مفید طالبان


افغانستان کی موجودہ صورتحال مذہبی، نسلی، جغرافیائی اور سیاسی عوامل سمیت کئی باہم متصادم عوامل کا ملغوبہ ہے۔ افغان قبائل دنیا کا سب سے بڑا قبائلی معاشرہ تشکیل دیتے ہیں جو جغرافیائی طور پر پاکستان، افغانستان، ایران اور وسطی ایشیا تک پھیلا ہوا ہے۔ اس کشمکش کو سمجھنے کے لیے قبائلی اور نظریاتی منافرتوں کو سمجھنا بہت ضروری ہے۔

پشتون قبائل کئی چھوٹے گروہوں میں بٹے ہوئے ہوتے ہیں جنہیں ’خیل‘ یا ’زئی‘ کہا جاتا ہے۔ پشتو میں زئی کا مطلب وارث ہوتا ہے جبکہ خیل کا مفہوم گروہ یا ساتھی ہوتا ہے۔ عام طور پر زئی ایک بڑے علاقے میں آباد ہوتے ہیں یا ایک بڑی برادری ہوتی ہے جبکہ خیل نسبتاً چھوٹے علاقے جیسے گاؤں یا ایک قصبے میں آباد ہوتے ہیں اور ان کی آبادی بھی زئی سے کم ہوتی ہے۔ ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ ایک زئی دھڑے میں کئی خیل گروہ پائے جائیں۔

پاکستان اور افغانستان میں دو بڑے پشتون نسلی گروہ درانی اور غلزئی ہیں۔ ان کے علاوہ کافی بڑی تعداد چھوٹے گروہوں کی بھی ہے جو مختلف صوبوں میں پھیلے ہوئے ہیں۔ اوپر چین سے لے کر نیچے ایران تک افغانستان کے 11 صوبے پاکستان کی سرحد سے ملحق ہیں۔ یہ صوبے بالترتیب بدخشاں، نورستان، کنڑ، ننگرہار، گردیز، خوست، پکتیکا، زابل، قندھار، ہلمند اور نیمروز ہیں۔ انہیں صوبوں میں پختون اکثریت رہتی ہے جن کی نسلی، قبائلی اور فقہی ہمدردیاں افغانستان اور پاکستان میں باہم متحارب گروہوں کے ساتھ ہیں۔

صوبہ بدخشان کے وہ علاقے جو واخان کوریڈور کے اس پار چین اور پاکستان کی انتہائی شمالی سرحد کے ساتھ ملتے ہیں وہاں کرغیز نسل کے لوگ بستے ہیں، زندگی کے لیے دشوار حالات ہونے کی وجہ سے جن کی آبادی کم ہے۔ اس کے نیچے بدخشان اور نورستان صوبے میں جو پاکستانی چترال کے ساتھ ملتا ہے میں چترالی، صافی، نوری اور پشائی قبائل آباد ہیں۔

کنڑ، ننگرہار، گردیز اور خوست میں بین الاقوامی سرحد کے ہر دو اطراف ماموند، یوسفزئی، موہمند، جدون، شنواری، گگیانی، اورکزئی، آفریدی، خٹک، بنگش، طوری، احمدزئی، اتمان زئی، زدران، کاکڑ، شیرانی، کھیتران، ترین، گرباز، خوست ولی، چکمنی، اورکزئی اور حلیم زئی بستے ہیں۔ یہ چھوٹے پشتون گروہ ہیں جن کی اکثریت پاکستان میں بستی ہے، جو دو پختون اکثریتی گروہوں غلزئیوں اور درانیوں سے الگ ہیں۔

درانیوں کی اکثریت، ماسوائے اچکزئی قبیلے کے، جو مشرق میں بلوچستان کے ضلع قلعہ عبداللہ سے لے کر شمال مغرب میں قندھار تک پھیلا ہوا ہے، مشرقی اور جنوبی افغانستان کی باسی ہے۔ اس گروہ میں باراکزئی، علی زئی، پوپلزئی، اسحاق زئی اور نورزئی وغیرہ شامل ہیں۔ ان کی اکثریت صوبہ قندھار، ہلمند، بادغیس، فراح اور غور میں آباد ہے۔ احمد شاہ درانی کی وجہ سے اس قبیلے کو درانی کہا جانے لگا حالانکہ اصل میں یہ ابدالی ہیں۔

غلزئی نسلی گروہ زیادہ تر مشرقی افغان صوبوں میں آباد ہے جو پاکستان کی سرحد کے ساتھ لگتے ہیں۔ ان میں سلطان خیل، ترکئی، علی خیل، ہوتک، توخی، پائندہ خیل، طارق زئی، دینار خیل، لوہانی اور نیازی شامل ہیں۔ یہ پشتو کا وسطی لہجہ بولتے ہیں۔ چار سابق افغان صدور اس قبیلے سے تعلق رکھتے تھے جو حفیظ اللہ امین، نور محمد ترکئی، نجیب اللہ امین اور اشرف غنی ہیں۔

2012 کی گرمیوں میں ہی مغربی خفیہ ایجنسیوں کو پتہ چل گیا تھا کہ طالبان میں امریکہ سے مذاکراتی لائحہ عمل پر اختلاف بڑھ گیا تھا۔ مختلف الرائے طالبانی دھڑے مخالف آراء کے حامل تھے اور سینئر طالبان قیادت امریکہ سے زیادہ نوجوان جنگجوؤں کے اختلافات سے پریشان تھی۔ طالبان میں چار مختلف شوریٰ کام کر رہی تھیں جو بالترتیب کوئٹہ شوریٰ، حقانی شوریٰ، قندھار شوریٰ اور ہلمند شوریٰ تھیں۔ کوئٹہ شوریٰ اعلی ترین طالبان قیادت پر مشتمل تھی لیکن ان کے ساتھ مسئلہ یہ تھا کہ وہ میدان جنگ سے دور، سرحد پار، ایک دوسرے ملک میں تھی جس کے بہرحال اپنے مفادات تھے۔

دوسری طرف حقانی شوریٰ تھی جو پاکستان کے قبائلی علاقوں اور مشرقی افغان صوبوں میں مرتکز تھی۔ یہ تعداد میں کم مگر بہترین جنگجو تھے چنانچہ ان کا رسوخ زیادہ تھا۔ ایک اور مسئلہ ان کا کٹڑ دیوبندی ہونا تھا جو کہ مرکزی طالبان قیادت سے مختلف امور پر نظریاتی اختلافات رکھتے تھے۔ انہوں نے ہی طالبان میں خود کش حملوں کو متعارف کروایا۔ حقانیوں کے ساتھ پاکستانی انتظامیہ کے تعلقات سب سے زیادہ مضبوط تھے جس کی دو اہم وجوہات تھیں۔ ایک یہ کہ ان کا تعلق روایتی پشتون علاقوں سے تھا جبکہ دوسری طرف انہیں متشدد قدامت پسند علماء کی فقہی حمایت حاصل تھی جو کہ پاکستانی انتظامیہ کے دیرینہ مقربین تھے۔

قندھار شوریٰ طالبان فوجی کمانڈروں پر مشتمل تھی جو میدان جنگ میں دوبدو لڑائیاں لڑ رہے تھے۔ قندھار طالبان کا صدر مقام رہا تھا کیونکہ یہیں طالبان نے جڑ پکڑی تھی چنانچہ قندھار میں مقامی طالبان قیادت کو عوامی حمایت حاصل تھی۔ قندھار شوریٰ کوئٹہ قیادت کی زیر نگرانی فوجی کے ساتھ ساتھ سیاسی معاملات بھی دیکھتی تھی اور مقامی افغان ہونے کی حیثیت سے عارضی جنگی حل کی بجائے افغان مسئلے کے دیرپا سیاسی حل پر یقین رکھتی تھی۔ یہی وہ بنیادی وجہ تھی جس پر حقانی اور قندھار شوریٰ کے اختلافات تھے۔ حقانی جنگ کے زور پر معاملات کو اپنے حق میں موڑنا چاہتے تھے جبکہ قندھار شوریٰ جانتی تھی کہ جنگی حل دیرپا اور مستقل نہیں ہو سکتا لہذا وہ سیاسی عمل میں بھی یقین رکھتے تھے۔

اس کے علاوہ ایک اور شوریٰ، ہلمند شوریٰ بھی تھی جس کے اہم اراکین ملا عبدالقیوم ذاکر اور ملا ابراہیم صدر تھے۔ ملا ابراہیم کا پیدائشی نام خدائیداد خان تھا مگر بعد میں وہ ملا ابراہیم صدر کے نام سے مشہور ہوئے۔ ہلمند شوریٰ کی خصوصیت یہ تھی کہ یہ واحد طالبان دھڑا تھا جو پاکستان مخالف تھا۔ اس کی اہمیت اس لیے بھی زیادہ رہی کیونکہ افغانستان کا صوبہ ہلمند منشیات کی پیداوار اور اس کے مالی منافع کے لحاظ سے دنیا میں پہلے نمبر پر تھا۔ دنیا کی کل منشیات کا تقریباً نصف اکیلے ہلمند میں پیدا ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ صوبہ ہلمند کالے سنگ مرمر سے بھی مالا مال تھا جس سے بہت سی آمدن ہوتی تھی۔

ہلمند شوریٰ کو پاکستان مخالف ہونے کی وجہ سے زیادہ سیاسی مقبولیت حاصل نہیں تھی مگر معاشی طور پر وہ بہت طاقتور تھے۔ ہلمند شوریٰ پاکستان پر اعتماد نہیں رکھتی ہے جس کی وجہ سے شوری کے ارکان پاکستان میں پناہ لینے یا یہاں کوئٹہ شوری کے ساتھ ملنے سے احتراز کرتے رہے ہیں۔ جیسا کہ سیاست میں خلا فوراً ہی پر ہو جاتا ہے بالکل ویسے ہی ہلمند شوریٰ کو فوراً ہی ایران کی حمایت حاصل ہوئی کیونکہ اکتوبر 2001 میں امریکی حملے کے بعد ایران نے یہ پایا کہ افغانستان میں طالبان کی حمایت کرنا طالبان مخالف دھڑے کھڑے کرنے سے زیادہ مفید تھا چنانچہ ایران نے اپنی حکمت عملی تبدیل کرتے ہوئے پاکستان مخالف دھڑے کی حمایت شروع کر دی۔

سیاسی رجحانات کے علاوہ فقہی اختلافات بھی مسئلہ ہیں۔ طالبان اور ان میں شامل طاقتور حقانی گروپ، دونوں سنی دیوبندی ہیں مگر حقانی شروع سے ہی القاعدہ کی طرف زیادہ رجحان رکھتے ہیں حالانکہ القاعدہ کے عرب جنگجؤوں کا تعلق فقہ اہلحدیث سے ہے یہی وجہ ہے کہ 2001 میں امریکی حملے سے پیشتر ہی طالبان قیادت اور حقانیوں میں القاعدہ سے جان چھڑانے کے حوالے سے اختلافات پیدا ہو چکے تھے۔ حقانی القاعدہ قیادت کو تحفظ دینے کے حق میں تھے جبکہ طالبان کی شریک بانی قیادت القاعدہ کے مسئلے کو سیاسی طور پر حل کر کے امریکہ کے ساتھ لڑائی سے بچنا چاہتی تھی۔ اس کی وجہ غالباً یہ تھی کہ طالبان مخالف، سابقہ و موجودہ، تمام گروہ جہاد کا دائرہ دیگر اسلامی ممالک سمیت پوری دنیا تک پھیلانا چاہتے تھے جبکہ طالبان جہاد کو صرف افغانستان تک ہی محدود رکھنا چاہتے تھے۔

پچھلے کچھ سالوں سے ایک نئے خطرے نے بھی سر اٹھایا ہے۔ سلفی مکتب فقہ سے تعلق رکھنے والی دولت اسلامیہ خراسان افغانستان اور پاکستان میں ایک حقیقی خطرہ بن کے سامنے آئی ہے۔ طالبان کی سیاسی ’مصلحتوں کی وجہ سے بہت سے شدت پسند جہادی اور کئی چھوٹے متحارب گروہ دولت اسلامیہ میں شامل ہو گئے ہیں۔ فقہی طور پر دیکھا جائے تو حقانی طالبان کے ہم فقہ ہیں جبکہ نظریاتی طور پر وہ دولت اسلامیہ سے زیادہ مطابقت رکھتے ہیں۔ بہت سے القاعدہ عناصر بھی دولت اسلامیہ میں شامل ہیں۔ اس کے علاوہ افغانستان میں متحرک دیگر جنگجو گروہ مثلاً ایسٹ ترکستان موومنٹ اور اسلامک موومنٹ آف ازبکستان بھی عملی طور پر دولت اسلامیہ کے خودکش اسکوڈ کا حصہ ہیں۔

پاکستان نے حال ہی میں طالبان کے زیر سایہ تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ جنگ بندی معاہدہ کیا ہے جس پر وزیر اعظم اور اعلی انتظامی قیادت کو سپریم کورٹ اور دیگر سیاسی جماعتوں کی جانب سے چبھتے ہوئے سوالوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ محولہ بالا تمام تفصیلات کی روشنی میں، بغرض ذہنی عیاشی، کچھ مزید سوالات بھی غور طلب ہیں۔

1۔  وزیر اعظم نے سپریم کورٹ کے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ حکومت پشاور سکول کے مقتول بچوں کے والدین کو معاوضہ دے سکتی تھی وہ حکومت نے دیا، اس سے زیادہ حکومت کچھ نہیں کر سکتی تھی، جس پر چیف جسٹس نے انہیں سرزنش کرتے ہوا کہا کہ آپ والدین کے زخموں پر نمک پاشی کر رہے ہیں۔ سوال یہ تھا کہ ریاست مدینہ میں ایسے بیانات پر بھی کوئی جزا و سزا بنتی تھی یا نہیں؟

2۔ اگر تشدد پسند گروہوں کو ریاست کے اپنے ہی لوگ کہہ کر ان سے مذاکرات ہو سکتے ہیں تو سیاسی مخالفین، قوم پرست گروہوں اور دانشوروں، طالبعلموں اور صحافیوں سمیت لاپتہ افراد سے کون سا گناہ کبیرہ سرزد ہوا ہے کہ ان پہ تشدد ہی کیا جانا ضروری ہے؟

3۔ طالبان کے حکومت پر قبضہ کرنے کے بعد دولت اسلامیہ نے یکے بعد دیگرے عوامی مقامات اور مسلمان اقلیتوں، بالخصوص شیعوں کو نشانہ بنایا ہے۔ حالیہ جمعہ کے اجتماعات میں ہونے والے خودکش دھماکے ایسٹ ترکستان اسلامک موومنٹ کے جنگجؤوں نے کیے ہیں جو چین کے خلاف لڑ رہے ہیں۔ چونکہ پاکستان چینی اتحادی ہے اس لیے کیا چین مخالف جنگجؤوں کا پاکستان کے حامی طالبان کو نشانہ بنانا پاکستان کے لیے اطمینان کا باعث ہے؟

4۔ ایران اور آذربائیجان کے درمیان تعلقات تلخ سے تلخ تر ہوتے جا رہے ہیں جبکہ ایران کے آرمینیا کے ساتھ تعلقات نسلی، جغرافیائی اور تجارتی بنیادوں پر آگے بڑھ رہے ہیں۔ پاکستان نے ہمیشہ اور حالیہ نگورنو کاراباخ تنازعے میں آرمینیا کے خلاف کھل کر آذربائیجان کا ساتھ دیا اور اس کی فتح کا جشن بھی منایا ہے۔ کیا پاکستان اپنے مغربی محاذ پر منڈلاتے فرقہ وارانہ خطرے کے پیش نظر ایک دفعہ پھر فرقہ وارانہ فسادات کا سامنا کرنے کو تیار ہے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments