جن کے بل تھے، انہوں پاس کروا لیے


پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں بلوں کا مینا بازار لگا تھا اور ایک نہیں دو نہیں چار نہیں دس نہیں، اکٹھے تینتیس بل آن واحد میں پاس کروا لیے گئے۔ لطف کی بات یہ کہ جو اتحادی دو روز قبل ناز نخرے دکھا رہے تھے اور مہنگائی، لا قانونیت، معاشی بد حالی اور بد انتظامی سمیت بے شمار مسائل کی وجہ سے حکومت سے نالاں تھے انہوں نے دو روز بعد ہی کسی غیر مرئی طاقت اور جادو کی ”چھڑی“ کے زیر اثر مشترکہ اجلاس میں پہنچ کر بلوں کے حق میں ووٹ دیے۔

ووٹنگ سے ایک دن قبل وزیراعظم سمیت تمام حکومتی اراکان اور وزرا و ترجمان بڑے مطمئن تھے اور سب کی باڈی لینگوئج صاف بتا رہی تھی کہ حکومت کو جادو کی چھڑی کی کمک پہنچ چکی ہے۔ کچھ دن پہلے جو پھٹے ہوئے پیج کے چرچے ہو رہے تھے وہ سب بھی عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف تھا۔ وزیراعظم کے اطمینان کی وجہ بڑی واضح تھی اور وہ حالیہ متنازعہ قانون سازی کے حوالے سے اس لیے پر امید تھے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ جن کے یہ بلز ہیں وہ انہیں خود ہی پاس کروا لیں گے۔

ان میں چار بل بہت اہم تھے۔ ایک زانی کو نامرد کرنے کی سزا سے متعلق، دوسرا کلبھوشن کو اپیل کا حق دینے کے حوالے سے، تیسرا ای وی ایم سے متعلق اور چوتھا اوور سیز پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینے کے معاملے پر۔ بنظر غائر دیکھا جائے تو ان چاروں بلوں کا تعلق عمران نیازی حکومت سے نہیں تھا اسی لیے وہ بے نیازی دکھا رہے تھے۔ جن کی سر دردی تھی انہوں نے جادو کی چھڑی چلائی اور پلک جھپکتے ہی قانون سازی کروا ڈالی۔ کسی کو اب بھی یقین نہ آئے تو ڈاکٹر عامر لیاقت حسین کا ویڈیو کلپ دیکھ لے جس میں وہ فرما رہے ہیں کہ وہ خود نہیں آئے بلکہ اہتمام سے لائے گئے ہیں۔

موجودہ حکومت تین ستونوں پر کھڑی تھی۔ کرپشن کا خاتمہ، انڈیا سے تعلقات اور ناموس رسالتﷺ۔ ناموس رسالتﷺ کا نعرہ اس حکومت کے گلے ایسا پڑا کہ بعد از بسیار خرابی ٹی ایل پی سے بمشکل این آر او لے کر بقیہ ایام پورے کرنے کی سبیل نکل سکی۔ کرپشن کے نعرے کا تو وہ انجام ہوا جو اس بار ٹی 20 ورلڈ کپ میں انڈیا کا ہوا۔ پاکستان کرپشن کا خاتمہ کرنے والوں کی حکومت میں کرپشن کے میدان میں مزید تنزل کا شکار ہو گیا۔ باقی رہ گیا مودی کے یار اور غدار والا ہاتھوں ہاتھ بکنے والا نعرہ تو اس کا حشر بھی باقی دو نعروں کی طرح نہایت ابتر ہوا۔

وہ عمران خان جو پچھلی حکومت میں نواز شریف پر طنز کرتے تھے کہ وہ اپنے ذاتی مفاد اور مودی سے یارانے کی وجہ سے کلبھوشن کا نام بھی نہیں لے سکتے اور بار بار اسے پھانسی دینے کا مطالبہ کرتے تھے، حالات کی ستم ظریفی اور سیاست کے جبر نے انہیں اس قدر مجبور کر دیا کہ وہ اپنی حکومت میں اسی کلبھوشن کو اپیل کا حق دینے کے لیے اسمبلی میں قانون سازی کرتے نظر آئے۔

چاروں بلز کچھ منظور نظر اراکین کی وجہ سے معمولی اکثریت سے منظور ہو گئے۔ وزیراعظم اور ان کے حواریوں کو جشن طرب منانے کا پورا حق ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ اس قانون سازی کا فائدہ شاید ہی موجودہ حکمران پارٹی کو پہنچ سکے۔ ایک بل تو ایف اے ٹی ایف کو رام کرنے کے لیے پاس کروایا گیا مگر مذہبی طبقہ اسے ہر گز ٹھنڈے پیٹوں برداشت نہیں کرے گا کیونکہ زانی کو نامرد کرنے کا قانون اسلام، آئین اور بنیادی انسانی حقوق کے خلاف ہے۔ کیونکہ اگر مجرم شادی شدہ ہے تو اس کے جرم کی سزا اس کے ساتھ اس کی اہلیہ کو بھی ملے گی۔

اوور سیز پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینا اس لیے ضروری تھا تاکہ بادشاہ گر اسی نوے لاکھ ووٹوں کو استعمال کر کے اپنے منظور نظر اور طابع فرمانوں کو جتوا سکیں۔ بلوچستان میں بعض حلقے ایسے بھی ہیں جہاں کل ووٹ ہی آٹھ دس ہزار ہیں۔ ایسے حلقوں میں جادو کی چھڑی چلا کر انتخابی نتائج کو اتھل پتھل کرنا کون سا مشکل ہے اور ای وی ایم کی برکات کی وجہ سے بادشاہ گروں پر انگشت نمائی بھی محال ہو گی۔

جن کرداروں کے طفیل سقوط کشمیر ہوا وہی ایک عرصے سے کلبھوش کو باعزت اپنے ملک بھیجنے کے لیے بے تاب ہیں۔ کلبھوشن کیس کے حوالے سے ہم پہلے دن سے لکھتے آرہے ہیں کہ ہمارے نمبر ون نے یہ ڈراما اس قدر غیر پیشہ ورانہ اور بھونڈے انداز میں کھیلا ہے کہ وہ دنیا میں بری طرح بدنام ہو رہے ہیں۔ مزید بد نامی سے بچنے کا واحد راستہ یہ ہے کہ نواز شریف کے یار مودی کو کلبھوشن تزک و احتشام سے واپس کیا جائے۔

وزیراعظم، ان کی کابینہ، اراکین و حالی موالی ای وی ایم پر بھلے دھمال ڈالتے رہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ بقول زرداری صاحب جو بیج پی ٹی آئی کے ذریعے سینچا گیا اس کا پھل کوئی اور کھائے گا۔ یہ پھل کھانے والی زرداری کی اپنی پارٹی بھی ہو سکتی ہے، یہی وجہ ہے کہ اس کے اپنے چار پانچ اراکین اجلاس سے غیر حاضر رہے۔

ہمارے بادشاہ گر آر ٹی ایس بٹھاتے، بندے اٹھواتے، پولنگ ایجنٹ اغوا کرواتے، دھند طاری کرواتے، سیاسی اتحاد بنواتے، پیسے بانٹتے، بکسے چوری کرواتے، تڑیاں لگاتے، دھونس، دھمکی اور دھماکے کرواتے، ٹھپے پہ ٹھپے لگاتے، جعلی ووٹ ڈالتے اور ووٹوں کی گنتی میں گڑ بڑ کرتے بہت تھک چکے ہیں۔ بدنامی الگ ہوتی ہے۔ اب مزے سے بیٹھے جادو کی چھڑی اس طرح چلائیں گے کہ خود نلوہ بچ نکلیں گے اور سب الزام نگوڑی ای وی ایم پر آئے گا۔

واقفان حال اور بصیرت والے آنے والے انتخابات میں دو ہزار تیرہ کی طرح ایک بار پھر عمران احمد نیازی کو ملکی تاریخ کی بد ترین دھاندلی کا الزام لگا کر سڑکوں پر واویلا کرتے اور سیاپا ڈالتے ہوئے دیکھ رہے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments