ابھیجیت بینرجی: ایک نوبل انعام یافتہ ماہر معیشت جو کھانا پکانے کے بھی بہترین ماہر ہیں

اپرنا الیوری - بی بی سی نیوز، نئی دہلی


ابھیجیت بینرجی
ابھیجیت بینرجی
انڈیا کے ابھیجیت بینرجی کی عمر لگ بھگ 15 برس تھی جب انھوں نے پہلی مرتبہ کھانا پکایا تھا۔

جو لوگ ابھیجیت کے نام سے واقف ہیں وہ جانتے ہوں گے کہ جب انھوں نے اپنی زندگی کا پہلا کھانا بنایا تو یہ اُن کے کھانا بنانے کے کسی عظیم الشان کیریئر کا آغاز نہیں تھا۔ ابھیجیت تو ایک مشہور ماہر اقتصادیات بنے اور سنہ 2019 میں انھیں ان کی خدمات کے اعتراف میں نوبیل انعام کا مستحق قرار دیا گیا۔

لیکن ان کے اپنے الفاظ میں اُن کی 15 برس کی عمر میں کھانا بنانے کی پہلی کوشش مستقبل میں ’کئی ہزار کھانے‘ بنانے کی بنیاد تھی۔ گذشتہ چار دہائیوں میں اس نوبیل انعام یافتہ ماہر اقتصادیات نے ہزاروں کھانے تیار کیے۔ اور باورچی خانے میں اُن کے اِن ہی تجربات کا نتیجہ کھانا بنانے کی ایک حیرت انگیز کتاب ہے۔

اس کتاب کی ناشر چکی سرکار کہتی ہیں کہ ’ستم ظریفی یہ ہے کہ ابھیجیت ایک ماہر معاشیات سے بہتر باورچی ہیں۔‘

’کوکنگ ٹو سیو یور لائف‘ (یعنی اپنی جان بچانے کے لیے کھانا پکانا) نامی ابھیجیٹ کی کتاب رواں گذشتہ ہفتے منظر عام پر آئی ہے۔ اس میں کھانا پکانے کے نہ صرف عجیب و غریب اور دلکش طریقے بتائے گئے ہیں بلکہ یہ بھی بتایا گيا کب اور کس موقع پر آپ کو کیا بنانا چاہیے۔

اس کتاب میں جہاں منفرد ذائقے کی رسبری سویچی (ایک قسم کا جنوبی امریکی کھانا) جیسی نفیس ڈش تیار کرنے کی ترکیب موجود ہے تو وہیں سادہ دال بنانے کی بھی، جو مسٹر بینرجی کے مطابق آپ کو ’سردیوں کے دنوں میں نرم شال اوڑھنے کے مزے‘ جیسا مزہ فراہم کر سکتی ہے۔

اس کتاب کی ابتدا اس وقت ہوئی جب یہ ماہر معیشت کھانے پکانے کے طریقوں کو جمع کر کے ایک کلیکشن تیار کرنا چاہتے تھے تاکہ وہ اسے اپنے برادرِ نسبتی کو کرسمس کے موقعے پر تحفے کے طور پر دے سکیں۔

لیکن جب انھوں نے کھانا پکانے کی ترکیبیں اکٹھا کیں تو انھیں خیال آیا کہ باورچی کے طور پر ان کی جبلت اور بصیرت سے کچھ اور بھی ہو سکتا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ ’کھانا پکانا ایک سماجی عمل ہے۔ اس کا کوئی نہ کوئی پس منظر ہوتا ہے۔ کبھی کبھی کوئی کھانا آپ کی جانب سے خاندان کے لیے تحفہ ہوتا ہے، کبھی یہ لبھانے کا عمل ہوتا ہے، اور کبھی یہ خود کا اظہار ہوتا ہے۔‘

بہرحال اُن کی کتاب میں ان تمام لمحات اور کھانا پکانے کی مزید بہت سی ترکیبیں موجود ہیں۔ سپین سے متاثر چکپیا (چنے کا سوپ) جس کی وجہ سے شادی کی تجویز مل سکتی ہے، ایک ’انتہائی لذیذ‘ اور آسان بنگالی سالن یعنی ’مچھلی کا سٹو‘ جو آپ کے خود پسند دوست کو حیران کر سکتا ہے۔ ہوشیاری سے تیار کیا گیا ایک مراکشی سلاد ’بات چیت کے موضوع‘ میں تبدیل ہو سکتا ہے، اور رات بھر بلانوشی کے بعد نمکین بریانی جیسی ڈشز بھی اس میں شامل ہیں۔

مسٹر بنرجی کی کتاب کھانوں کی چمکدار اور دیدہ زیب تصویروں کے بجائے خاندان کے ایک مہمان شیئن اولیور کی روشن جیومیٹریکل ایلسٹریشن سے بھری ہوئی ہے، جو اکثر ان کے ساتھ کھانا پکانے میں ساتھ رہتی ہیں۔

مز اولیور کہتی ہیں: ’ہم چاہتے تھے کہ لوگ اس بات پر توجہ مرکوز کریں کہ وہ کون سے ذائقے چکھنا چاہتے ہیں، بجائے اس کے کہ ڈش کیسی نظر آنی چاہیے۔‘

کھچڑی

مسٹر بینرجی کی بے باک اور حسب موقع کتاب میں کھانا پکانے کو صرف سخاوت کے عمل کے طور پر منانے کے بجائے، مختلف مزاج اور دباؤ کا جائزہ لیا گیا جو کھانا پکانے کا موجب ہوتے ہیں۔ کھانا پکانے کے پس پشت حسد، فخر اور ضرورت جیسے عوامل بھی شامل ہوتے ہیں۔ انھوں نے واضح کیا ہے کہ ان کی کتاب تجربہ کار باورچیوں کے لیے بہت مددگار ثابت نہیں ہو سکتی، لیکن اس میں خود کھانا بنانے کی تراکیب سے ہٹ کر دوسرے اسباق بھی ہیں۔

مسٹر بینرجی نے اپنے کیریئر کا زیادہ تر حصہ معاشیات میں یہ سمجھنے کی کوشش میں گزارا ہے کہ غریب کیسے رہتے ہیں اور وہ کیا منتخب کرتے ہیں۔ یہی وہ بنیادی کام ہے جس کی وجہ انھیں اور ان کے ساتھیوں کو نوبیل انعام ملا ہے۔ ان سب کے درمیان انھیں ایک چیز مشترک نظر آئی جو کہ عام تصور کے برعکس ہے اور وہ یہ ہے خواہ آپ امیر ہوں یا غریب، مزیدار کھانے کی خوشی غذائیت پر غالب آ جاتی ہے۔

اور انھوں نے اپنی کتاب میں بالکل وہی پیش کیا ہے کہ سہل اور یہاں تک کہ فرسودہ ترکیبوں کو بھی سادگی اور چالاکی سے، شعوری انتخاب کے ساتھ اور بہت زیادہ اجزا کے بغیر بنایا جا سکتا ہے۔ وہ کہتے ہیں ’خیال یہ ہے کہ آپ کو بہترین کھانا بنانے میں مدد کرنا ہے، چاہے آپ کے پاس وقت یا وسائل یا دونوں کی کمی ہو۔‘

یہ بھی پڑھیے

کھانا بنانے کی شوقین ایک بغیر پیٹ والی لڑکی!

کھانا پکانا اور سٹیلائٹ کو مریخ کے گرد گھمانا کوئی ان سے سیکھے

معاشیات کا نوبل انعام جیتنے والا جوڑا کون ہے؟

مثال کے طور پر: ایسا کھانا کیسے بنایا جائے جس میں سبزیاں سٹار (مرکزی جزو) ہوں اور گوشت صرف جزوی حصہ ہو۔ چکن کو کسی سبزی کی طرح کیسے پکائیں کہ گوشت خوروں کو پسند آئے (جیسا کہ انھوں نے اپنی بیوی کے لیے کیا تھا)، یا جب آپ کے پاس شکر ختم ہو جائے تو 15 منٹ سے کم وقت میں کوئی میٹھی چیز کیسے تیار کریں۔

اچار

کھچڑی کے ساتھ مختلف قسم کے اچار کا استعمال ہوتا ہے

مسٹر بینرجی کی کتاب ایسی ہے جس کا کسی مخصوص علاقے سے تعلق نہیں ہے۔ اس میں نیپال سے لے کر سسلی تک کی کھانا پکانے کی ترکیبیں ہیں، لیکن اس میں ان کی ہندوستانی اور خاص طور پر بنگالی جڑوں اور پرورش کے نمایاں اثرات ہیں۔ اس میں بہت سارے بنگالی کھانے ہیں، ناریل کے دودھ میں ابالے جھینگوں سے لے کر مقامی طرز کی کھچڑی (جس میں چاول، دال اور سبزیاں ایک ساتھ پکائی جاتی ہیں، جو مسٹر بنرجی کے بقول ان کے پسندیدہ آرام دہ کھانوں میں سے ایک ہے) شامل ہے۔

بھوک اور ذائقے بڑھانے والے اشتہا انگیز کھانے کے باب میں انڈیا کے سٹریٹ فوڈ سے ترغیب حاصل کی گئی ہے جس میں چٹ پٹے اور مصالحے دار مونگ پھلی سے لے کر کھٹے اور چٹ پٹے آلو (جو کہ مسٹر بینرجی کی دوست کے مطابق، ٹھنڈے جن یا ووڈکا کے شاٹ کے ساتھ بالکل فٹ بیٹھتے ہیں) شامل ہیں۔ مینگو سیوچی کی ترکیب میں انڈیا میں پھلنے والے آم بنگیناپلی کا مطالبہ کیا گیا ہے جو کہ جنوبی امریکی ڈش کا مخصوص حصہ نہیں ہے۔

انھوں نے دال کی تین مختلف ترکیبوں کا ذکر کیا ہے جسے وہ ’انسانی تہذیب کو ہندوستان کی سب سے بڑی دین’ قرار دیتے ہیں۔ مسٹر بینرجی دال کی مزید 20 ترکیبوں کے بارے میں سوچ سکتے ہیں لیکن ان کا کہنا ہے کہ یہ تینوں اپنا کام کر جائیں گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32483 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments