دوسرے مذہب میں شادی کے سوال پر


بعض اوقات ایسے واقعات سننے میں آتے ہیں کہ کوئی مسلمان لڑکا یا لڑکی کسی شخص سے محبت کرکے شادی کرنے کے لیے پہلی شرط یہ رکھ دیتے ہیں کہ سامنے موجود شخص کو اپنا مذہب بدل کر مسلمان ہونا ہوگا۔  ایسا نہیں ہے کہ ہمیشہ ہی ایسا ہوتا ہو، مگر ایسا ہوتا ضرور ہے۔ اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اس طرح کی  کوششیں ہمارے معاشرے میں عام ہیں اور ‘لو جہاد’ اور ‘جبری مذہب بدلوانے ‘ کے تمام تر الزامات کے باوجود  ایسا ہوتا ضرور ہے۔ بین المذہبی شادیوں کے حوالے سے ایک آن لائن بحث میں کہیں میں نے یہ بات سنی تھی کہ اگر کوئی مسلمان لڑکا یا لڑکی ایسی کوئی شرط رکھے بھی تو کچھ غلط نہیں ہے کیونکہ ہندوستانی قانون  کسی بھی شخص کو اپنی مرضی کا مذہب اپنانے کی اجازت دیتا ہے۔ ایسی ہی ایک بات ہمارے ایک  دوست نے بھی کہی تھی کہ میں اگر کسی غیر مسلم لڑکی سے شادی کرنا چاہوں گا تو اسے پہلے اسلام قبول کرنا ہوگا اور اس میں کچھ غلط بھی نہیں ہے کیونکہ ہندوستان کا قانون مجھے اس بات کی اجازت دیتا ہے۔ تب بھی  میرا سوال یہی تھا کہ جب ہم کسی شخص سے محبت کرتے ہیں تو اس کا مذہب ، فرقہ، شناخت یا رہن سہن آڑے نہیں آتا ہے، پھر شادی کے سوال پر اچانک ہمارے ذہن میں یہ تمام باتیں کیوں پیدا ہوجاتی ہیں۔

جہاں تک قانون کی بات ہے، اس پر میری رائے ہمیشہ یہی رہی ہے کہ قانون سے زیادہ اس معاملے میں سماجی رویہ اثر انداز ہوتا ہے۔ مسلمانوں کے اس رویے سے ان کی کسی بھی رشتے کے مقابلے میں اپنے مذہب سے ایمانداری واضح ہوتی ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ وہ اپنے مذہب یا اپنے مذہبی عقیدے پر کسی بھی رشتے، کسی بھی محبت کو مقدم نہیں رکھتے اور شاید ساری برائی اسی بات میں ہے۔ کوئی شخص کہہ سکتا ہے کہ ہم چونکہ مسلمان ہیں اور قرآن کی آیتیں اس حوالے سے صاف ہیں کہ کسی مشرک یا کافر سے نکاح ممکن نہیں ہے ، اس لیے ہمارا یہ مطالبہ سراسر جائز ہے تو اس سے میں یہی کہوں گا کہ وقت کے ساتھ  وہی مذہب آگے کی طرف رواں دواں رہ سکتے ہیں ، جو اپنے عقائد اور لکھی ہوئی آسمانی  باتوں پر غیرلچکدار طریقے سے جمے رہنے کی بجائے حالات کے موافق اپنے اندر ریفارم کی گنجائش رکھیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ شادی دو لوگوں کی ذاتی پسند و ناپسند کا معاملہ ہے، مگر چونکہ یہ ایک سماجی رسم ہے، اس لیے جب دو لوگ ایک دوسرے کو پسند کرتے ہیں تو ان میں سے ایک کے آگے تبدیلی مذہب کی شرط رکھنا دراصل اسے جذباتی طور پر بلیک میل کرنا ہے۔ آپ نے کسی انسان کو عقیدے ، مذہب اور شناخت کے سوالات سے اوپر اٹھ کر پسند کیا ہے تو اس سے شادی کرتے وقت بھی اس جرات کو پیش نظر رکھنا ضروری ہے۔ اس معاملے میں ہندی کی ادیبہ اور فکشن نگار ناصرہ شرما کی یہ باتیں آپ کے گوش گزار کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔

‘جب آپ کسی دوسرے مذہب  والے سے شادی طے کرتے ہیں ، تو اس بات پر دھیان دینا بے حد ضروری ہے کہ آپ کا جیون ساتھی جس دھرم، ماحول، بھاشا، کھان پان کا عادی رہا ہے۔ اس کو اس کے  سکھ سے الگ کرنے کا آپ کا کوئی حق انسانی نظریے سے نہیں بنتا ہے۔اگر یہ کھُلا پن نہیں ہے  تو پھر اس شادی کا کوئی مطلب نہیں رہ جاتا ہے۔’

بہت ہی بنیادی بات یہ ہے کہ کسی بھی انسان کی پہچان اور اس کے ماحول کو بدلوانے کا حق ہمیں نہیں ہے۔ اگر کوئی شخص محبت سے شادی کرتے وقت ایسا کوئی مطالبہ کرتا ہے تو ہمیں لاکھ تکلیف ہو، مگر اس شخص سے رشتہ توڑنا ہی بہتر ہے کیونکہ وہ آپ کی شخصیت  کو مکمل طور پر اس کی اصل پہچان کے ساتھ قبول کرنے سےانکار کررہا ہے۔ جہاں تک بات رہی قانونی اجازت کی تو میں اس معاملے میں قانون کو ایک طرفہ اور غیر ضروری بہانے سے زیادہ اور کچھ نہیں سمجھتا۔ کیونکہ بھارت میں ہی ابھی بھی ایسے کئی قانون  ہیں، جنہیں ہم اچھی نگاہ سے نہیں دیکھتے اور چاہتے ہیں کہ یا تو وہ بدل جائیں یا ختم کردیے جائیں۔ جیسے کہ حکومت سے  غداری یا بغاوت وغیرہ کے تعلق سے جو قانون موجود ہیں، ان پر اکثر سوالات قائم ہوتے ہی رہتے ہیں۔اسی طرح ابھی تک ہم جنسی تعلقات کو قانونی طور پرمنظوری نہیں ملی تھی، مگر کیا اس کی وجہ سے ہم کہہ سکتے ہیں کہ وہ تعلقات جو اس قانون کے منظور ہونے سے پہلے وجود میں آئے، غیر انسانی   یا قابل تعزیر تھے؟  اگر آپ کسی غیر مسلم لڑکے یا لڑکی سے شادی کرنے کے خواہش مند ہیں تو یہ سوال سب سے پہلے اپنے آپ سے پوچھیے کہ آپ کے لیے زیادہ اہمیت کس بات کی ہے؟ اپنے مذہب کی یا اس شخص کی، جس سے آپ محبت کرتے ہیں؟ یہ سوال خود سے پوچھنا اس لیے ضروری ہے کیونکہ کسی کو اس کی مکمل شناخت کے ساتھ قبول نہ کرنے والا شخص ، کسی دوسرے شخص سے وقتی طور پر متاثر تو ہوسکتا ہے، اس سے محبت نہیں کرسکتا۔ کیونکہ محبت ہی تو وہ عظیم جذبہ ہے، جس میں سارے فرق بھول کر کسی کے نزدیک چلے جانے کی ہمت ہے۔ اور اگر محبت نہیں ہے تو کبھی نہ کبھی یہ سوال آپ کے ذہن میں ضرور پیدا ہوگا کہ اس شخص کی مذہبی پہچان  مجھ سے الگ ہے، اوپر سے سماج آپ کو یہ کہہ کر ڈراتا رہے گا کہ تمہارے بچوں کا مستقبل کیا ہوگا؟ ان کی زندگی کیسی ہوگی؟ ان باتوں سے باہر آکر ایک بار یہ ضرور دیکھنا چاہیے کہ آپ   اپنے ہونے والے بچوں پر اپنے مذہب کو جس طرح تھوپنا چاہ رہے ہیں، وہی خیال اس بات کے لیے کافی ہے کہ آپ اپنے مذہبی  دائرے سے نکل کر کسی سے محبت نہیں کرسکتے۔

ہندوستان میں یہ بحث بہت عام ہے کہ مسلمان شادی کو بھی ایک طرح سے مذہب تبدیل کروانے کے ٹول کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ مسلمانوں کو یہ باتیں بری بھی بہت لگتی ہیں اور اکثر مسلم علما اس بات کو ایک الزام سے زیادہ اہمیت دینے کو تیار نہیں ہوتے۔ میں خود مانتا ہوں کہ باقاعدہ منصوبی بندی کے ساتھ شادیوں کے نام پر تبدیلی مذہب کی کوئی کوشش نہیں کی جارہی ہے، جسے کٹر ہندووادی لوگ ‘لوجہاد’ سے تعبیر کرتے ہیں۔ مگر اس بات کو سرے سے خارج بھی نہیں کرسکتا کہ بیشتر مسلمان اس طرح کی شرطیں ، شادی سے پہلے اپنے محبوب یا محبوبہ کے سامنے رکھ دیتے ہیں، جس کی وجہ سے ایک خراب تاثر تو بہرحال پیدا ہوتا ہی  ہے اور اس بات کو قبول کرنے سے ہمیں جھجھکنا بھی نہیں چاہیے۔

اوپر اپنے جس دوست کا میں نے تذکرہ کیا اس نے ایک بات اور کہی تھی کہ میں اگر کسی غیر مسلم لڑکی سے شادی کروں گا تو اس کا مذہب اس لیے بھی بدلوانا چاہوں گا کیونکہ میں اپنے ماں باپ کا دل نہیں دکھانا چاہتا۔وہ ماں باپ، جنہوں نے مجھے پال پوس کر اتنی محنت و مشقت سے بڑا کیا اور کسی لائق بنایا ہے۔ لیکن عجیب بات ہے کہ موصوف کو اپنی محبوبہ کے سامنے تبدیلی مذہب کی شرط رکھتے وقت یہ خیال بالکل نہیں آئے گا کہ اس کے گھر والوں نے اس کے پالن پوشن پر بھی کافی محنت کی ہوگی اور اس کے دھرم پریورتن سے اس کے گھروالوں کو بھی ایک جذباتی صدمہ ضرور پہنچے گا۔ اس لیے اول تو ایسے لوگ ، جن کے لیے مذہب ہی اوڑھنا بچھونا ہے، اور جو اپنے مذہب کو گلے میں تعویذ کی طرح ڈال کر گھومنا لازمی سمجھتے ہیں، انہیں چاہیے کہ محبت بھی اپنے کسی ہم مذہب سے ہی کریں۔ اور اگر دل کے ہاتھ ناچار ہوکر کسی دوسرے مذہب  کے انسان سے انہیں محبت ہوجائے تو اس کے  سامنے شرط رکھنے سے پہلے یہ ضرور سوچ لیں کہ اگر ان کے سامنے ایسی کوئی شرط رکھی جائے گی تو وہ کیا کریں گے۔

یہ مسئلہ بہت پرانا ہے اور اس مسئلے پر منٹو جیسے افسانہ نگار نے ‘دو قومیں ‘ نامی ایک کہانی بھی لکھی ہے۔ منٹو نے بھی اس شرط کو ایک بے ہودہ اور بے وقوفانہ سوچ سے تعبیر کیا ہے۔دوستوں کو وہ کہانی پڑھنی چاہیے۔ بہرحال، اسی لیے میں ایسے تمام غیر مسلم افراد سے یہ کہنا چاہوں گا کہ اگر آپ کسی مسلمان سے محبت کربیٹھے ہیں ، اور وہ شادی کے سوال پر آپ کے سامنے اسی طرح کی کوئی شرط رکھتا ہے تو اسے ہرگز  قبول نہ کیجیے کیونکہ ایسا شخص جو آپ کو  آپ کی تہذیب یا ثقافت سے الگ کرکے، اپنی ثقافت کے سانچے میں ڈھال لینا چاہتا ہو ، آپ سے پیار نہیں کرتا،سودا کرتا ہے، اپنی انا کی تسکین کرتا ہے۔ پیار بہت اچھا اور خوبصورت جذبہ ہے، مگر اس کی وجہ سے کسی کے ہاتھوں استعمال ہونا سراسر بے وقوفی ہے۔ محبت کیجیے تو ایسے کہ اپنی یا کسی کی نگاہ میں آپ کو شرمندگی نہ اٹھانا پڑے۔آپ سر اٹھا کر دنیا سے یہ کہہ سکیں کہ آپ نے جس انسان کو محبت کے لیے چنا ہے، اس کے لیے آپ کی شکل صورت، تہذیب، شناخت اور مذہب سے زیادہ اہمیت آپ کی ہے اور ہمیشہ رہے گی۔ ظاہر ہے کہ دوسری صورت میں یہی مشورہ میں مسلمان لڑکے لڑکیوں کو بھی دوں گا، اگر کوئی غیر مسلم ان کے سامنے یہ شرط رکھ دے تو۔۔۔ویسے ایسا ہوتے میں نے بہت کم دیکھا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments