پارلیمان کے مشترکہ اجلاس میں انتخابی اصلاحات اور ای وی ایم کا قانون منظور: ’ایسی بھی کیا جلدی ہے کہ 19 نومبر سے پہلے بل منظور کرانے ہیں؟‘

فرحت جاوید - بی بی سی اردو، اسلام آباد


'کون بچائے گا پاکستان؟ عمران خان، عمران خان' کے حکومتی نعروں سے شروع ہونے والا پارلیمان کا مشترکہ اجلاس اپوزیشن کے 'شیم شیم' کے نعروں سے گونجتا رہا۔ بدھ کے اس اجلاس میں نعروں کی گونج تھی، تلخ کلامی معمول سے زیادہ اور طنز و مزاح بھرپور نظر آیا۔

انتخابات میں الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کے استعمال اور بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو ووٹ کے حق سمیت تقریباً ساٹھ بلوں کی منظوری کے لیے پارلیمان کا مشترکہ اجلاس طلب کیا گیا تھا۔

اجلاس ایک گھنٹے کی تاخیر سے شروع ہوا، اپوزیشن کی جانب سے سابق صدر آصف علی زرداری، قائد حزب اختلاف شہباز شریف اور پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو قدرے تاخیر سے پہنچے جبکہ وزیراعظم عمران خان اجلاس کے آغاز میں بلوں پر ہونے والی طویل بحث کے دوران اپنے چیمبر میں ہی موجود رہے۔

اجلاس میں پیپلزپارٹی کے نوید قمر اور یوسف تالپور طبیعت کی ناسازی کی وجہ سے شریک نہیں ہو سکے جبکہ علی وزیر گرفتاری کے باعث شریک نہ ہو سکے۔ سپیکر کی جانب سے ان کا پراڈکشن آرڈر جاری نہیں کیا گیا تھا۔ ان کے علاوہ اختر مینگل اور پیپلز پارٹی کے سکندر میندر بھی اجلاس میں شریک نہیں تھے۔

ایک موقع پر محسن داوڑ نے علی وزیر کو ایوان میں آنے کی اجازت نہ ملنے پر اعتراض کیا اور کہا کہ تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) سے تو معاہدہ کیا جاتا ہے مگر ’آج وزیرستان کا نمائندہ اس اہم موقع پر ایوان میں موجود نہیں ہے۔‘

حال ہی میں پی ٹی آئی اور وزیراعظم عمران خان سے اپنی ناراضی کا اظہار کرنے والے رکن قومی اسمبلی عامر لیاقت حسین بھی اجلاس میں پہنچے۔

پارلیمان کا مشترکہ اجلاس: اپوزیشن کا انتخابی اصلاحات کے متنازع قانون کو عدالت میں چیلنج کرنے کا فیصلہ

وہ پارلیمنٹ کے احاطے میں داخل ہوئے تو صحافی اعزاز سید نے ان سے سوال کیا کہ وہ اپنے ’گلے شکوے چھوڑ کر کیسے پارلیمان میں آگئے؟’ جس پر انھوں نے ذومعنی انداز میں کہا: ‘میں خود نہیں آیا، مجھے لایا گیا ہے اور بہت اہتمام سے لایا گیا ہے۔‘

پھر ایک ٹویٹ میں عمران خان سے اپنی ملاقات پر انھوں نے لکھا کہ ’یہ ملاقات اک بہانا ہے، پیار کا سلسلہ پرانا ہے۔‘

اجلاس سے قبل شیری رحمان، مریم اورنگزیب سمیت اپوزیشن کے بعض اراکین سپیکر کے چیمبر میں گئے۔

اجلاس کے آغاز میں شہباز شریف نے اپنی روایتی دھواں دار تقریر کی اور ای وی ایم یعنی الیکٹرانک ووٹنگ مشینز کے ذریعے انتخابات کرانے اور اوورسیز پاکستانیوں کو ووٹ کے حق کے بلوں اور ان کی منظوری کے لیے اپنائے گئے طریقے پر شدید اعتراضات کیے۔

شہباز شریف اور بلاول بھٹو سمیت اپوزیشن نے مطالبہ کیا کہ بل موخر کر دیا جائے۔

شہباز شریف نے متعدد بار سپیکر قومی اسمبلی کو تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ وہ حکمراں جماعت پی ٹی آئی کی حمایت میں بطور سپیکر جانبداری دکھا رہے ہیں۔ انھوں نے شکوہ کیا کہ ان کی جانب سے متعدد رابطوں اور خط لکھنے کے باوجود شنوائی نہیں ہوئی۔

سپیکر قومی اسمبلی نے دو مرتبہ ان کی تقریر کے دوران ان کے الزامات کا جواب دیا اور کہا کہ وہ وعدہ کرتے ہیں کہ وہ کوئی کام آئین اور قانون کے خلاف نہیں کریں گے۔

اس پر شہباز شریف نے کہا کہ وہ پارٹی ممبرشپ سے مستعفی ہونے کا اعلان کریں۔ شہباز شریف نے انھیں کہا: ’آپ زیرِ لب مسکرانے کی بجائے کھل کر مسکرائیں۔‘ جس پر سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے جواب دیا: ’میں جو کرتا ہوں، قانون کے مطابق کرتا ہوں۔ یہ اسمبلی سب سے زیادہ کام اور قانون سازی کر رہی ہے۔‘

شہباز شریف نے مطالبہ کیا کہ اجلاس کو موخر کیا جائے، جس پر اپوزیشن نے ڈیسک بجا کر ان کی حمایت کی۔ تاہم ایوان کی کارروائی جاری رہی۔

وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے تقریر کا آغاز شہباز شریف کو مخاطب کرتے ہوئے کیا۔ انھوں نے کہا کہ حکومتی بینچوں نے تحمل سے اپوزیشن لیڈر کی تقریر سنی اور وہ اسی تحمل کی توقع بھی رکھتے ہیں۔ مگر مسلم لیگ ن کے سعد رفیق سمیت کئی اراکین نے کہا کہ ’آپ کے اراکین کوئی تقریر سنتے تو شورشرابہ بھی کرتے ہیں۔‘

شہباز شریف کی تقریر کے دوران حکومتی بینچوں کے اراکین خوش گپیوں میں محو بھی نظر آئے۔ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ’آج کی ترامیم سے ماضی کی غلطیوں کی تصیحح کی جارہی ہے اور ملک انتخابات میں شفافیت اور جدت کی جانب بڑھے گا۔‘

انہوں نے کہا کہ ’اپوزیشن کو اوورسیز پاکستانیوں کا پیسہ تو قبول ہے مگر ان کا ووٹ قبول نہیں۔‘

سپیکر نے پیپلز پارٹی کو تقریر کا موقع دیے بغیر اجلاس کی کارروائی آگے بڑھاتے ہوئے حکومتی مشیر بابر اعوان سے کہا کہ وہ بل پیش کریں۔

اس موقع پر پیپلز پارٹی کے اراکین نے ہنگامہ کیا اور سپیکر کے ڈیسک کی جانب بڑھے۔ پھر سپیکر قومی اسمبلی اور بعض اراکین میں تلخ کلامی ہوئی۔

سپیکر نے متنبہ کیا کہ وہ رکن کو سسپینڈ کر دیں گے، جس کے بعد پارلیمان کی سیکیورٹی ٹیم نے سپیکر ڈیسک کو اپنے حصار میں لے لیا۔

سپیکر قومی اسمبلی نے بلاول بھٹو سے کہا کہ انھیں اپنے اراکین کے رویے کا نوٹس لینا چاہیے کہ ‘کیا ایسے عزت کی جاتی ہے سپیکر کی؟‘ جس پر بلاول بھٹو نے انھیں کہا کہ ’ہم ہمیشہ آپ کی اور آپ کے عہدے کی عزت کرتے ہیں۔ اور آپ کو بھی اپنے عہدے کی عزت کا خیال رکھنا چاہیے۔‘

بلاول بھٹو نے قومی اسمبلی کے ہال میں نصب دو سکرینوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ’پارلیمنٹ میں موجود الیکٹرانک ووٹنگ کا نظام کام نہیں کرتا تو یہاں عوام کے لیے ای وی ایم کیسے کام کرے گا؟’

یہ بھی پڑھیے

انڈیا کو برقی ووٹنگ مشینوں پر بھروسہ کیوں نہیں؟

’انتخابی اصلاحات حکومت اور اپوزیشن کی بات نہیں، جمہوریت کے مستقبل کی بات ہے‘

ووٹنگ کی الیکٹرونک مشینیں دھاندلی سے کتنی محفوظ ہیں؟

خیال رہے کہ قومی اسمبلی کے ہال میں دو ایسی سکرینیں نصب ہیں جن پر اراکین کی نشستوں کی ترتیب کے علاوہ ووٹنگ کے لیے ’یس (ہاں)‘ اور ’نو یعنی نہیں‘ کا آپشن موجود ہے۔ ان سکرینوں پر ایوان میں حاضر اور غیر حاضر اراکین کی تعداد بتانے کے لیے کالم بھی موجود ہے۔ وہاں موجود ایک سینیئر صحافی نے مجھے بتایا کہ یہ سکرینیں تو 1988 سے کام نہیں کر رہی ہیں۔

اپوزیشن اراکین نے اعتراض کیا کہ بلوں کی منظوری کے لیے جلدبازی کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے۔

ایک اپوزیشن ممبر نے سوال کیا کہ ‘کیا وجہ ہے کہ 19 نومبر سے پہلے یہ بل منظور کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے؟’ انھوں نے کہا کہ یہ بل 19 دسمبر کو منظور کیے جائیں۔

بلاول بھٹو زرداری نے نکتہ اعتراض میں کہا کہ آئین کے تحت مشترکہ پارلیمانی اجلاس میں دونوں ایوانوں کے مکمل اراکین کی اکثریت سے ہی کوئی بل منظور ہوسکتا ہے، جبکہ سادہ اکثریت کافی نہیں ہوتی۔

پیپلزپارٹی کے چیئرمین نے پارلیمانی اصول و ضوابط 1973 سے متعلق سیکشن 10 سپیکر قومی اسمبلی کو پڑھ کر سنایا۔ انھوں نے کہا کہ پارلیمان کے مشترکہ اجلاس سے اگر کوئی قانون منظور کروانا ہو تو اس کے لیے 222 ووٹ کی ضرورت ہے، ورنہ وہ قانون منظور نہیں ہوتا۔

تاہم اس نکتے پر جب بابر اعوان سے رائے مانگی گئی تو فروغ نسیم اور بابر اعوان نے اسے رد کرتے ہوئے کہا کہ مشترکہ اجلاس میں ہال میں حاضر تعداد کو دیکھا جاتا ہے۔ اپوزیشن کے مطالبے پر بلوں پر گنتی کا فیصلہ ہوا۔

اس دوران ایوان میں افراتفری اور نعرے بازی کا سلسلہ جاری رہا۔ حکومت اور اتحادی جبکہ اپوزیشن اور ان کے ساتھی اپنی اپنی باری پر گنتی کے لیے کھڑے ہوئے۔ ایوان میں سب اسی تاک میں نظر آئے کہ کہیں ان کا پارٹی ممبر دوسرے گروپ کے حق میں پوزیشن نہ لے رہا ہو۔

گنتی کے موقع پر جب بابر اعوان کھڑے تھے تو سعد رفیق نے ان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے انھیں بٹھانے کا کہا کیونکہ وہ رکن پارلیمنٹ نہیں ہیں۔

سعد رفیق نے خود سپیکر ڈیسک کے سامنے موجود سیڑھیوں پر کھڑے ہو کر ایوان کا جائزہ لیا۔ اس دوران اپوزیشن کی جانب سے یہ آوازیں بھی گونجتی رہیں کہ ’ایڈوائزرز کو نہ گن لینا۔‘ اسی طرح اپوزیشن کی ووٹنگ کے وقت حکومتی اراکین اپنے ساتھیوں کو بار بار بیٹھنے کا کہتے رہے۔

وزیر اعظم گنتی کے دوران پارٹی کے دیگر ممبران اور چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی سے محو گفتگو رہے۔ اس دوران بلاول بھٹو کی جانب سے اٹھائے گئے نکتہ اعتراض پر فہمیدہ مرزا، ملائکہ بخاری اور فروغ نسیم آئین کی کتاب کھولے بحث کرتے نظر آئے جبکہ رضا ربانی دیگر اراکین سمیت ڈپٹی سپیکر کے سامنے موجود تھے جنہیں فروغ نسیم اور شیریں مزاری نے بھی جوائن کیا۔

گنتی کے بعد سپیکر نے اعلان کیا کہ بل کے حق میں 221 جبکہ مخالفت میں 203 ووٹ ہیں۔

عمران خان اس دوران فواد چوہدری اور دیگر حکومتی وزرا سے مشاورت کرتے دکھائی دیے۔ اسی موقع پر حزب اختلاف کے اراکین سپیکر ڈیسک کے سامنے جمع ہوئے اور نعرے بازی کی۔

اپوزیشن کی جانب سے اس نعرے بازی جن میں خاتون اول کو بھی نشانہ بنایا گیا اور اس وقت وزیراعظم عمران خان ان اراکین سے پیٹھ پھیر کر کھڑے رہے۔ اس دوران شبلی فراز، شہریار آفریدی، اور مراد سعید کی مسلم لیگ ن کے مرتضی عباسی کے درمیان تلخ کلامی اتنی بڑھ گئی کہ کئی اراکین کو مداخلت کرنا پڑی۔ پھر عامر لیاقت اور آغا رفیع میں بھی تلخی ہوئی۔

جبکہ پارلیمنٹ کی سکیورٹی ٹیم نے وزیراعظم کے گرد حصار بنائے رکھا۔ اپوزیشن اراکین نے آرڈر آف دی ڈے کے پرچوں کو پھاڑ کر اس کے ٹکڑے کیے اور سپیکر کی طرف پھینکتے رہے۔ جب شیری رحمان کو بولنے کا موقع ملا تو انھوں نے حکومت کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ ’آج پارلیمان کی جو تضحیک ہوئی اس کی مثال نہیں ملتی۔‘

سپیکر قومی اسمبلی نے بالآخر وارننگ دی کہ اگر اراکین اپنی نشستوں پر واپس نہیں جائیں گے تو وہ وائس آف ووٹ کا اختیار استعمال کرتے ہوئے بلوں پر فیصلہ کریں گے۔

واضح رہے کہ اس اختیار کے تحت سپیکر اپنی صوابدید اور مشاہدے کی بنیاد پر کسی بل کے منظور ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ کرتا ہے۔ اس دوران ہنگامہ ہوتا رہا اور بل پیش ہوتے رہے، جنھیں اسی شور شرابے میں منظور کیا جاتا رہا۔

اپوزیشن کی جانب سے شہباز شریف، آصف علی زرداری اور دیگر رہنماؤں کے ساتھ مشاورت کرتے نظر آئے جس کے بعد اعلان ہوا کہ حزب اختلاف واک آوٹ کرے گی۔

تاہم اجلاس جاری رہا۔۔۔

اپوزیشن جماعتوں کے رہنماؤں نے پارلیمان کے باہر میڈیا سے بات کی اور کہا کہ وہ آج کی گنتی اور بلوں کی منظوری کو چیلنج کریں گے اور یہ کہ مشاورت کے بعد فیصلہ کیا جائے گا کہ اب کیا راستہ اختیار کرنا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32543 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments