گودار میں دھرنا: غیرقانونی ماہی گیری اور سرحدی تجارت میں ’رکاوٹوں‘ کے خلاف مقامی افراد کا احتجاج

محمد کاظم - بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کوئٹہ


گوادار
بلوچستان کے ساحلی ضلع گوادر سے تعلق رکھنے والے 34 سالہ نصیب نوشیروانی تین روز سے سمندر میں مچھلی پکڑنے کے لیے جانے کے بجائے اس احتجاجی دھرنے میں شریک ہیں جو کہ گوادر شہر میں دیا جا رہا ہے۔

نصیب نوشیروانی کی طرح محمد یعقوب جوسکی بھی اس دھرنے میں شریک ہیں اور وہ گوادار کے قرب و جوار کے کسی علاقے سے نہیں بلکہ 120 کلومیٹر دور تربت سے یہاں آئے ہیں۔

گوادر میں یہ دھرنا ’گوادر کو حق دو‘ تحریک کے زیر اہتمام دیا جا رہا ہے اور مقامی سطح پر اس کا شمار گوادر کی تاریخ کی بڑی احتجاجی سرگرمیوں میں ہو رہا ہے۔

نصیب نوشیروانی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ باہر سے آنے والے ٹرالروں (کشتیوں) کی غیر قانونی ماہی گیری نے گوادر کے علاقے میں سمندر کو بانجھ بنا دیا ہے جس کے باعث ماہی گیروں کا معاش اس قدر متاثر ہوا ہے کہ اب اُن (نصیب) کو کوئی دکاندار ادھار پر راشن دینے کے لیے تیار نہیں ہے۔

جبکہ یعقوب جوسکی نے بتایا کہ گوادر اور کیچ سمیت مکران کے لوگوں کے معاش کا انحصار ایرانی اشیا کی تجارت پر تھا لیکن کورونا کی وبا کے بعد اس تجارت کو بند کر دیا گیا ہے۔

بی بی سی سے فون پر بات کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ ’یہ کہا جا رہا تھا کہ گوادر سنگاپور اور دبئی بن گیا ہے لیکن کوئی آ کر دیکھے یہاں کیا ہو رہا ہے، ہم سے تو ہمارا معاش اور روزگار چھن گیا ہے۔‘

دوسری جانب محکمہ فشریز کے حکام کا کہنا ہے کہ ضلع گوادر میں بلوچستان کی سمندری حدود میں ٹرالروں کے ذریعے غیر قانونی ماہی گیری ایک بڑا مسئلہ ہے لیکن اس کی روک تھام کے لیے اقدامات کیے جا رہے ہیں۔

جبکہ بلوچستان میں حکمران جماعت کے ترجمان اور صوبائی وزیر سردار عبدالرحمان کھیتران کا کہنا ہے کہ ایران سے آنے والی اشیا اور دیگر مسائل کے حوالے سے گوادر سمیت مکران کے لوگوں کو جن مشکلات کا سامنا ہے ان کو دور کیا جا رہا ہے۔

دھرنے کے شرکا کے اہم مطالبات کیا ہیں؟

گوادر

گوادر میں گذشتہ کئی سالوں سے مختلف مسائل کے حوالے سے احتجاج کا سلسلہ جاری ہے لیکن رواں سال ان میں شدت آئی ہے۔

دو، تین ماہ قبل کوسٹل ہائی وے پر دھرنا دیا گیا جس میں یہ اعلان کیا گیا کہ اگر گوادر کے عوام کے مطالبات کو تسلیم نہیں کیا گیا تو گوادر میں ایک احتجاجی ریلی نکالی جائے گی جس میں آئندہ کے لائحہ عمل کا اعلان کیا جائے گا۔

’گوادر کو حق دو‘ تحریک کے زیر اہتمام چند روز قبل ایک بڑی احتجاجی ریلی نکالی گئی جس میں مطالبات تسلیم نہ ہونے کی صورت میں 15 نومبر سے دھرنے کا اعلان کیا گیا تھا۔

اور اسی شیڈول کے مطابق دو روز قبل یعنی 15 نومبر کو پورٹ روڈ پر دھرنے کا آغاز کر دیا گیا ہے۔

اس دھرنے میں شامل شرکا کے اہم مطالبات میں بلوچستان کی سمندری حدود میں ٹرالروں کی غیر قانونی ماہی گیری کو روکنا، ایران سے آنے والی اشیا کی آمد کی راہ میں رکاوٹوں کا خاتمہ اور قانون نافذ کرنے والے اداروں اور سکیورٹی فورسز کی ان چیک پوسٹوں کا خاتمہ ہے جن سے مقامی لوگوں اور ماہی گیروں کو مشکلات کا سامنا ہے۔

اس دھرنے میں شامل جماعت اسلامی کے مولانا ہدایت الرحمان نے فون پر بتایا کہ اگرچہ ٹرالروں کے ذریعے غیر قانونی ماہی گیری سے گوادر کے ماہی گیروں کو مسائل درپیش ہیں لیکن ایران سے آنے والے تیل اور خوردنی اشیا کی آمد پر سختی کی وجہ سے پورا مکران متاثر ہوا ہے۔

دھرنے سے قبل جو بڑی احتجاجی ریلی ہوئی اس کے بعد نہ صرف حکومت بلوچستان نے تاحکم ثانی محکمہ فشریز کے ہیڈکوارٹر کو کوئٹہ سے گوادر منتقل کیا تھا بلکہ گوادر میں بہت سی چیک پوسٹوں کو بھی ختم کیا گیا تھا لیکن ’گوادر کو حق دو تحریک‘ کے رہنما اس سے مطمئن نہیں ہیں۔

مولانا ہدایت الرحمان نے کہا کہ ’ہم کہتے ہیں کہ گوادر کی سمندری حدود میں غیر قانونی ماہی گیری کو روک لو، لیکن انھوں نے محکمہ فشریز کے ہیڈکوارٹر کو منتقل کر دیا۔ ہمارا اصل مطالبہ یہ ہے کہ ہمارے معاش کو بچایا جائے اور اس غرض سے ٹرالروں کو سمندری حدود میں آنے سے روکا جائے۔ گوادر سمیت مکران کے دیگر علاقوں میں لوگوں کے معاش اور روزگار کا انحصار ماہی گیری اور ایران سے آنے والی اشیا پر لیکن مختلف حربوں کے ذریعے ان کو ختم کیا جا رہا ہے۔‘

مولانا ہدایت الرحمان نے کہا کہ جب تک تمام بڑے مطالبات تسلیم نہیں کیے جاتے اس وقت تک دھرنا ختم نہیں کیا جائے گا۔

ٹرالروں کے ذریعے غیر قانونی ماہی گیری کیا ہے؟

مچھلی، گوادر، خواتین

نصیب نوشیروانی نے بتایا کہ اس وقت گوادر کے ماہی گیروں کو جو سب سے بڑا مسئلہ درپیش ہے وہ سندھ سے آنے والے ٹرالرز ہیں۔

انھوں نے دعویٰ کیا کہ یہ ٹرالر درجنوں میں نہیں بلکہ سینکڑوں کی تعداد میں آتے ہیں اور ان کی موجودگی گوادر کے تمام علاقوں میں ہوتی ہے جبکہ کچھ عرصہ پہلے یہاں چینی ٹرالرز بھی نظر آئے۔

ان کا کہنا تھا کہ جو جال یہ ٹرالر استعمال کرتے ہیں ان کا استعمال بلوچستان کی سمندری حدود میں ممنوع ہے کیونکہ 12 ناٹیکل کے حدود میں ان جالوں کے ذریعے ماہی گیری نہیں بلکہ مچھلیوں کی نسل کشی ہوتی ہے۔

انھوں نے بتایا کہ یہ جال سب کچھ صاف کر دیتے ہیں حتیٰ کہ مچھلیوں کی پناہ گاہوں کو بھی تباہ کر دیتے ہیں جس کے نتیجے میں اگر کوئی مچھلی شکار سے بچ بھی جائے وہ پھر اس علاقے میں رکتی نہیں بلکہ نقل مکانی کر جاتی ہے۔

محکمہ ماہی گیری حکومت بلوچستان کے ڈائریکٹرجنرل طارق رحمان نے بھی اس سے اتفاق کرتے ہوئے بتایا کہ بلوچستان کے جتنے بھی ماہی گیر ہیں ان کے پاس چھوٹی چھوٹی کشتیاں ہیں اور وہ ممنوعہ جال استعمال نہیں کرتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ سندھ سے آنے والے ٹرالر جو جال استعمال کرتے ہیں ان کو واٹر نیٹ اور گوادر کے ماہی گیر ان کو ’گجہ‘ کہتے ہیں۔

انھوں نے بتایا کہ سندھ میں واٹر نیٹ کا استعمال غیر قانونی نہیں ہے لیکن بلوچستان حکومت نے اسے غیرقانونی قرار دیتے ہوئے اس کے استعمال پر پابندی لگائی ہے۔

یہ بھی پڑھیے

گوادر میں پانی، بجلی اور ٹرالروں کے مسئلے پر احتجاج میں شدت

’یہاں پانی، بجلی سڑک نہیں لیکن سمگل شدہ ایرانی تیل کی فراوانی ہے‘

گوادر کی ترقی: ’یہ پنجاب، سندھ، خیبر پختونخوا کے لیے ہو گی، ہمارے لیے کچھ نہیں‘

طارق رحمان کا کہنا تھا کہ واٹرنیٹ سمندر کی تہہ تک جاتا ہے اور اس کی مثال بلڈوزر کی طرح ہے جس کے سامنے آنے والی کوئی چیز نہیں بچتی۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر یہ ٹرالر غیرقانونی جال استعمال نہیں کرتے تو شاید گوادر کے ماہی گیر زیادہ پریشان نہیں ہوتے لیکن چونکہ یہ جال سمندری ماحول تک کو متاثر کرتا ہے، جس کے باعث گوادر کے ماہی گیر یہ سمجھتے ہیں اُن کے معاش کا ذریعہ تباہ ہو رہا ہے۔

باہر سے آنے والے ٹرالروں کو کیوں نہیں روکا جا رہا ہے اور یہ کتنا بڑا مسئلہ ہے؟

گوادر

ٹرالروں کے ذریعے غیر قانونی ماہی گیری کے خلاف طویل عرصے سے احتجاج کا سلسلہ جاری ہے مگر احتجاج کے باوجود یہ کیوں نہیں روکا جا رہا ہے۔

ماہی گیروں کا یہ الزام ہے کہ یہ سب کچھ محکمہ ماہی گیری کی مبینہ ملی بھگت سے ہو رہا ہے۔

نصیب نوشیروانی نے الزام عائد کیا کہ ہم سندھ سے آنے والے ٹرالروں کے ماہی گیروں سے پوچھتے ہیں کہ وہ اتنے دور کیوں ماہی گیری کے لیے آتے ہیں تو وہ یہ بتاتے ہیں کہ وہ اس کے لیے محکمہ ماہی گیری اور دوسرے سرکاری اداروں کے لوگوں کو پیسے دیتے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ ان میں سے بعض ٹرالر بااثر لوگوں کے ہیں جن کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کرتا۔

ڈائریکٹر جنرل فشریز طارق رحمان نے رشوت لینے کے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ وہ نئے آئے ہیں اور ایسا کچھ ہوا تو وہ اس کی حوصلہ شکنی کریں گے۔

طارق رحمان نے کہا کہ ٹرالروں کا مسئلہ واقعی ایک بڑا مسئلہ اور ان ٹرالروں کے ذریعے غیر قانونی ماہی گیری کا مسئلہ آج سے نہیں بلکہ تیس چالیس سال سے ہے۔

انھوں نے بتایا کہ سندھ سے جو ٹرالر بلوچستان کی سمندری حدود میں آتے ہیں ان کی تعداد ایک اندازے کے مطابق تین سو سے پانچ سو تک ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ ٹرالر کراچی سے آتے ہیں اور گوادر تک آنے میں یہ ساڑھے سات سو کلومیٹر کا فاصلہ طے کر کے آتے ہیں۔

’محکمہ فشریز کا کام تو صرف 12 ناٹیکل کی حدود میں ان کو روکنا ہے لیکن اس سے آگے اور بھی سٹیک ہولڈرز ہیں۔ 12 ناٹیکل میل سے آگے جن سٹیک ہولڈرز کی ذمہ داری ہے ان کو بھی ان ٹرالروں کی روک تھام کے لیے اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنا چاہیے۔‘

غیر قانونی ماہی گیری سے بلوچستان کے ماہی گیر کس طرح متاثر ہو رہے ہیں؟

دھرنے میں شامل بہت سے ماہی گیروں نے بتایا کہ اس صورتحال کی وجہ سے ان کے گھروں میں نوبت فاقوں تک آ گئی ہے۔

نصیب اللہ نے بتایا کہ مناسب حکومتی انتظامات نہ ہونے کی وجہ سے بلوچستان میں ماہی گیری پہلے بھی بہت زیادہ منافع بخش کاروبار نہیں تھا لیکن گذشتہ تین چار سال سے ان ٹرالروں کی وجہ سے ماہی گیر عید کے مواقع پر بھی نئے کپڑے خریدنے کی بھی سکت نہیں رکھتے۔

’سندھ سے آنے والے ٹرالر سال میں جتنا نقصان کرتے ہیں چینی ٹرالر وہ نقصان دو ماہ میں کرتے ہیں۔ جب چینی ٹرالر ماہی گیروں کے احتجاج کی وجہ سے پکڑے گئے تو سرکاری حکام نے یہ بتایا کہ چینی ٹرالروں نے گہرے سمندرمیں ماہی گیری کی ہے لیکن جب ماہی گیر ان کی مچھلیوں کو دیکھنے گئے تو وہ وہی مچھلیاں تھیں جو کہ بلوچستان کی سمندری حدود میں پائی جاتی ہیں۔‘

انھوں نے بتایا کہ سمندر بانجھ ہونے کی وجہ سے ماہی گیر خودکشی پر مجبور ہیں کیونکہ اب تک علاقے میں ماہی گیری کی 13 مقامی کمپنیاں بند ہونے سے سینکڑوں محنت کش اپنے روزگار سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔

ایرانی سرحد پر سختی سے مکران ڈویژن کے لوگ کس طرح متاثر ہو رہے ہیں؟

دھرنے میں شریک ضلع کیچ کے مرکزی شہر تربت سے تعلق رکھنے والے شہری یعقوب جوسکی نے بتایا کہ نہ صرف مکران کے تین اضلاع بلکہ بلوچستان کے جتنے بھی اضلاع سرحد پر ہیں ان کے لوگوں کے معاش کا انحصار ایران کے ساتھ سرحدی تجارت پر ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ مکران ڈویژن میں معاش کے دیگر ذرائع نہ ہونے کی وجہ سے یہاں کے لوگوں کے معاش اور روزگار کا انحصار ایران سے آنے والے تیل اور دیگر خوردنی اشیا پر تھا۔

انھوں نے بتایا کہ کورونا سے پہلے 12 سے 13 ہزار گاڑیاں ایران سے تیل اور دیگر اشیا لاتی تھیں لیکن کورونا کے بعد سے پابندیاں عائد کر دی گئی ہیں اور بارڈر پر ٹوکن سسٹم نافذ کیا گیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ پہلے ان گاڑیوں کی آمدورفت پر کوئی پابندی نہیں تھی لیکن اب ہفتے میں صرف تین سو ٹوکن جاری کیے جاتے ہیں جس کی وجہ سے اکثر گاڑیاں بند ہو گئی ہیں اور ان سے وابستہ ہزاروں افراد کا معاش متاثر ہوا ہے۔

انھوں نے کہا کہ ایران سے آنے والی اشیا اچھی خاصی سستی ہوتی ہیں جس کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایران سے آنے والا چالیس کلو آٹے کا تھیلا 1200 روپے میں لوگوں کو مل جاتا ہے لیکن اب سختی کی وجہ سے تربت میں لوگ 50 کلو پاکستانی آٹے کا تھیلا 3700 میں خرید رہے ہیں۔

انھوں نے بتایا کہ اسی طرح ایرانی گھی کا چار کلو ڈبہ چار سو روپے مل جاتا تھا لیکن اب سرحد پر سختی کی وجہ سے لوگ پانچ کلو پاکستانی گھی 1500 روپے میں خریدنے پر مجبور ہیں۔

انھوں نے کہا کہ ہماری حکومت ہمیں معاش اور روزگار تو نہیں دے رہی تھی لیکن جو چیزیں ایران سے قریب ہونے کی وجہ سے سستی مل رہی تھیں اب سرحد پر سختیوں کی وجہ سے وہ ان سے بھی محروم ہو گئے ہیں۔

ضلع کیچ سے دھرنے میں شریک اور شخص وسیم سفر نے بتایا کہ مکران ڈویژن میں 80 فیصد لوگوں کے معاش اور روزگار کا انحصار بارڈر ٹریڈ پر تھا لیکن ان کے لیے متبادل انتظام سے پہلے پابندیوں کی وجہ سے لوگ شدید متاثر ہوئے ہیں۔

صوبائی حکام کا کیا کہنا ہے؟

بلوچستان میں حکمران جماعت کے مرکزی ترجمان اور صوبائی وزیر سردار عبدالرحمان کھیتران نے بی بی سی کو بتایا کہ سرحدی تجارت اور ٹوکن سسٹم کے حوالے سے نئی حکومت کے قیام کے بعد وزیر اعلیٰ میر عبدالقدوس بزنجو نے اسلام آباد میں وزیر اعظم عمران خان سے بات کی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ سرحدی تجارت اور ٹوکن سسٹم کے حوالے سے لوگوں کو جو مسائل درپیش ہیں وزیر اعظم نے ان کو دور کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے۔

انھوں نے بتایا کہ صدر ڈاکٹر عارف علوی کے حالیہ دورہ کوئٹہ کے موقع پر بھی ان مسائل کے حوالے سے بات ہوئی ہے۔

سردار عبدالرحمان کھیتران نے کہا کہ اسی طرح بہت سارے چیک پوسٹوں کو ہٹایا گیا جبکہ اس حوالے سے لوگوں کو درپیش مشکلات کو دور کرنے کے لیے اقدامات جاری ہیں۔

انھوں نے کہا کہ ان تمام مسائل کے حل کے سلسلے میں آئندہ دو تین روز میں پیش رفت ہو گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32509 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments