میں کیا ہوا کیا نہیں اس پر بہت کچھ کہا اور لکھا جا چکا ہے، لہذا میں اس کی گہرائی میں جانا نہیں چاہتا۔ مگر یہ حقیقت ہے کہ اکثریت نا ہونے کہ باوجود کنٹرول ٹاور کی دی گئی بے ساکھیوں کے سہارے ان کی حکومت معرض وجود میں آئی۔

حکومت تشکیل دینے کے لئے ان کو پنجاب کے ”سب سے بڑے ڈاکووں“ اور کرانچی کے ”نفیس بھائیوں“ کی سیاسی امداد سے نوازا گیا۔ جب کہ بڑی تعداد میں الیکٹیبلز کو بھی حکومتی صفوں میں شامل کرایا گیا۔ تب کہیں جا کر تبدیلی سرکار برسر اقتدار آئی۔

عمران خان کے بارے میں یہ بات مشہور ہے کہ وہ وقت کے ساتھ اپنے محسنوں کے احسانات کو بھولنے میں ذرا بھی لحاظ نہیں کرتے۔ اور ایک جھٹکے میں ان سے احسان فراموشی کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ تحریک انصاف کے بانی ارکان جسٹس وجیہہ الدین، اکبر ایس بابر، حامد خان اور سب سے بڑھ کر جہانگیر ترین اس کی زندہ و جاوداں مثال ہیں۔

تحریک انصاف کے قیام کے بعد ایک ایسا تاثر قائم ہوا کہ پاکستان تحریک انصاف کی بنیاد سرمایہ دارانہ، جاگیر دارانہ نظام اور فرسودہ موروثی سیاست کے خلاف رکھی گئی ہے۔ جس کی بنا پر اس کو مقبولیت بھی حاصل ہوئی اور بائیں بازو کی سوچ و ترقی پسند خیالات رکھنے والی شخصیات کثیر تعداد میں پارٹی میں شامل ہونے لگیں۔ جس میں سب سے قد آور شخصیت کامریڈ معراج محمد خان مرحوم کی تھی۔ جن کی ساری زندگی سرمایہ دارانہ و جاگیر دارانہ نظام اور آمریت سے لڑتے ان کو للکارتے گزری۔

ان جیسی شخصیت کی شمولیت کے بعد بائیں بازو کی حامیوں میں امید پیدا ہوئی کہ تحریک انصاف کی شکل میں ملک کو بائیں بازو کی نظریاتی سیاسی جماعت مل گئی۔ اور تحریک انصاف ملک میں جاری سرمایہ دارانہ جاگیر دارانہ و آمرانہ نظام کے خلاف بھرپور جدوجہد کرے گی۔ مگر سلام ہے معراج محمد خان جیسے زیرک نظریاتی لیڈر پر، جن کی نظروں نے ابتدا میں ہی جان لیا تھا کہ عمران خان کی پرواز لیفٹ سے رائٹ دائیں بازوں کی طرف ہو چکی ہے۔ اور اس کا ادراک ہوتے ہی اس اصول پرست کامریڈ مرد مجاہد معراج محمد خان مرحوم نے عمران خان اور تحریک انصاف سے اپنی راہیں ہمیشہ کے لئے جدا کر لیں۔

معراج محمد خان کی رخصتی کے بعد آہستہ آہستہ پی ٹی آئی اپنے تمام اصولی اور نظریاتی سوچ رکھنے والے تحریک کے بانی ارکان کو خود سے الگ کرتی گئی۔ حامد خان، فوزیہ قصوری، اکبر ایس بابر، جسٹس وجیہہ الدین جیسے اصولی اور نظریاتی ارکان نکال باہر کر دیے گئے۔ اور کپتان اپنے ان وفادار ساتھیوں کی جگہ فواد چوہدری، فردوس عاشق اعوان، شہباز گل، اور فیاض الحسن چوہان جیسے بدبودار اور سیاسی وفاداریاں بدلنے والے لوٹوں کو اپنی صفوں میں شامل کرتے گئے۔ جنھوں نے تحریک انصاف کو ناقابل تلافی حد تک نقصان پہنچایا۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا تبدیلی سرکار نے پرانے پاکستان کا حلیہ بگاڑ دیا۔

وقت اب بدل چکا ہے نیا پاکستان بنانے والے عمران خان کے کرپٹ اور نا اہل سہولت کار اب خود بھاگنے والے ہیں۔ ملک میں مہنگائی کی وجہ سے عوام کی زندگی اجیرن ہو چکی ہے۔ حکومت کی ناکام معاشی پالیسیوں کی وجہ سے ملک کئی دہائی پیچھے چلا گیا ہے۔ بڑھتی ہوئی مہنگائی بے روزگاری اور لاقانونیت کے خلاف ملک بھر میں مظاہرے ہو رہے ہیں۔ اور ان مخدوش حالات میں حکومت اور کنٹرول ٹاور کے درمیان ایک ایسی دراڑ پیدا ہو چکی ہے جس کی وجہ سے اس بار کپتان کو پہلے کی طرح کنٹرول ٹاور کی سہولت کاری حاصل کرنا ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔

اور ایسے میں حکومتی اہم اتحادی ”قاف لیگ“ اور ایم کیو ایم پاکستان جن کے سہارے حکومت بے ساکھیوں پر کھڑی دکھائی دیتی ہے صرف ایک اشارے کے منتظر ہیں۔ اور ان کو جیسے ہی اشارہ ہوا وہ تبدیلی سرکار کو فراہم کردہ اپنی سابقہ سہولت کاری پر معافی تلافی کرتے ہوئے موجودہ حکومت کی ڈوبتی ہوئی کشتی سے چھلانگ لگاتے نظر آئیں گے۔ جس طرح حالات کی تپش کو محسوس کرتے ہوئے اور ایک بار پھر اپنے ہی مفاد میں میڈیا ہاؤسز میں بیٹھے ہوئے کچھ چابی کے کھلونے نما اینکرز حضرات تبدیلی سرکار کی سرپرستی اور قوم کو سبز باغ دکھانے کے جرم میں معافیاں مانگتے پھر رہے ہیں۔

وہ وقت دور نہیں بلکہ بہت نزدیک ہے جب کپتان کی ٹیم میں شامل تمام کرائے کے کھلاڑی اور ڈگڈگی پر ناچنے والے چابی کے کھلونے عمران خان سے دور بہت دور کھڑے نظر آئیں گے۔ اور ایسے میں کپتان کی نظریں اپنے ان پرانے اور وفادار ساتھیوں کو کھوج رہی ہوں گی جن کو اس نے خود اپنے سے دور کر لیا اور مفاد پرست سیاسی لوٹوں کو سینے سے لگا کر طاقت ور حلقوں کے ایما پر ایک کٹھ پتلی کی طرح ناچتا رہا۔

بکھر جائیں گے ہم کیا جب تماشا ختم ہو گا
مرے معبود آخر کب تماشا ختم ہو گا

کہانی میں نئے کردار شامل ہو گئے ہیں
نہیں معلوم اب کس ڈھب تماشا ختم ہو گا

تماشا کرنے والوں کو خبر دی جا چکی ہے
کہ پردہ کب گرے گا کب تماشا ختم ہو گا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments