کامیڈین ویر داس کی نظم ’میں دو انڈیا سے ہوں‘ پر شدید تنقید، ’ملک کا نام بدنام‘ کرنے پر پولیس میں شکایات درج


ویر داس
انڈیا کے مزاحیہ فنکار ویر داس کی ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کے بعد ان پر شدید تنقید کی جا رہی ہے، اور ان کے خلاف ممبئی پولیس کو متعدد شکایات موصول ہو چکی ہیں۔

ویر داس نے منگل کے روز یوٹیوب پر ایک چھ منٹ کی ویڈیو شیئر کی تھی جو کہ امریکی دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی کے کینیڈی سینٹر میں ہوئے اُن کے ایک شو کی ہے۔ اس میں ویر داس نے اپنی ایک نظم پڑھی جس کا عنوان تھا ’میں دو انڈیا سے ہوں۔‘ اس ویڈیو میں ویر داس نے انڈیا میں متضاد سماجی رویوں پر طنز کیا ہے۔

12 نومبر کو ہونے والے شو میں بنائی گئی اس ویڈیو کے آن لائن آنے کے کچھ ہی گھنٹے بعد سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئی اور اس پر آنے والا ردعمل انتہائی منقسم تھا۔ بہت سے لوگ جہاں ویر داس کو انڈیا کی اصل ’حقیقت بیان کرنے‘ کی وجہ سے سراہا رہے ہیں وہیں کچھ لوگ ان پر انڈیا کی بین الاقوامی سطح پر ساکھ خراب کرنے کا الزام بھی لگا رہے ہیں۔

ادھر ویسٹرن انڈین سنی ایمپلائز ایسوسی ایشن کے صدر بی این تواری نے کہا ہے کہ ان کے ادارے کے اراکین ویر داس کے ساتھ کام نہیں کریں گے۔

انڈین جریدے اکنامک ٹوڈے سے بات کرتے ہوئے بی این تواری نے کہا کہ ’ویر داس کو کسی بھی پلیٹ فارم پر کام کرنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ میں سارے پروڈیوسروں سے یہ کہہ رہا ہوں کہ وہ ان کے ساتھ اشتراک یا کام نہ کریں۔‘

ساتھ ہی ممبئی پولیس کو ملنے والی شکایات میں الزام لگایا گیا ہے کہ ویر داس نے ’انڈیا میں جمہوریت کو خطرے‘ میں ڈال دیا ہے۔

دوسری جانب متعدد لوگوں نے ویر داس کو سراہا بھی ہے اور ان کی حمایت میں ٹویٹ بھی کیے ہیں۔

ویر داس نے اپنی نظم میں کیا کہا؟

ویر داس نے اپنی نظم میں انڈین معاشرے میں پائے جانے والے متضاد رویوں اور دیگر مسائل پر بات چیت کی ہے۔ انھوں نے کہا کہ:

میں اس انڈیا سے ہوں جہاں ہم دن میں عورت کی پوجا کرتے ہیں اور رات میں ان کے ساتھ گینگ ریپ ہوتا ہے

میں ایسے انڈیا سے ہوں جہاں بچے ماسک پہن کر بھی ایک دوسرے کے ہاتھ پکڑتے ہیں اور لیڈران بغیر ماسک کے گلے مل رہے ہوتے ہیں

میں اس انڈیا سے ہوں جہاں اے کیو آئی نو ہزار ہے لیکن ہم پھر بھی رات کو چھت پر تارے دیکھتے ہیں

میں اس انڈیا سے ہوں جہاں ٹوئٹر پر لوگ بالی وڈ پر منقسم ہوئے ہوتے ہیں جبکہ تھیٹر کے اندھیرے میں اسی بالی وڈ کی وجہ سے متحد ہوتے ہیں

میں اس انڈیا سے ہوں جہاں صحافت ختم ہو گئی ہے، مرد صحافی بس ایک دوسرے کی تعریفیں کر رہے ہیں جبکہ خواتین صحافی سڑکوں پر لیپ ٹاپ اٹھائے سچ بیان کر رہی ہیں

میں اس انڈیا سے ہوں جہاں پر آپ ہمارے ہنسنے کی آواز کو گھر کے باہر بھی سن سکتے ہیں اور جہاں کامیڈی کلب کی دیواریں اس لیے توڑ دی جاتی ہیں کیونکہ اندر سے ہنسی کی آواز آ رہی ہوتی ہے

میں اس انڈیا سے ہوں جہاں کی زیادہ تر آبادی تیس برس کی عمر سے نیچے ہے لیکن ہم ڈیرھ سو سال پرانے خیالات 75 برس کے لیڈروں سے سنتے ہیں

میرا تعلق اس انڈیا سے ہے جہاں خواتین ساڑھی اور جوگرز پہنتی ہیں لیکن پھر بھی وہ ایک بوڑھے مرد سے مشورہ کر رہی ہوتی ہیں جس نے زندگی میں کبھی ساڑھی نہیں پہننی

میرا تعلق اس انڈیا سے ہے جہاں ہم اپنے سبزی خور ہونے پر فخر محسوس کرتے ہیں لیکن اسی سبزی اگانے والے کسانوں کو گاڑیوں تلے روندتے ہیں

میرا تعلق اس انڈیا سے ہے جہاں آپ فوجیوں کو تب تک مکمل سپورٹ کرتے ہیں جب تک کہ ان کی پینشن کی بات نہ کی جائے

میرا تعلق اس انڈیا سے ہے جو کہ خاموش نہیں رہے گا۔ میرا تعلق اس انڈیا سے ہے جو کہ کچھ بولے گا بھی نہیں۔

میرا تعلق اس انڈیا سے ہے جو مجھے ہماری خامیاں بتانے پر کوسیں گے۔ میرا تعلق اس انڈیا سے ہے جہاں لوگ اپنی کمزوریوں کے بارے میں کھل کر بات کرتے ہیں

میرا تعلق اس انڈیا سے ہے جہاں پر لوگ اس ویڈیو کو دیکھ کر کہیں گے کہ اس میں کامیڈی کہاں ہے؟ لطیفہ کہاں ہے؟ اور میرا تعلق اس انڈیا سے بھی ہے جو کہ اسے دیکھ کر لطیفہ کہیں گے لیکن یہ ان کے لیے مزاحیہ نہیں ہو گا

انڈیا

انڈیا میں اس نظم پر رائے منقسم

سینیئر کانگریس لیڈر اور سابق یونین منسٹر کپل سیبال نے ویر داس کی حمایت میں لکھا کہ ’ویر داس، اس میں کوئی شک نہیں کہ دو طرح کے انڈیا ہیں۔ ہم نہیں چاہتے کہ دنیا کو اس کا پتہ چلے۔ ہم میں عدم برداشت ہے اور ہم منافق بھی ہیں۔‘

لیکن کانگریس پارٹی کے اندر بھی دو مختلف آرا ہیں۔ ایک اور سینیئر کانگریس لیڈر ابھیشیک مانو سنگھوی نے ویر داس پر تنقید کی۔ انھوں نے ٹویٹ میں لکھا ‘کچھ لوگوں کے اندر برائی ہے جو کہ کم تعداد میں ہیں، اور پورے ملک کو ان سے تعبیر دینا، اور اس سے پورے ملک کی تصویر کشی کرنا، وہ بھی بین الاقوامی سطح پر غلط ہے۔ انگریزوں کی حکومت کے دوران جو لوگ انڈیا کو سپیروں اور ڈاکؤوں کا ملک کہتے تھے وہ لوگ اب بھی موجود ہیں۔‘

کانگریس کے لیڈر اور رکنِ اسمبلی ششی تھرور نے ٹویٹ کی کہ ‘ایک سٹینڈ اپ کامیڈین جو کہ اصل میں یہ جانتا ہے کہ سٹینڈ اپ کا مطلب کیا ہے۔ جسمانی نہیں بلکہ اخلاقی مطلب۔ ویر داس نے لاکھوں لوگوں کی ترجمانی کی ہے۔ اپنی چھ منٹ کی ویڈیو میں اس نے دو قسم کے انڈیا کی بات کی ہے اور یہ بتایا ہے کہ وہ کس انڈیا کی نماندگی کرتے ہیں۔ یہ لطیفہ ہے لیکن یہ مزاحیہ ہر گز نہیں۔‘

صحافی برکھا دت نے ویر داس کا شکریہ ادا کیا جبکہ سواراج انڈیا سے کنوینر یوگندرہ یادو لکھتے ہیں ‘آپ اسے ضرور سنیں۔ ویر داس ان دو انڈیا کی کہانی بتا رہے ہیں جہاں سے ان کا تعلق ہے۔ افسوس ہے کہ ہم اس نہج پر پہنچ گئے ہیں جہاں ایسی باتیں کرنا بہادری سمجھا جاتا ہے۔‘

صحافی ویر سانگھوی کہتے ہیں ’میں یہ لنک، بہادر، باصلاحیت اور بصیرت شخص ویر داس کے ساتھ یکجہتی کے طور پر شیئر کر رہا ہوں۔‘

مگر بی جے پی کی لیڈر پریتی گاندھی لکھتی ہیں کہ ‘ویر داس، تمہارا تعلق اس انڈیا سے ہے جہاں پر تم کمانے کے لیے اپنے ہی ملک کی تضحیک کرتے ہو۔ تمہارا تعلق اس انڈیا سے ہے جو کہ تمھیں تمھاری بدتمیزی اور پاگل پن کو آزادی اظہار رائے کے طور پر پیش کرتا ہے۔ تم اس انڈیا سے ہو جس نے بہت عرصے سے تمہاری توہین کو برداشت کیا ہے۔‘

ایک اور صارف جن کا نام روزی ہے، لکھتی ہیں ’یہ کامیڈی ہے؟ امریکہ کے کینیڈی سینٹر میں ویر داس کہہ رہے ہیں کہ ان کا تعلق اس انڈیا سے ہے جو دن میں عورت کی پوچا کرتا ہے اور رات کو اسے گینگ ریپ۔ وہ ایسا کہہ رہے ہیں لیکن آخر انھیں انڈیا کو جینریلائز کرنے اور لیبل لگانے کا حق کس نے دیا ہے؟‘

ویر داس کا جواب

اس سارے تنازع کے بعد ویر داس نے ٹوئٹر پر ایک بیان شائع کیا ہے جس میں انھوں نے کہا ہے ‘میں نے یوٹیوب پر ایک ویڈیو شیر کی اور اس پر بہت سے ردعمل آ رہے ہیں۔ یہ ویڈیو انڈیا کی دو حقیقتوں کی ہے۔ دو حصے جو ایک دوسرے سے بلکل مختلف ہیں، جیسا کہ ہر ملک میں ایک اچھا اور برا حصہ ہوتا ہے جو کہ کوئی راز کی بات نہیں ہے۔

انھوں نے لکھا کہ اس ویڈیو میں یہ اپیل کی گئی ہے کہ ہم عظیم ہیں اور ہمیں جو چیزیں عظیم بناتی ہیں ہم اس پر اپنی توجہ جاری رکھیں۔ ویڈیو کے آخر میں بہت سے لوگوں نے تالیاں بجائیں اور داد دی ہے جو کہ حب الوطنی سے بھری ہوئی تھیں۔ یہ تالیاں اس ملک کے لیے ہیں جس سے ہم پیار کرتے ہیں، جس پر یقین کرتے ہیں اور جس پر ہمیں فخر ہے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ‘اس ویڈیو کا مقصد یہ ہے کہ ہمارا ملک ان ساری شہ سرخیوں سے الگ ہے۔ اس کی گہرائی اور اس کی خوبصورتی۔ اسی لیے لوگوں نے داد دی۔ آپ کو اس ویڈیو کے چھوٹے سے حصے کو استعمال کر کے دھوکہ دیا جا رہا ہے۔ ایسا مت ہونے دیں۔ لوگوں نے انڈیا کو داد دی اور وہ آوازیں پیار سے بھری تھیں نفرت سے نہیں۔‘

انھوں نے لکھا کہ ’آپ منفی سوچ کی تعریف نہیں کر سکتے، آپ کی ٹکٹیں فروخت نہیں ہوں گی۔ یہ تب ہی ہو سکتا ہے جب آپ کو خود پر فخر ہو۔ مجھے اپنے ملک پر فخر ہے اور میں اس فخر کو اپنے ساتھ لے کر چلتا ہوں۔ اگر لوگ ایک بھرے کمرے میں انڈیا کے لیے احترام کھڑے ہوتے ہیں تو میرے لیے یہ مقدس پیار ہے۔ میں آپ کو وہی چیز بتا رہا ہوں جو میں نے ان ویوورز کو بتائی تھی، ہمیں روشنی پر توجہ مرکوز کرنی ہے، یہ یاد رکھنا ہے کہ ہم عظیم کیوں ہیں اور لوگوں میں پیار بانٹنا ہے۔‘

ویر داس کون ہیں؟

انڈین شہر دہرادون میں پیدا ہونے والے ویر داس شملا اور دہلی میں پلے بڑھے ہیں، وہ کچھ عرصہ نائیجیریا میں بھی رہے ہیں جبکہ چار سال امریکہ میں ایلونائی کے ناکس کالج میں اور ایک سال ہارورڈ یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کی۔

ہارورڈ یونیورسٹی میں وہ اکنامکس اور ایکٹنگ پڑھ رہے تھے۔ وہ کالج کے دنوں سے سٹینڈ اپ کامیڈی کر رہے ہیں اور ہارورڈ یونیورسٹی میں ویر داس نے ماسکو آرٹس ٹھیٹر کے ساتھ مختلف ڈراموں میں کام کیا اور میتھڈ ایکٹنگ میں تعلیم حاصل کی۔

انھوں نے امریکی شہر شکاگو میں بطور کامیڈین کام کیا ہے۔ اس کے علاوہ وہ متعدد ٹی وی چینلز پر بھی کامیڈی شو کر چکے ہیں۔ آج کل وہ امریکہ کا دورہ کر رہے ہیں جہاں ان کی اگلے دو شوز کی ساری ٹکٹیں فروخت ہو چکی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32297 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments