کاہے کو بیاہی بدیس


ہوا یوں کہ ایک بھلے دن سوچا کہ ٹہلتے ٹہلتے ذرا باغ چل۔ یعنی کار میں ایک میل دور اپنی ایک دوست کے گھر۔ اپنے دیس میں کار چلاتے مدت ہو گئی تھی۔ کراچی کی سڑکوں پر کار چلانے والا ماہر سمجھا جاتا ہے۔ اس لئے امریکہ میں رہنے والے بیٹے نے دوسرے دن ڈرائیونگ لائسنس دلوانے والی عمارت میں لا کھڑا کیا۔ وہ الگ کہانی ہے پھر کسی دن سنئے۔ ابھی وہ سنئے جو باقاعدہ ڈرائیونگ لائسنس اور کار کی لائسنس پلیٹ اور اس پر لگا ہوا اسٹیکر ہوتے ہوئے گزری۔

میاں صاحب دیس گئے ہوئے تھے۔ میاں گھر نہیں، بیوی کو ڈر نہیں۔ چلتے چلتے کہہ گئے تھے۔ کبھی کبھی میری گاڑی چلا لیا کرنا اس کی بیٹری نہ بیٹھ جائے۔ سو وہ شبھ دن نکلا ان کی گاڑی چلانے کا۔ ابھی بمشکل اپنے محلے سے نکل کر ایک نالے پر بنے مختصر سے پل کے پاس پہنچی تھی کہ پیچھے سے ایک نہایت کرخت ہارن کی آواز آئی۔ نظر انداز کیا جیسا کہ بدتمیز لوگوں کو کیا جانا چاہیے۔ دوسری مرتبہ کان پر اس بھونڈے حملے سے ( اگر یوسفی صاحب کے مداح پڑھ رہے ہوں تو صدائے ناگوار بر گوش بار دگر) پر غصہ تو آیا مگر برداشت کر کے گاڑی کو ذرا سے دائیں کو روکا اور اس بد لحاظ ڈرائیور کو ہاتھ کا اشارہ کیا کہ بھلے آدمی اچھا پہلے تو ہی نکل جا۔ مگر اس نے گاڑی پیچھے کھڑی کی او ر اتر کر آیا۔ وہ پولیس والا تھا۔

واضح رہے کہ ابھی بدیس میں آئے بہت دن نہیں ہوئے تھے اور بہت سے عشق کے امتحان باقی تھے۔

سو یونہی ہوا کرتا ہے جب آپ اپنا دیس چھوڑ کر جائیں۔ وہاں کی عادتیں چھوڑنی بہت مشکل ہوتی ہیں۔ اپنے ملک میں کبھی پولیس سے واسطہ نہیں پڑا۔ پچیس سال کار چلائی کبھی ٹکٹ نہیں ملا، پھر بھی نہ جانے کیوں پولیس کا ڈر تھا۔ پالیسی کی گاڑی اچھی لگتی تھی نہ پولیس کی یونیفارم۔ وہ ڈر امریکہ ساتھ آیا۔ یہاں تو سڑک پر پولیس کی گاڑیاں بہت نظر آتی تھیں۔ شروع میں تو انھیں دیکھ کر دل دہل جاتا تھا۔ پھر رفتہ رفتہ عادی ہو گئے کہ وہ تو اسی طرح پاس سے گز ر جاتی ہیں جیسے دوسری کاریں۔

مگر اس دفعہ پولیس افسر سر پر آن کھڑا ہوا۔ بولا۔ ”میڈم آپ کے اسٹیکر کی تاریخ گزر چکی ہے۔“
”کیسا اسٹیکر؟ میں نے پوچھا۔“
”گاڑی کی نمبر پلیٹ پر لگا اسٹیکر۔“ اس نے کہا۔
بھر پور اعتماد سے۔ ہم نے کہا۔ ”نہیں، اس کی تاریخ تو ستمبر کی ہے۔“
”میڈم، اس کی تاریخ گزر چکی ہے، کیا میں آپ کا لائسنس دیکھ سکتا ہوں۔“
ہم نے نہایت اعتماد کے ساتھ لائسنس حوالے کیا۔
”وہ بولا۔ اس کی تاریخ چھہ مہینے پہلے گزر چکی ہے۔“
اب تو ہاتھوں کے طوطے اڑے۔ یہ بھی یاد آ گیا کہ شوہر صاحب کی گاڑی چلا رہی ہوں جس کی تاریخ کچھ اور ہے۔ پولیس والے نے ادب سے کہا۔ ”چھہ ماہ پہلے آپ کو نیا لائسنس لینا چاہیے تھا اور اسٹیکر بھی۔“

اب کیا ہو؟ دماغ نے جیسے کام کرنا بند کر دیا۔ پھر پولیس والے کی خوش خلقی دیکھ کر اس سے کہا۔ ”میں بس ذرا پلیا کے پار اپنی دوست کے گھر جا رہی تھی۔“

”مگر میڈم، آپ کے پاس لائسنس نہیں ہے آپ گاڑی نہیں چلا سکتیں۔“
”تو کیا تم مجھے دوست کے گھر چھوڑ دو گے، بس یہ دو قدم پر ہے۔“

اب خیال آتا ہے کہ وہ دل ہی دل میں کتنا ہنسا ہو گا مگر اسی خوش اخلاقی سے اس نے کہا ”۔ نہیں، آپ میری گاڑی میں بیٹھیں اور پولیس اسٹیشن چلیں۔ مجھے آپ کو ٹکٹ دینا ہو گا۔“

پولیس اسٹیشن! اب تو دماغ کے طوطے بھی اڑنے لگے۔ بھلا شریف بہو بیٹیوں کا پولیس اسٹیشن میں کیا کام۔ میرے خیال میں تو پولیس کی گاڑیوں میں صرف مجرم یا پولیس والے ہی بیٹھتے ہیں۔

خیر مرتی کیا نہ کرتی، پرس اٹھایا، گھبراہٹ میں کتابوں کا وہ تھیلا بھی نکال لیا جو دوست کے گھر لے کر جا رہی تھی اور پولیس کی گاڑی کی پچھلی سیٹ پر بیٹھ گئی۔ امریکہ کی یہ اچھی بات ہے کہ کتنا ہی چھوٹا شہر یا گاؤں کیوں نہ ہوں ان کے اپنے پولیس اسٹیشن اور آگ بجھانے کے محکمے ہوتے ہیں۔

پولیس کار بھی عام سی گاڑی تھی ویسی دیو زاد نہیں تھی جس میں مجرموں کو لے جاتے ہیں۔ پھر بھی پولیس کی گاڑی میں بیٹھنا۔ بات تو سچ تھی مگر بات تھی رسوائی کی۔ چنانچہ میں بہت پیچھے سرک کر تھیلا منھ کے آگے کر کے بیٹھ گئی کہ کوئی محلے والا نہ پہچان لے۔ پولیس اسٹیشن بمشکل پانچ منٹ کے راستے پر ہو گا۔ ہم دونوں اندر گئے۔ پولیس والے نے ایک بھورے کاغذ پر کچھ لکھ کر ایک کاپی مجھے دی اور کہا۔

” یہ لے کر کورٹ چلی جانا۔ پہلی غلطی ہے شاید جج معاف کردے۔“

اس نے مجھے گھر چھوڑ آنے کی پیشکش کی جو میں نے رد کردی۔ ایک بار بیٹھ چکی تھی دوسری بار بیٹھنے کی ہوس نہیں تھی۔ فون کر کے بہن کو بلوایا اور اس کے ساتھ گھر آئی۔ جب تک لائسنس نہ لو گاڑی دو قدم نہیں چلا سکتے۔ ایسی انہونی اپنے ملک میں کبھی نہیں سنی تھی۔ یعنی کہ کار جو پل کے پاس کھڑی ہے وہ وہیں کھڑی رہے گی جب تک میں نیا لائسنس نہ لے لوں اور کوئی مجھے ڈھو کر اس کار تک چھوڑ کر نہ آئے۔

بہن بیچاری پیدل گئی اور گاڑی لاکر گھر پر کھڑی کردی۔

دوسرے دن بیٹے سے ڈرتے ڈرتے کہا مجھے کورٹ جانا ہے، سو وہ مجھے کورٹ لے گیا اور کورٹ کے سامنے اتار کر غائب ہو گیا۔ کچھ دیر انتظار کر کے میں اندر آئی اور خود ہی وہ کمرہ ڈھونڈا جہاں جج براجمان تھے۔ کمرے میں اور بھی بہت لوگ تھے۔ دیکھتی کیا ہوں کہ کسی کے چہرے پر ہوائیاں نہیں اڑ رہیں۔ سب ایسے آرام سے بیٹھے تھے جیسے تھیٹر میں بیٹھے ہوں۔ کلرک کوئی نام لیتا تھا آدمی اٹھ کر جاتا تھا جج پو چھتا۔

”قصوروار یا بے قصور“ ۔ زیادہ تر لوگ دھڑلے سے کہہ رہے تھے۔ ”بے قصور“ ۔

کچھ اور سوالوں کے بعد جج فیصلہ سنا دیتا تھا اور لوگ رخصت ہو جاتے تھے۔ میرا نمبر آیا تو میں نے سر بازار اقرار جرم کیا۔

جج نے کہا پچیس ڈالر کیشیئر کے پاس جمع کرا دو۔ کیشیئر کے کمرے میں جاتے ہوئے میں نے اس پولیس والے کو، جس نے مجھے ٹکٹ دیا تھا، کچھ ساتھیوں کے ساتھ کرسی پر بیٹھے دیکھا۔ میں ترنت اس کے پاس گئی اور کہا ”۔ تم نے تو کہا تھا کہ جج معاف کردے گا۔“

اس نے نہایت نرمی سے کہا۔ ”آخر وہ جج ہے۔“

پچیس ڈالر دے کر میں کورٹ سے باہر نکل رہی تھی کہ دیکھا بیٹے چلے آرہے ہیں۔ اس سے پہلے کہ میں اک دم غائب ہو جانے کی باز پرس کروں، حضرت بولے۔ ”آپ کو ٹکٹ کیوں ملا تھا؟“

لو بھئی اس وقت نہ پوچھا جب میں نے میں کورٹ جانے کی بات کی تھی۔
میں نے بگڑ کر کہا۔ ”ظاہر ہے کہ ٹکٹ ملا ہو گا“
”مگر ملا کس بات پر؟“
ساری رام کہانی سنائی۔ بیٹا ہنسے ہنستے بے حال ہو گیا۔ ”اتنی بڑی دو غلطیوں پر صرف پچیس ڈالر جرمانہ۔“
اس کے قہقہے دم توڑنے کو تیار ہی نہیں تھے ”۔ ارے امی، سو ڈالر بھی جرمانہ کرتا تو کم تھا۔“
”لو اور سنو، کیا تو کبھی کورٹ گیا ہے۔“
”بیسیوں مرتبہ۔“ اس نے کہا۔ اب بھی آپ اتنی پریشان کیوں ہیں؟
” نیا لائسنس بنوانا پڑے گا۔“
”تو کیا ہوا۔ آپ تیس سال سے تو گاڑی چلاتی آ رہی ہیں۔“

اب اس سے کیا کہتی کہ مجھے یاد نہیں پاکستان میں ٹیسٹ دینے کب اور کہاں گئی تھی۔ یہاں تو دوبارہ سوالوں کے جواب لکھنے ہوں گے۔ پھر سے کسی نوجوان لڑکے یا خرانٹ بڑھیا کے ساتھ روڈ ٹیسٹ دینا ہو گا۔ نوجوان تک تو خیر ٹھیک ہے، وہ تو ہوتے ہی لا ابالی ہیں زیادہ فکر نہیں پالتے۔ مگر خرانٹ بڑھیا، اپنی عمر کا اور گھر والوں کا سارا غصہ ہم معصوم ڈرائیوروں کو فیل کر کے نکالتی ہیں۔

مجھے اپنا پہلا ٹیسٹ یاد آیا۔ اس کا ذکر پھر کبھی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments