صفر اور ایک کے درمیان پھنسا چغد


کیا آپ کسی ایسے چغد کو جانتے ہیں جس کو سوائے صفر اور ایک کے نہ کوئی دوسرا عدد آتا ہو اور نہ حرف۔ اور پھر بھی آج کی دنیا میں اس کی مالی حیثیت ایک سو پچاس کھرب ڈالر کی ہے۔ مجھے یقین ہے آپ نہ صرف جانتے ہیں بلکہ اس وقت اسی کے دماغ سے یہ الفاظ بھی پڑھ رہے ہیں۔ جی ہاں کمپیوٹر یا اس کی ہتھیلی میں پکڑنے والی قسم یعنی سمارٹ فون ہے۔ ٹھہرئیے میں آپ کو سمجھاتا ہوں۔ چغد میں نے اسے اس لیے خطاب دیا کہ آپ کا کمپیوٹر آپ کے دیے ہوئے کام کو آپ کی دی ہوئی ہدایات پر عمل کرتے ہوئے نتائج آپ کو پیش کرتا ہے اور یہ نتائج اس تیزی سے فراہم کرتا ہے جو ایک انسان کے بس کی بات نہیں۔

پر یہ آپ کو یہ نہیں بتا سکتا کہ صاحب یہ تو غلط کام ہے۔ یا مجھے نیند آ رہی ہے بعد میں پوچھ لیں۔ بس آپ کی بتائی ہوئی ہدایت پر ہی عمل کر سکتا ہے (مشین لرننگ اور آرٹیفیشل انٹیلی جنس الگ موضوع ہے ) ۔ اور کمال کی بات یہ ہے کہ اس جادوئی، بے سوچ مشین کی ساری زبان صرف صفر اور ایک پر مشتمل ہے۔ بظاہر تو دو اعداد کی مختلف کمبینیشن محدود نظر آتی ہے۔ لیکن اصل میں کمپیوٹر اس سے لاتعداد امکانات نکال سکتا ہے۔ اس کی رفتار کا انحصار کمپیوٹر کی طاقت سے ہوتا ہے۔

اس کے پرزے جو پرانے ٹی وی کے اندر ٹیوبوں کی مانند ہوتے تھے، اب ٹرانزسٹرز پر مشتمل ہیں۔ سائز میں کم لیکن طاقت میں زیادہ ہونے کا سفر جاری ہے۔ 1965 ء میں جارج مور نے ایک اصول وضع کیا کہ ہر سال کمپیوٹر کی طاقت دگنی ہوتی جائے گی اور ساتھ ساتھ اسکی جسامت کم ہوتی جائے گی۔ یہی وجہ ہے کہ 1969 ء میں چاند پر اپالو خلائی جہاز میں انسان کو چاند تک پہنچانے والا کمپیوٹر جو آج بھی ڈیلاس میں ناسا کے میوزیم میں موجود ہے، دو بڑے بڑے ہالوں پر مشتمل تھا اس میں بیسیوں مانیٹر لگے ہوئے تھے۔ لیکن اس کی میموری محض ایک ایم بی تھی۔ آج میرے ہاتھ میں، 000 256 ایم بی ( 256 GB) کا موبائل موجود ہے۔

ویسے تو کمپیوٹر سے بے شمار کام لئے جاتے ہیں۔ بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ کوئی ایسا شعبہ نہیں جہاں پر ہمارا چغد یار پھدک پھدک کر ہماری مدد نہیں کرتا۔ موبائل فون سے لے کر آپس کی خط و کتابت تک، بینکنگ سے لے کر عدلیہ تک اور تعلیم سے لے صحت کے شعبوں میں ہر جگہ کمپیوٹر کا عمل دخل ہے۔ پورا کمپیوٹر نہ بھی ہو تو کئی ایک چپ تو کھلونوں میں بھی لگے ہوتے ہیں۔ آپ نے خبروں میں پڑھا ہو گا کہ دنیا بھر میں گاڑیوں کی اسمبلی لائن رک گئی ہے۔

وجہ یہ تھی کہ کرونا وبا کے دوران چپس کے کئی کارخانے بند ہو گئے تھے اور جو کھلے تھے، انہوں نے اپنی توجہ صحت سے متعلقہ آلات پر لگادی۔ ابھی تک گاڑیوں کے لئے چپس کے بنانے کی رفتار وبا سے پہلے کے مقابلے میں کم ہے۔ دوسری طرف چونکہ الیکٹرک گاڑیوں کی پروڈکشن بڑھ رہی ہے، جن کا کمپیوٹر چپس پر انحصار اور بھی بڑھ رہا ہے۔ اس لئے عام چپس کی پروڈکشن میں فی الحال کسی اضافے کی امید نہیں۔

ایک عام آدمی زیادہ تر کمپیوٹر سے ورڈ پراسسنگ یعنی ٹائپ رائٹر، سپریڈ شیٹ یعنی اکاؤنٹس اور پریزینٹیشن کے لئے استعمال کرتا ہے۔ تاہم حکومتوں اور بڑے اداروں کو ایک ایسے پروگرام کی ضرورت زیادہ ہوتی ہے جس میں اعداد و شمار کی بھول بھلیوں سے اپنے مقصد کے معلومات حاصل کرسکیں۔ اس پروگرام کو ڈیٹا بیس کہتے ہیں۔ مثلاً آپ ایک ہسپتال، شہر یا پورے ملک میں گزشتہ ہفتے کرونا کے مریضوں کے داخلے کی معلومات لینا چاہیں تو آپ نے اس ڈیٹا بیس کے تشخیص والے خانے میں صرف کووڈ لکھنا ہے اور کھل جا سم سم کی طرح آپ کے پاس ان تمام مریضوں کے کوائف آن موجود ہوتے ہیں۔

یہی ڈیٹا بیس آپ کی بینک کے اکاؤنٹ ہولڈروں کا ریکارڈ رکھتی ہے۔ اور یہی پروگرام سپر سٹور کو بتاتی ہے کہ ہفتے کے فلاں دن، جوس کے ڈبوں کی فروخت زیادہ ہوتی ہے۔ وہ کمپنی جس کا ڈیٹا بیس جتنا بڑا ہو، وہ اس سے زیادہ منافع کما سکتا ہے۔ اس قسم کے ڈیٹا کو ”بگ ڈیٹا“ کہا جاتا ہے۔ اس وقت گوگل اور ایپل دو کمپنیاں جو بگ ڈیٹا کے خزانے تک زیادہ دسترس رکھتی ہیں۔ اسی پروگرام کا نتیجہ ہے کہ آپ فیس بک پر جوتوں کا اشتہار چند سیکنڈ زیادہ دیکھ لیتے ہیں تو اگلے دن سے آپ کے سامنے جوتوں ہی جوتوں کے اشتہار آتے ہیں۔ گوگل سے لے کر فیس بک اور انسٹاگرام سے لے کر وٹس ایپ آپ کو ساری سہولتیں کیوں مفت دے رہا ہے؟ اس لئے کہ ان کو ڈیٹا کا قیمتی خزانہ ہاتھ لگ جاتا ہے۔

کمپیوٹر پروگرام میں شفافیت سب سے اہم خوبی ہے۔ آپ نے کسی تھانے کے ریکارڈ میں پچھلے سال کے ملزموں کا ریکارڈ دیکھنا ہو تو آئی جی پولیس بھی کسی ملزم کا نام غائب نہیں کر سکتا۔ ہمارے ملک میں نادرا کے پاس سب سے بڑا ڈیٹا بیس ہے۔ پہلے کی طرح محض ڈومیسائل بنانے کے لئے کسی گزٹڈ افسر یا ڈپٹی کمشنر کے دفتر میں جان پہچان سے یا رشوت سے کام لینا پڑتا تھا اور پھر بھی بے شمار جعلی ڈومیسائل بن جاتے تھے۔ میرے ایک دوست نے ایک دفعہ اپنے دفتر میں ایک کاغذ پر ڈومیسائل ٹائپ کر کے اور پھر ڈپٹی کمشنر کے گول مہر کی جگہ آلو کاٹ کر اس پر تھوڑی سیاہی پھیلائی اور کاغذ پر تھاپ کے لگائی۔ اور لیں ڈومیسائل تیار۔ اب تو نادرا نے اٹیسٹیشن کی شرط بھی ہٹا دی ہے۔ اس لیے کہ اس ادارے کے پاس ہر پاکستانی کا پورا شجرہ دستیاب ہے۔ شروع میں بابوؤں نے گھپلے کی کوشش کی لیکن کمپیوٹر کا حافظہ ان مٹ ہوتا ہے۔ یہاں سے آپ معلوم کر سکتے ہیں کہ کس نے کوئی غلط شناختی کارڈ بنوا کے دیا ہے۔

کرونا کے دوران جب بین الضلاعی ٹرانسپورٹ کم ہو گئی تھی تو حکومت نے کافی سارے سرکاری کام کمپیوٹر کے ذریعے سے کرنا شروع کر دیا تھا۔ کمپیوٹر اور انٹر نیٹ نے فاصلوں کو بے معنی بنا دیا ہے۔ میں اپنی گاڑی کی اسلام آباد رجسٹریشن کی رقم پاکستان بھر میں کسی گاؤں سے بھی ای۔ سہولت کے ذریعے کر سکتا ہوں۔

نادرا ہمارے لئے ایک قابل فخر اثاثہ ہے۔ تاہم ابھی ہمارے زیادہ تر پارلیمینٹیرینز اور افسر شاہی کمپیوٹر کی پوری صلاحیتوں سے بے خبر ہے۔ ورنہ اسی کمپیوٹر میں ذخیرہ ڈیٹا کا خزانہ نہ صرف برسوں پہلے فصلوں، بیماریوں، ٹریفک، امپورٹ اور ایکسپورٹ کے بارے منصوبہ بندی میں مدد دے سکتا ہے بلکہ جرائم کی روک تھام اور زلزلوں کے بارے بھی اقدامات کرنے کے قابل بناتا ہے۔

کمپیوٹر ہمیں نہ صرف شفاف حکومت بنانے میں مدد دیتا ہے بلکہ کاغذی کارروائیاں بھی کم کر دیتا ہے۔ شفافیت سے کرپشن میں کمی آتی ہے۔ جو ایک مثال سے واضح ہو سکتی ہے۔ کوئی محکمہ اگر آن لائن ٹینڈر دیتا ہے تو اس کی ساری کاغذی کارروائیاں قصہ پارینہ ہوجاتی ہیں۔ اگر سپلائرز آن لائن ہی اپنے ٹینڈر دے دیں جو پوری قوم کے سامنے ایک مقررہ وقت پر کھل جائیں تو ایک اندھا بھی کرپشن پر انگلی اٹھا سکتا ہے۔ بسا اوقات مختلف سپلائرز مل کر مارکیٹ سے زیادہ نرخ دیتے ہیں اور افسران کو کم ترین نرخ منتخب کرنا ہی پڑتا ہے۔ لیکن اگر یہ سب کچھ عوام کی نظروں کے سامنے ہو تو کیسے ساٹھ روپے میں دستیاب لائف بوائے صابن ہسپتال ایک سو پچاس روپے میں خرید سکتا ہے کہ سپلائر نے سب سے کم ریٹ دیا تھا۔

بینکنگ اور دوسرے اہم شعبوں میں سب سے بڑا ڈر ہیکنگ کا ہوتا ہے۔ اچھے ادارے اس سیکورٹی پر بہت خرچ کرتے ہیں۔ جب سے الیکٹرانک کرنسی (کریپٹو کرنسی) معرض وجود میں آئی ہے، آن لائن سیکورٹی کی اہمیت اور بھی بڑھ گئی ہے۔ بلاک چین ایک ایسی ہی پیچیدہ سیکورٹی ٹیکنالوجی ہے جس میں جتنے زیادہ لوگ شامل ہوتے جاتے ہیں اتنی ہی اسکی سیکورٹی بڑھتی جاتی ہے۔ یوں سمجھ لیں کہ جیسے بلاک چین ایک بینک ہے اور اسکے تمام اکاؤنٹ ہولڈرز مسلح بینک کے گرد چوبیس گھنٹے پہرہ دے رہے ہوں۔

اس وقت ملک میں ایک سیاسی بھونچال آیا ہوا ہے کہ پارلیمنٹ نے الیکٹرانک ووٹنگ کے لئے قانون سازی کی ہے۔ عجیب عجیب بے تکے اعتراضات کی بھرمار ہے۔ ”لوگ کمپیوٹر کو نہیں سمجھتے، بجلی چلی جائے تو کیا کریں گے۔ اور اس میں ضرور دھاندلی ہوگی وغیرہ وغیرہ۔“ آپ کا انپڑھ ریڑھی والا موبائل سے ہزاروں روپے اپنے ہزار میل دور رشتہ دار کو کسی بھی وقت بھیج سکتا ہے۔ یہ الیکشن کی مشینیں موبائل فون کی طرح بیٹری سے چلتی ہیں۔ آپ میں سے کتنوں کو کسی دور دراز علاقے میں بھی فون نے کبھی جواب دیا ہے؟ ہرگز نہیں۔ روزانہ کتنے لوگ اے ٹی ایم سے رقم نکالتے ہیں، بے شمار۔ باقی بات رہی دھاندلی کی، تو جو الیکشن کمشن کمپیوٹر کے شفاف سکرین پر دھاندلی کر سکتا ہے تو کیا ہاتھ کے لکھے پرچے کمیشن کے ہاتھ میں دے کر آپ انہی ہاتھوں کو دیانت دار بنا دیں گے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments