عمران خان کے انتظار میں اہل قلم کو پیاسا کیوں رکھا گیا؟


اکیڈمی ادبیات اسلام آباد کی تقریب سے جناب عمران خان نے اہل قلم کو مخاطب کرتے ہوئے کہا۔ ”آپ تو نہیں جانتے میں بتاتا ہوں اللہ نے پاکستان کو بارہ موسم دیے ہوئے ہیں ”یہ بات وہ تین سال پہلے بھی بتا چکے ہیں معلوم ہوا تین سال میں ملک میں مثبت تبدیلی آئی نا خانصاحب کی کم علمی میں کمی۔

ظفر اقبال کہتے ہیں
جھوٹ بولا ہے تو اس پہ ظفر قائم بھی رہو
آدمی کو صاحب ٍ کردار ہونا چاہیے۔

خاں جی اپنی دھن کے پکے ہیں بارہ موسم کا بیان دے چکے تھے اب وہ اپنے جھوٹ سے مکر کر یوٹرن لیں تو آفتاب اقبال بھی ان کے صاحب ٍ کردار نہ رہنے پر معترض ہوں گے ۔

اس کانفرس میں شرکا کو ملک بھر سے سرکاری دعوت پر مدعو کیا گیا تھا تقریب کے آغاز سے تین گھنٹے قبل مدعوین کو ہال میں بٹھایا گیا، انہیں طلب کرنے پر بھی پانی مہیا نہیں کیا گیا۔ یہ احتیاط بہت ضروری اور دور اندیشی کی مظہر تھی۔

قیاس تھا کہ شاید کو باعلم و باعمل مصنف اجتماعی دکھوں کے اظہار یا اپنی تذلیل پر سیخ پا ہوجاتا اور خالی بوتل احتجاجاً وزیراعظم کی جانب اچھال دیتا۔ سو محتاط رہنے والی افسر شاہی نے اہل قلم کو پیاسا رکھنا مناسب سمجھا تقریب کے بعد بھی حاضرین و مدعوین کی چائے سے تواضع نہیں کی گئی کہ ملکی معیشت اس فضول خرچی کی متحمل نہیں ہو سکتی۔

جناب وزیراعظم کی نشست پر سبز رنگ کا کپڑا رکھا گیا تھا جسے بعض حاضرین نے اپنی دانست میں تعویز نما قرار دیا شاید اس سبز کپڑے پہ کچھ کندہ کاری کی گئی تھی یا کچھ تحریر موجود تھی۔ جناب وزیراعظم کی آمد پر اس سبز کپڑے کو کرسی کی عقب کی جانب الٹ دیا گیا تھا۔ تبدیلی کے لیے کچھ تو کاوش ہونی چاہیے نا۔

اس موقع پر جناب عمران خان نے فرمایا

سلطنت روما اور فارس کو فتح کرنے کے بعد 150 مربع میل پر مشتمل پہلی اور وسیع اسلامی ریاست قائم ہوئی تھی جو بزور تلوار نہیں بلکہ کردار کی بنیاد پر استوار تھی۔

نجانے مفتوحہ علاقوں کو بنا جنگ و جدل کیسے مطیع کیا گیا تھا؟ وزیراعظم نے یہ واضح نہیں کیا تھا۔
سونامی تبدیلی۔ زندہ باد
موسمیات۔ تاریخ اور جغرافیہ کی ایسی تیسی!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments