دلال بہت ضروری ہے


\"\"بادشاہی مسجد کے مرمریں گنبدوں سے لیکر انسانیت کے مخملیں گنبدوں تک کا سفر، ایک نظر، چند قدم اور جیب میں موجود چند کاغذوں تک محیط ہے۔ مغلوں نے جہاں بھی اسلام کی سربلندی کے لئے مساجد بنائیں، ساتھ ہی حفاظت اسلام کے لئے قلعہ اور حفاظت اخلاقیات ِخدام اورعوام کے لئے شاہی محلہ (ہیرا منڈی) ضروربنایا۔ اہل حرم کے لئے اس بازار میں آنا یا بازار سے چور راستوں کے ذریعہ حرم میں جانا، جب چراغ گل ہو جاتے ہون گے، تو شاید بہت دشوار نہ رہتا ہو گا۔ مہاراجہ رنجیت سنگھ نے شاید کبھی بھی نہ سوچا ہوگا کہ ہیراسنگھ وزیر کا نام اتنا دوام پائے گا۔ روشنی گیٹ اور حضوری باغ کے پہلو میں، یہ بازار کسی دور میں کلاسیکل ڈانس اورامرا کے بچوں کو ادابِ محفل ونشست وبرخاست اور اخلاقی تربیت کے لئے کام آتا ہو گا۔ مگر آج کل یہاں صرف معاشرے کے سب سے کم ترطبقہ کی نفسانی، جسمانی اور شہوانی ضروریات کا سامان مہیا ہوتا ہے۔ امرا اور رﺅسا اس مقصد کے لئے اعلیٰ ہوٹل، ڈیفنس کے بنگلے اور فارم ہاﺅسز کا رخ کرتے ہیں۔

اس بازارمیں اب ککو کا کھانا، پھجے کے پائے، وارث کی نہاری، صلی کی حویلی، گوگی بائی کا کوٹھا، کھسے اور کولہا پوری کی چند دوکانیں، کچھ طبلے بنانے والے اور تھانہ ٹبی سٹی دیکھنے اور چکھنے کے لائق بچے ہیں۔ آپ شاہی محل یا شاہی مسجد کی طرف سے اس میں داخل ہوں یا ٹیکسالی دروازے کی طرف سے، گاندھی جی کی ٹوپی کی طرح اس بازار کی گلیاں بھی نسوانی حصوں کے ساتھ مماثلت رکھتی ہیں۔ میاں صلی کی حویلی جائیں یا گوگی بائی کے کوٹھے پر، آپ کو واپسی پر پھجے کے پائے اور وارث کی نہاری کی ضرورت ضرور پڑے گی۔ اور پولیس سے تو آپ کا واسطہ پڑ ہی جاتا ہے، ہاں یہ آپ کی خوش قسمتی ہے کہ واپسی پر پڑے۔ کیونکہ جاتے ہوئے لٹیں یا واپسی پر، ہر دو صورتوں میں آپ نے لٹنا تو ہے ہی۔ پولیس لوٹے یا گوگی بائی کا دلال، بات ایک ہی ہے!\"\"
دلال، Broker، Pimp ہرسہ الفاظ میں اور معانی میں اتنا ہی فرق ہے جتنا حلال اور حرام میں۔ کسی دور میں اندرون شہر دلال خانوں میں مختلف اجناس کے سودے ہوتے تھے اور دلال اپنا کمیشن یا محنتانہ ہر دو پارٹیوں سے لے کر ہاتھ جھاڑ کر، سر شام اپنی دوکان بند کر کے، روانہ جانب مسکن ہو جاتے تھے۔ مگر وقت کے ساتھ ساتھ جہاں ہر چیز میں جدت آئی ہے بہت ساری چیزیں متروک اور بہت سارے الفاظ کو نئے جامے اور نئے معانی عطا ہوئے ہیں۔ اسی طرح دلال بھی اب صرف اس طرح کے بازاروں میں اپنے مخصوص لباس اور رنگ ڈھنگ میں میسرآتے ہیں۔ ان کا کاروباربھی مطلب کی طرح بدل گیا ہے۔ اب یہ جنس ِ انسانی کا سودا کرواتے ہیں۔ اوقات کی طرح اقات کار بھی بدل چکے ہیں اور یہ ہر شام اپنی دوکان لگا کر بیٹھ جاتے ہیں۔ جوں جوں رات ڈھلتی ہے ا ن کے کاروبارمیں تیزی، مصروفیت میں اضافہ اور کمیشن میں بڑھوتی ہوتی جاتی ہے۔ اور اذانِ سحر اور مرغان صحن کی اولین صدا کے ساتھ، جب دنیا والے اپنے اپنے خداﺅں کو راضی کرنے کے لئے تیاری کر رہے ہوتے ہیں۔ اور اپنے کاروبار زندگی کا آغاز کرتے ہیں، یہ اپنی دوکان بند کر کے، بوجھل آنکھوں اور حساب کتا ب کل شام پر موقوف کرنے کے بعد، منہ چادر میں دے کر، بستر استراحت پر یہ کہہ کر دراز ہوجاتے ہیں کہ \’\’شکر ہے اللہ دا۔۔۔ اج وی دیہاڑی چنگی لگ گئی اے۔ \’ دلال ہیرا منڈی کا ہو یا مسند اقتدار پر براحمان اہل اقتدار کا، کاروبار طریقہ کار اور اوقات کارسب کا ایک جیسا ہی ہوتا ہے۔\"\"

سرشام جب آپ اس بازار میں جائیں توآپ کو شلوار قمیض میں ملبوس، کندھے پر چادر یا سرخ رومال، سر پر ٹیڑھی ٹوپی، منہ میں پان اور بات کرنے پر سونے کا دانت نظر آئے اور جو آپ کو ملتے ہی ہاتھ سے پکڑکر سائیڈ پر لے جائے اور پہلا سوال آپ کے ہاتھ کو ملتے ہوئے یہ کرے کہ \’\’سر ہر قسم کا مال ملے گا، پسند آپ کی اپنی ہے پر ریٹ میرا ہو گا\’\’ سرذرا نظر تواٹھائیں وہ دیکھیں سرخ شرٹ والی۔۔۔  اچھا چلیں وہ ساتھ والی براﺅن بالوں والی۔۔ ۔  اوہ سرجی پریشان ہونے کی ضرورت نہیں پولیس کی آپ فکر نہ کریں، تھانیدار صاحب اپنے ہی آدمی ہیں۔ باجی نے خود بڑے صاحب کو کہہ کر لگوایا ہے۔ یہ بارھویں دفعہ آئے ہیں یہاں پر۔ بڑے اچھے آدمی ہیں، تنگ نہیں کرتے بالکل بھی، پانچ وقت کے نمازی ہیں پکے۔۔ ۔ ۔ ۔  کبھی کبھی باجی کو سلام کرنے آتے ہیں۔ ہفتے پندرہ دن بعد رات کو۔۔ ۔ ۔  اور صبح گشت مکمل ہونے کے بعد چلے جاتے ہیں۔۔۔۔!

سر آﺅ تو سہی ایک دفعہ اندر آ کر دیکھیں تو سہی۔ میرے ہاتھ میں پسینہ اور زبان میں لکنت کے ساتھ قدموں میں جیسے مقناطیس آ گیا تھااور میں نے بائیں ہاتھ سے اپنی جیب کو زور سے دبا لیا۔  مجھے ایسے لگ رہا تھا کہ جیسے یہ شخص میری مرضی کے خلاف میرے جسم اور روح پر کنٹرول کرچکنے کے بعد، مجھے اور میری جیب کو بیچ چوراہے الٹا کر خالی کرکے رکھ دے گا، اور میر ے پاس عزت بچے گی \"\"اور نہ جیب میں پیسہ۔ اسی دوران میں نے سر اٹھا کر اوپر دیکھا تو بالکونی میں رنگ دار کپڑوں میں ملبوس سیدھے، ترچھے، لمبے، چھوٹے اور جوڑے والیاں جن کے گنبدوں کی گولائیوں سے بادشاہی مسجد کے گنبد شرمندہ ہو ہو جا رہے ہوں۔ عجیب نظروں سے ہر آنے والے کو ایسے اشارے کررہی تھیں جیسے قصائی زبح کرنے سے پہلے جانور کو جانچ رہا ہوتا ہے کہ سارے میں کتنی دیر، محنت، جان اوروقت صر ف ہو گا۔ میں نے بے بسی سے شاہ صاحب کی طرف دیکھا، اپنا ہاتھ جھٹکا اور ہم جھٹ سے ساتھ والی دوکان میں کھسہ خریدنے کے لئے گھس گئے۔ مگر سردیوں کے باوجود کتنی دیر تک میری پیشانی پسینے سے شرابوراور دل کی دھڑکن بے ترتیب رہی اور میں نے نظر چرا کر جب باہر دیکھا تو وہ شخص ایک اور آدمی کے ساتھ گلی کے کونے میں کھسر پھسر میں مصروف نظر آیا۔

تنگ گلیوں، تاریک راہوں، تاریک زینوں، قدیم دروازوں، پھٹے ہوئے رنگدار پردوں، چھوٹے چھوٹے انسانی ذہن کی طرح تنگ کمروں اور گندے بستروں پر انسانیت کی تذلیل کا کھیل کھیلنے والے ہر دوانسان اس دلال کو اپنا محسن تصور کرتے ہیں جن کی بدولت لذت کا یہ کھیل کچھ کے لئے دووقت کی روٹی، کچھ کے لئے سستی تفریح اورکچھ کے لئے کاروبارحیات ہے۔ جس عورت کے سامنے اس کا خاوند قتل \"\"ہوجائے یا کینسر سے بغیرعلاج مر جائے، پانچ بچے خوراک اور پوشاک کے لئے رو رہے ہوں جوان اور بوڑھے محلہ دار راجہ گدھ کی طرح اس کو نوچنے کے لئے ہروقت چونچ اور پنجے تیز کرتے رہیں اس کے لئے جسم کے چار انچ ضرب چھ انچ حصے کی، جسے لوگ عزت کہتے ہیں، کوئی وقعت نہیں رہتی۔ اس کے لئے یہ ایک روٹین کا کام ہے جیسے مزدور روزانہ صبح اٹھ کر مزدوری کے لئے چلا جائے اور آٹھ گھنٹے بعد معاوضہ لیکر کھانے کے لئے آٹا، پکانے کے لئے دال اور بیمار بچوں کی دوائی لے کر آجائے۔

دلال کا ہونا کسی بھی معاشرے کے لئے کتنا ضروری ہے خواہ وہ ہیرامنڈی کی ہر گلی کے ہر کونے میں کھڑا ہونے والا شخص ہو یا تھانے میں تھانیدار اور پٹواری صاحب کا کار خاص، جو ہر مسئلہ کا حل، قتل میں بندہ بے گناہ کرنے سے لے کر، زمین پر قبضہ، طلاق کا فیصلہ اورلین دین میں صلح، سب کچھ کی دلالی کرتا ہے۔ اور تھانیدارصاحب اور صاحب پٹوارکو سیٹ عنایت کرنے کے لئے جو سفارش، عنایت یا مہربانی کے عوض، تعمیل حکم ہوتا ہے وہ دلالی کا ایک اور پہلو ہے۔ میں نے اپنے ارد گرد جب نظردوڑائی تو مجھے ایسے لگا کہ جیسے ہم سب ہیرا منڈی کے دلال کے ساتھ کسی نہ کسی طور اپنے اطوار، معاملات، کاروبار اور اعمال میں مسابقت اور مماثلت رکھتے ہیں۔

کس بھی معاشرے کا انحطاط اس وقت اپنے پاتال تک پہنچ جاتاہے جب اس کے باسیوں کو اپنی روزمرہ کی ضروریات، حاجات اور معاملات \"\"کے لئے بھی، اپنی صدا ایوان اقتدار، دروغہ شہر، جمعدار، صاحب آبکار، ضلعدار یا دوسرے عہدیداروں تک پہچانے کے لئے درمیانی واسطہ تلاش کرنا پڑے۔ یو ں ہر طبقہ فکر، خواہ عوام ہوں یا خواص، اہل اقتدارہوں یا افسران سرکار، ہرسطح پر ایک عدد دلال موجود ہوتا ہے۔ جو آپ کی رسائی، معاملات کے حل کے لئے اور مسائل کی تفہیم کے لئے، اپنا کمیشن لے کر، کسی نہ کسی مودے کنجر، گوگی بائی یا ننھی بائی تک پہنچاتا ہے۔ پٹواری کا بستہ، قانگو کا قلم، صحافی کی زباں، ماسٹرکی پوسٹنگ، بیلدارکی نوکری، کوتوال شہر، منصفِ بحر و بر، مہتمم اعلیٰ، منتظم مالیات، شیر شاہ کا پل، لبرٹی کا پلازہ، PIA اور سٹیل ملز کی بولی،  LPG کا کوٹہ، بجلی کا ٹھیکہ، ٹکٹوں کی تقسیم، سینٹر کاعہدہ، وزارت کا قلمدان، سب کے پیچھے قابلیت، صلاحیت تجربہ، عقل ودانش فہم و فراست، ایمانداری اور خودداری، خوف خدا اورجذبہ حب الوطنی جیسے عوامل نہیں بلکہ کوئی نہ کوئی دلال موجود ہے جو کہتا ہے کہ \’\’سر مال آپ کی مرضی کا ہو گا اور ریٹ میری مرضی کا!\’\’

دلال ہیرامنڈی کا ہو یا اقتدار کے ایوانوں کا، دونوں سودا کرتے ہیں۔ مجبوری، ضروت۔ محرومی اور لاچاری کا۔۔۔۔۔!

لیاقت علی ملک

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

لیاقت علی ملک

لیاقت علی ملک ۔۔۔ داروغہ ہے۔ خود ہی عدالت لگاتا ہے، خود ہی فیصلہ سناتا ہے اور معاف نہیں کرتا۔۔۔ بس ایک دبدھا ہے۔۔۔وہ سزا بھی خود ہی کاٹتا ہے ۔۔ ۔۔کیونکہ یہ عدالت۔۔۔ اس کے اپنے اندر ہر وقت لگی رہتی ہے۔۔۔۔

liaqat-ali-malik has 12 posts and counting.See all posts by liaqat-ali-malik

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments